Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 58
وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ فَكُلُوْا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّ قُوْلُوْا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطٰیٰكُمْ١ؕ وَ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ
وَاِذْ قُلْنَا : اور جب ہم نے کہا ادْخُلُوْا : تم داخل ہو هٰذِهِ : اس الْقَرْيَةَ : بستی فَكُلُوْا : پھر کھاؤ مِنْهَا : اس سے حَيْثُ شِئْتُمْ : جہاں سے تم چاہو رَغَدًا : با فراغت وَادْخُلُوْا : اور تم داخل ہو الْبَابَ : دروازہ سُجَّدًا : سجدہ کرتے ہوئے وَقُوْلُوْا : اور کہو حِطَّةٌ : بخش دے نَغْفِرْ : ہم بخش دیں گے لَكُمْ : تمہیں خَطَايَاكُمْ : تمہاری خطائیں وَسَنَزِيْدُ : اور ہم عنقریب زیادہ دیں گے الْمُحْسِنِیْنَ : نیکی کرنے والوں کو
اور جب ہم نے ان سے کہا کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ اور اس میں جہاں سے چاہو خوب کھاؤ (پیو) اور (دیکھنا) دروازے میں داخل ہونا تو سجدہ کرنا اور حطۃ کہنا ہم تمہارے گناہ معاف کردیں گے اور نیکی کرنے والوں کو اور زیادہ دیں گے
انعام دہم : واذ قلنا ادخلوا ھذہ القریۃ الایۃ۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اس آیت میں قریہ سے بیت المقدس مراد ہے اور یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب بنی اسرائیل چالیس سال کے بعد میدان تیہ سے یوشع بن نون (علیہ السلام) کی معیت میں نکلے۔ جمعہ کی شام کو بیت المقدس فتح ہوا اور کچھ دیر کے لیے سرج روکا گیا یہاں تک کہ یوشع بن نون (علیہ السلام) کو فتح حاصل ہوئی۔ اس وقت یہ حکم ہوا کہ تم اس شہر کے دروازہ میں سجدۂ شکر کرتے ہوئے اور زبان سے استغفار اور اپنے گناہوں کا اعتراف اور اقرار کرتے ہوئے داخل ہو جیسے حق جل جلالہ نے اپنے نبی (علیہ الصلوۃ والسلام) کو حکم دیا۔ اذا جاء نصر اللہ والفتح ورایت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا۔ فسبح بحمد ربک واتغفر۔ انہ کان توابا۔ جب اللہ کی نصرت اور فتح آپہنچی اور آپ نے لوگوں کو دین اسلام میں فوج در فوج داخل ہوتا ہوا دیکھ لیا تو اس کے شکر میں اللہ کی تسبیح اور تحمید اور استغفار کیجئے بیشک اللہ تعالیٰ بڑا توجہ فرمانے والا ہے۔ چناچہ نبی اکرم ﷺ جب فتح مکہ مکرمہ کے لیے تشریف فرما ہوئے تو مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے وقت خشوع اور خضوع تواضع اور تذلل کے آثار آپ ﷺ سے ظاہر اور نمایاں ہورہے تھے۔ اس شان سے مکہ میں داخل ہوئے اور فتح ہوجانے کے بعد غسل فرمایا اور آٹھ رکعت نماز پڑھی۔ بعض علماء کے نزدیک یہ نماز صلوۃ الضحی یعنی چاشت کی نماز تھی۔ اور بعض کہتے ہیں کہ یہ صلوۃ الفتح تھی یعنی فتح مکہ کے شکر کی نماز تھی۔ سعد بن ابی وقاص ؓ جب ایوان کسری میں فاتحانہ داخل ہوئے تو محل میں پہنچ کر آٹھ رکعت نماز پڑھی آئندہ آیت میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ اور یاد کرو اس وقت کو جب کہا ہم نے کہ داخل ہو اس شہر میں پس کھاتے پھرو اس میں جہاں چاہو وسعت اور فراغت کے ساتھ اور داخل ہو اس کے دروازہ میں سجدہ کرتے ہوئے یہ شکر بدنی ہوا اور بخشش بخشش کہتے ہوئے۔ یعنی توبہ اور استغفار کرتے ہوئے اور اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہوئے داخل ہو۔ یہ شکر لسانی ہوا اور ان دونوں عملوں کی روح ندامت قلبی ہے پس اگر ایسا کرو گے تو ہم تمہاری تمام خطاؤں کو بخش دیں گے اور اخلاص کے ساتھ نیکی کرنیوالوں کے اجر میں بقدر ان کے اخلاص کے۔ پس بدل ڈالا ظالموں نے بات کو خلاف اس طریقہ کے کہ جو ان سے کہی گئی تھی۔ بجائے سجدہ کے سرین کے بل داخل ہوئے اور حطۃ کے بجائے حبۃ فی شعرۃ (گیہوں کا دانہ جو کے دانہ میں) ایک مہمل لفظ بطور تمسخر کے کہنے لگے۔ پس نازل کیا ہم نے ان لوگوں پر جنہوں نے ظلم کیا تھا ایک عذاب آسمان سے اس وجہ سے کہ وہ حکم عدولی کرتے تھے۔ یعنی اس درجہ بےباک تھے کہ بجائے اس کے کہ نعمت کا شکر کرتے بےادبی کی اور توبہ اور استغفار کی جگہ مسخرا پن اور ہنسی کا طریقہ اختیار کیا اس لیے عذاب دئیے گئے اور بجائے اور توبہ اور استغفار کی جگہ مسخرا پن اور ہنسی کا طریقہ اختیار کیا اس لیے عذاب دئیے گئے اور بجائے علیہم کے علی الذین ظلمو۔ کہنے میں اشارہ اس طرف ہے کہ یہ عذاب تمام بنی اسرائیل پر نازل نہیں کیا گیا۔ بلکہ خاص ان لوگوں پر نازل کیا گیا جنہوں نے حکم عدولی کی اور اللہ کے حکم کے ساتھ استہزاء اور تمسخر کیا۔ سعید بن جبیر فرماتے ہیں رجز سے مراد طاعون ہے۔ اور سعد بن مالک اور اسامۃ بن زید اور خزیمۃ ابن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ طاعون رجز یعنی عذاب ہے جس سے پہلے لوگوں کو عذاب دیا گیا (رواہ النسائی) کہا جاتا ہے کہ اس طاعون سے ایک ساعت میں ستر ہزار آدمی مرے
Top