Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 137
قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ١ۙ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ
قَدْ خَلَتْ
: گزر چکی
مِنْ قَبْلِكُمْ
: تم سے پہلے
سُنَنٌ
: واقعات
فَسِيْرُوْا
: تو چلو پھرو
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں
فَانْظُرُوْا
: پھر دیکھو
كَيْفَ
: کیسا
كَانَ
: ہوا
عَاقِبَةُ
: انجام
الْمُكَذِّبِيْنَ
: جھٹلانے والے
تم لوگوں سے پہلے بھی بہت سے واقعات گزر چکے ہیں تو تم زمین میں سیر کر کے دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہو
رجوع بسوئے قصہ احد وتسلیہ اہل اسلام بہ گونہ گوں۔ قال اللہ تعالی۔ قد خلت من قبلکم۔۔۔۔۔ الی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الشاکرین۔ آیت۔ ربط) گزشتہ آیات میں واقعہ احد کا بیان تھا اب پھر قصہ احد کی طرف رجوع فرماتے ہیں جس میں مسلمانوں کی ہزیمت کے اسباب کو بھی بیان فرمایا کہ صبر اور تقوی اور اطاعت رسول میں تقصیر کی وجہ سے فتح کے بعد تم کو یہ ہزیمت پیش آئی مگر ساتھ ہی ساتھ بار بار تسلی بھی دی گئی کہ تم مت گھبراؤ فی الحال اگرچہ کفار کو غلبہ ہوا مگر انجام کار تم ہی غالب رہو گے اور بار بار حضرات صحابہ کی اس لغزش کے عفو اور معافی کا اعلان فرمایا تاکہ حضرات صحابہ کے ٹوٹے ہوئے دل دوبارہ جڑجائیں اور محبین اور مخلصین کو جو بمقتضائے بشریت لغزش کی وجہ سے اضطراب اور بےچینی لاحق ہوئی ہے وہ مبدل بسکون و اطمینان ہوجائے اور قیامت کے دن ان محبین اور مخلصین صحابہ کے طاعنین (خوارج اور روافض) کی زبانوں پر مہر لگادی جائیکہ اللہ کے عفو اور اعلان رضاء کے بعد کسی کی مجال نہیں کہ اللہ اور اس کے عاشقوں کی لغزش کو زبان پر لاسکے جس کی راہ میں لغزش ہوئی تھی اس نے ولقد عفا عنکم۔ آیت۔ کا اعلان کردیا اب بھی اگر کوئی صحابہ کرام کو معاف نہیں کرتا تو صحابہ کرام کی بلا سے جو اللہ کی معافی کے بعد بھی معاف نہ کرے اللہ اسے معاف نہ کرے گا چناچہ ارشاد فرماتے ہیں تحقیق گذر چکے ہیں تم سیپہلے بہت سے واقعات یعنی تم سیپہلے بھی مسلمانوں اور کافروں کے درمیان لڑائیاں ہوئیں اور ان میں کبھی کبھی مسلمانوں کو تکلیفیں بھی آئیں لیکن انجام بغیر ہمیشہ انہیں کا ہوا پس زمین میں چل کر دیکھ لو کہ رسولوں کے جھلانے کا انجام کیسا ہوا ان کی تباہی اور بربادی کے آثار اب بھی موجود ہیں کما قال تعالی، فتلک بیوتھم۔۔۔۔ الخ۔ وانھما لبامام مبین۔ آیت۔ اور یہ مضمون مذکور عاملوگوں کے لیے بیان شافی اور اظہار حقیقت ہے اور خاص اللہ سے ڈرنے والے کیلیے ہدایت اور نصیحت ہے جو اللہ کی ہدایتوں اور نصیحتوں پر عمل کرتے ہیں اور اے مسلمانو تم اس وقت کی ہنگامی پسپائی سے ملول ومایوس ہو کر نہ ہمت ہارو اور نہ آئندہ جہاد میں سستی کرو اور جو شہید ہوگئی ہیں ان پر غمگین اور آزردہ خاطر نہ ہوا اس وقت اگرچہ کافروں نے غلبہ پا لیا ہے لیکن اخیرفتح تمہاری ہوگی اور بلاآخر باطل کے مقبلہ میں حق مظفر ومنصور اور غالب ہو کررہے گا اور تم ہی بلند اور غالب رہو گے اگر تم پورے مومن اور ٹھیک ٹھیک ایمان کے مقتضی پر چلتے رہو اور اطاعت رسول سے ذرہ برابر بھی انحراف نہ کرو اگر تم کو اس لڑائی میں یعنی معرکہ احد میں کوئی زخم لگا ہے تو جماعت کفار کو بھی معرکہ بدر میں ایسا ہی ایک زخم لگ چکا ہے۔ باوجود اس کے وہ تم سے لڑنے میں ضعیف اور سست نہیں پڑے تو تم کیوں سست رہے ہو تم سے تو اللہ کا وعدہ ہے اور ان سے کوئی وعدہ نہیں پھر تمکیوں حق کی حمات میں ہمت ہارتے ہو اور علاوہ ازین یہ دن لوگوں میں ہم باری باری سے پھیرتے رہتے ہیں یعنی حق تعالیٰ بمقتضائے حکمت، فتح وشکست کے دنوں کو لوگوں میں بدلتے رہتے ہیں کبھی اہل حق، اہل باطل پر فتح پاتے ہیں اور کبھی اس کے برعکس ہوتا ہے جس میں اس علیم و حکیم کی بیشمار حکمتیں اور مصلحتیں ہیں اور اس غزوہ احد میں مسلمانوں کو کافروں کے ہاتھ سے تکلیف پہنچانے میں بھی چند مصلحتیں ہیں ایک تو یہ کہ سچے ایمان والوں کو منافقین سے ممتاز اور الگ کردے اہل اخلاص اور اہل نفاق دونوں کا رنگ صاف صاف اور جدا جدا نظر ا آنے لگے اور پکے اور سچے مسلمانوں کا جھوٹوں اور کچوں سے امتیاز ہوجائے اگر ہمیشہ اہل ایمان اور اہل حق ہی کو غلبہ اور فتح ہوا کرے تو لوگ ایمان لانے پر مجبور ہوجائیں گے اور ایمان لانا اختیاری نہ رہے گا اور دوسری مصلحت یہ ہے کہ تم میں سے بعض کو شہید بنائے یعنی تم میں سے بعض کو درجہ شہادت کا عطا کرے اگر ہمیشہ غلبہ اہل ایمان کو ہو تو پھر شہادت کا رتبہ کہاں سے ملے اور اللہ ظالموں کو یعنی ناحق والوں کو دوست نہیں رکھتا پس اگر کسی وقت کافر تم پر غالب آگئے تو اس سے نہ سمجھنا کہ اللہ کو ان سے محبت ہے تم مطمئن رہو، ہر حال میں محب اور محبوب تم ہی ہو اور تیسری مصلحت یہ ہے کہ اہل ایمان کو نکھار دے یعنی گناہوں کا میل کچیل ان سے صاف کردے اس لیے کہ مصائب وآلام سے اخلاص اور اعملا کتزکیہ اور تجلیہ اور تصفیہ ہوجاتا ہے اور شہادت سے سوائے قرض کے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور چوتھی مصلحت یہ ہے کہ کافروں کو مٹائے یہ دو طرح سے ہوگا کہ ایک تو یہ کہ جب اہل حق اور اللہ کے دوستوں پر ظلم اور تعدی ہوگا تو قہر خداوندی جوش میں آئے گا اور شدت کے ساتھ اپنے دوستوں کا اپنے دشمنوں سے انتقام لے گا دوسرے یہ کہ کافر اپنی اس عارضی فتح پر مغرور اور مسرور ہو کر ان کی جرات بڑھے گی اور دل کھول کر اور پوری تیاری اور پورے لاؤ لشکر کے ساتھ دوبارہ مسلمانوں سے مقابلہ کیلیے آئیں گے اس وقت اللہ ان کو پوری شکست دیں گے جیسا کہ جنگ میں ایک فریق از خود اس لیے پسپا ہوتا ہے کہ پلٹ کر اور سنبھل کر اپنے دشمن پر اس طرح حملہ کروں کہ دشمن محاصرہ میں آجائے اور کسی طرح ہمارے چنگل سے نکل نہ سکے پس یہ پسپائی صورتا شکست ہوئی مگر حقیقت میں عین فتح ہوتی ہے۔ اور غنیم ظاہر میں اگرچہ فتح یاب ہورہا ہے لیکن درحقیقت موت کے منہ میں جارہا ہے اللہ اپنے پیغمبروں کے دشمنوں کو اس طور سے ہلاک کرتے ہیں۔ واللہ محیط بالکافرین۔ آیت۔ خلاصہ کلام یہ کہ اللہ نے ان آیات میں ان مسلمانوں کو جو جنگ احد میں شریک تھے سستی اور کم ہمتی کی ممانعت فرمائی اور وقتی طور پر جو شکست ہوئی تسلی کے لیے اس کی حکمتیں اور مصلحتیں بیان فرمائی اب آئندہ آیات میں اپنے محبین و مخلصین کی ایک شکایت ہے اور ایک ان کو نصیحت ہے شکایت تو یہ ہے کہ تم خود پہلے سے یہ تمنا کرتے تھے کہ کاش ہم کو بھی جنگ بدر کی طرح کوئی موقعہ ملے کہ ہم بھی اصحاب بدر کی طرح اللہ کی راہ میں مقتول اور شہید ہوں پس جب یہ موقعہ سامنے آیا پھر کیوں گھبرائے اور نصیحت یہ ہے کہ بغیر جہاد اور صبر کے سعادت اخروری نصیب نہیں ہوتی چناچہ فرماتے ہیں کہ کیا تم نے یہ خیال کرلیا کہ جنت میں داخل ہوجاؤ اور اس کے اعلی مقامات اور بلند درجات پر فائز ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی تک اللہ نے ممتاز نہیں کیا ان لوگوں کو جو تم میں سے مجاہد ہیں اور نہ جدا کیا صابرین کو یعنی کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ محض مسلمان ہونے کی بنا پر بغیر جہاد کے اور بغیر تکلیف کے ہی جنت میں داخل ہوجاؤ گے خوب جان لو کہ جب تک اللہ تمہارا امتحان لے کرمجاہدین کو غیر مجاہدین سے اور صابرین کو غیر صابرین سے لوگوں کی نظر میں واضح طور پر جدا اور ممتاز نہ کردے اس وقت تک درجات عالیہ کی تمنا ایک خیال خیال ہے اور شدائد ومصائب کو دیکھ کر تمہارے پائے استقامت میں کیو تزلزل آیا حالانکہ تحقیق تم تو موت کے سامنے آنے سے پہلے ہی موت کی تمنا اور آرزو کرتے تھے تم ہی نے شوق شہادت میں جنگ احد کے وقت یہ مشورہ دیا تھا کہ مدینہ سے باہر نکل کر لڑنا چاہیے پس تم نے اپنی تمنا اور آرزو یعنی موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا جب تمہاری تمنا تمہارے سامنے آگئی و پھر پیچھے کیوں ہٹتے ہو اور کیوں کمزوری دکھلاتے ہو۔ احد کی لڑائی میں کافروں کے ناگہانی حملہ کی وجہ سے بعض مسلمانوں کے قدم ہٹ گئے اور عین اس ہنگامہ میں کسی شیطان نے پکار کر کہا محمد ﷺ مقتول ہوگئے اس خبر وحشت اثر سے مسلمانوں کے ہوش اڑ گئے اور پاؤں اکھڑ گئے اور ہمتیں ٹوٹ گئیں اس وقت بعض کمزور مسلمانوں کی زبانوں یہ نکلا کاش عبداللہ بن ابی ہمارے لیے ابوسفیان سے امان حاصل کرے اور بعض منافقوں نے کہا اگر محمد نبی ہوتے تو قتل نہ ہوتے اب تم اپنے بھائیوں میں شامل ہوجاؤ اور اپنے پرانے دین کی طرف لوٹ جاؤ اس وقت حضرت انس بن مالک کے چچا حضرت انب النضر نے کہا اگر محمد قتل ہوگئے تو کیا ہوا رب محمد تو زندہ ہے اور اسے تو موت نہیں رسول اللہ کے بعد تم زندگیاں کو لے کر کیا کرو گے جس چیز پر آپ کافروں سے لڑے تم بھی اسی بات پر ان سے لڑو اور جس بات پر آپ نے جان دے دی تم بھی اسی پر جان دے دو ، یہ کہہ کر آگے بڑھے اور حملہ کیا یہاں تک کہ لڑتے لڑتے شہید ہوگئے ؓ اس پر اللہ نے یہ آیت نازل کی اور نہیں ہیں محمد مگر ایک رسول یعنی پیغمبر خدا، خدا نہیں جن پر موت اور فنا کا آنا محال ہو تحقیق آپ سے پہلے بہت سے رسول گذر چکے پس اگر محمد ﷺ مرجائیں یا شہید ہوجائیں تو کیا تم اپنے الٹے پاؤں پھر جاؤ گے پیغمبر کے قتل کی خبر سن کر پائے اسقامت میں تزلزل آجانا تمہاری شان رفیع کے لحاظ سے نمومہ ارتداد ہے ابن الفارض (رح) فرماتے ہیں۔ ولوخطرت لی فی سواک ارادۃ علی خاطری یوما حکمت برد تے۔ اے میرے محبوب اگر میرے دل میں تیرے سوا کا کسی وقت کوئی خیال اور خطرہ بھی آجائے تو میں اسی وقت اپنے مرتد ہونے کا حکم لگاؤں گا۔ عاشق صادق کے دل میں محبوب کے سوا کا خطرہ آنا یہ ارتداد فی المحبت ہے اور جو شخص اپنے ایڑیوں کے بل اپنے گزشتہ دین کی طرف واپس ہوجائے گا تو اللہ کا کچھ بگاڑے گا بلکہ اپنا ہی کچھ بگاڑے گا اور اللہ ضرور انعام دیں گے شکرگزاروں کو شاکرین سے وہ لوگ مراد ہیں جو اسلام اور ایمان اور ہدایت کے نعمت کے شکرگزار ہیں۔ اور رسول کی زندگی میں اور رسول کی وفات کے بعد دین حق پر قائم ہیں اور خدا کے لیے اور دین کی حفاظت کے لیے کسی حال میں جہاد سے سستی نہیں کرتے کیونکہ ان کا عمل اور رسول کے لیے نہیں ۃ ے کہ اس کی وفات کے بعد وہ عمل جاتا رہے بلکہ خالص اللہ کے لیے ہے جس کو کبھی موت اور فنا نہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ سے منقول ہے کہ اس آیت میں شاکرین سے حضرت ابوبکر ؓ اور ان کے ساتھی مراد ہیں جو دین پر قائم اور ثابت رہے اور ابوبکر صدیق امیر الشاکرین تھے (روح المعانی ص 67 ج 4) اس آیت میں تمام صحابہ کرام کو محبانہ عتاب ہے کہ اصل معبود اور مقصود وہ حی لایموت ہے اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں جو واسطہ فی العبودیت ہیں واستہ کے اٹھ جانے سے پائے استقامت میں کیوں تزلزل آیا امیرالشاکرین یعنی صدیق اکبر نے جب خطبہ دیا تو سب کو تسلی ہوگئی اور وقتی طور پر جو اضطراب پیش آیا تھا وہ دور ہوگیا اور امیر الشاکرین نے جب فتنہ ارتداد میں راہ استقامت اختیار کی اور مرتدین سے جہاد قتال کیا تو اللہ نے ان کو اس کی جزا دی یعنی فتح دی۔ اب آگے فرماتے ہیں کہ موت ہر ایک کی مقدر ہے وقت سے پہلے کوئی مرہی نہیں سکتا لہذا اسباب موت کے جمع ہوجانے سے جہاد قتال میں خوئی کمزوری اور پستی نہ آنے پائے اور نہ کسی بڑے یاچھوٹے کی موت کی خبر سن کر مایوس اور بددل ہوکربیٹھ رہنا چاہیے چناچہ فرماتے ہیں کہ کسی شخص کے لیے یہ ممکن نہیں کہ بغیر حکم خداوندی مرجائے موت نوشتہ خداوندی ہے اور مقید بقید وقت ہے لہذا جہاد میں جی چرانے اور پرہیز کرنے سے کوئی فائدہ نہیں کوئی شخص اپنے مقررہ وقت سے پہلے نہیں مرسکتا اگرچہ وہ ساری عمر ہلاکت کے مقامات اور جنگ کے میدانوں میں گھسا رہے اور جو شخص دنیا کا نفع چاہے گا ہم اس کو دنیا میں سے کچھ دیں گے اور جو شخص آخرت کا نفع چاہے گا ہم اس کو آخرت کے منافع میں سے دیں گے اور شکرگزار اور احسان ماننے والوں کو ضرور باضرور انعام دیں گے شاکرین سے وہ لوگ مرا د ہیں جو اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں اور جہاد جو کہ ایک نعمت الہی ہے اس میں نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ ثابت قدم رہے اور دشمن کے مقابلہ سے نہیں ہٹے ایسے لوگوں کو خاص انعام ملے گا۔ یعنی دین بھی ملے گا اور دنیا بھی ملے گی ان کے دل میں سکون ہوگا اور دنیا ان کے قدموں میں ہوگی۔ ان آیات میں اشارہ اس طرف ہے کہ جہاد میں فقط دنیوی منفعت پر نظر نہ ہونی چاہیے یہ کام منافق کا ہے کہ جس کا مطمح نظر فقط دنیاوی نفع ہو اور مومن مخلص وہ ہے کہ جس کا مطح نظر خاص آخرت ہو اور اصلی مطح نظر تو آخرت ہو اور تبعا کچھ مال غنیمت بھی مطلوب ہو تو مضائقہ ہیں لیکن یہ مقام رخصت ہے مقام عزیمت نہیں عجب نہیں کہ اس آیت میں ان لوگوں پر تعریض ہو جو جناب رسول اللہ کے خلاف حکم مورچہ چھوڑ کر مال غنیمت جمع کرنے کے لیے پہاڑ سے نیچے اتر آئے تھے اور جو کوہ استقامت تھے وہ پہاڑ پر آپ کے حکم کے مطابق ثابت قدم رہے یہ حضرات اصحاب عزیمت تھے اور جو لوگ پہاڑ سے اتر کر مجاہدین کے ساتھ مال غنیمت کے جمع کرنے میں آکر شریک ہوئے وہ اصحاب رخصت تھے اور یہ نیچے اترنے والے اگرچہ عزیمت کے لحاظ سے کم تھے مگر سارے عالم سے بالا اور برتر تھے۔ آسمان نسبت بہ عرش آفرود لیک بس عالی است پیش خاک تود فوائد ولطائف۔ 1۔ احد کی لڑائی میں ایک کافر نے پکار کر یہ کہا کہ میں محمد ﷺ کو مار آیا اور آپ کے بہت زخم آئے تھے جس سے بہت خون بہہ آیا تھا ضعف کی وجہ سے ایک گڑھے میں گر گئے مسلمانوں نے آپ کو نہ دیکھا اس لیے ان کو آپ کی شہادت کا یقین ہوگیا محبین وعاشقین کے تو اس خبر سے ہوش اڑ گئے اور پاؤں اکھڑ گئے اور بعض منافقین یہ کہنے لگے کہ جب محمد ﷺ نعوذ باللہ قتل ہوگئے تو ہمیں اسلام چھوڑ کر اپنا قدیم مذہب کی طرف واپس ہوجانا چاہیے اور انس بن النضر ؓ نے یہ کہا اگر محمد مقتول ہوگئے تو رب محمد تو مقتول نہیں ہوا جس چیز پر آپ نے جان دی اسی پر ہم کو جان دے دینی چاہیے۔ اسی اثناء میں جب نبی کو ضعف سے کچھ افاقہ ہوا اور ہشیار ہوئے تو آپ نے آواز دی الی عباد اللہ، انارسول اللہ، میرے طرف آؤ اے اللہ کے بندو میں اللہ کا رسول ہوں کعب بن مالک نے مسلمانوں کو للکار کر کہا یا معشر المسلمین اے گروہ مسلمین تم کو بشارت ہو رسول اللہ یہاں موجود ہیں تمام صحابہ سمٹ کر آپ کے قریب جمع ہوگئے۔ 2۔ اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی اور بتلا دیا کہ اللہ کا رسول زندہ رہے یا نہ رہے دین اللہ کا ہے اور اس پر قائم رہنا اور اشارہ اس طرف ہے کہ آئندہ نبی ﷺ کی وفات کے بعد کچھ لوگ مرتد ہوجائیں گے اور جو قائم رہیں گے ان کو بڑا ثواب ہوگا چناچہ اسی طرح ہوا کہ بہت سے لوگ حضرت کے بعد مرتد ہوئے اور حضرت صدیق اکبر نے انکو پھر مسلمان کیا اور بعضوں کو مار۔ 3۔ میدان احد میں نبی اکرم نے بہ نفس نفیس خود مجاہدین کی صفوں کو مرتب فرمایا صفیں درست کرنے کے بعد پہاڑ کا ایک درہ باقی تھا جہاں سے اندیشہ تھا کہ دشمن اسلام لشکر اسلام پر عقب سے حملہ آور ہوجائے اس جگہ پر آپ نے پچاس تیر اندازوں کا ایک دستہ مقرر فرمایا جن پر عبداللہ بن جبیر کو امیر مقرر فرمایا اور یہ ہدایت فرمائی کہ تم اپنے اس مرکز کو کسی حال میں نہ چھوڑنا، مسلمان خواہ غالب ہوں یا مغلوب حتی کہ اگر تم یہ دیکھو کہ جانور ہم کو اچک کرلے جارہے ہیں تو تم اپنی جگہ پر قائم رہنا یہاں تک کہ میں تمہارے پاس آدمی بھیجوں۔ اس ہدایت کے بعد جنگ شروع ہوگئی اور مجاہدین اسلام نے شجاعت کے جوہر دکھلائے اور اس بےجگری سے کافروں کا مقابلہ کیا کہ کافروں کو سوائے راستہ نظر نہ آیا اللہ نے جو فتح ونصرت کا وعدہ کیا تھا وہ پورا کردکھایا مشرکین شکست کھا کر بری طرح بھاگنے لگے مجاہدی نے مال غنیمت پر قبضہ کرنا شروع کردیا۔ پہاڑ سے جب ان پچاس تیر اندازوں نے یہ منظر دیکھا کہ کافر بھاگ چکے ہیں اور مسلمان مال غنیمت کے جمع کرنے میں مشغول ہیں تو سمجھے کہ فتح مکمل ہوگئی اب یہاں ٹھہرنا ضروری نہیں رہا عبداللہ بن جبیر نے کہا کہ کیا تم کو رسول اللہ کا ارشاد مبارک یاد نہیں رہا کہ رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ تم کسی حال میں اپنی جگہ سے نہ ٹلنا انہوں نے کہا کہ رسول اللہ کا یہ مطلب نہ تھا نبی کا اس حکم سے جو منشا تھا وہ پورا ہوگیا اب یہاں ٹھہرنے کی ضرورت نہ تھی یہ خیال کرکے نیچے اتر آئے اور مال غنیمت جمع کرنے میں مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوگئے حضرت عبداللہ بن جبیر اور ان کے چند رفقاء نے کہا کہ تم کو اختیار ہے ہم نبی اکرم کے ارشاد کے مطابق اپنی جگہ سے نہیں ہٹیں گے چناچہ عبداللہ بن جبیر اور ان کے گیارہ ساتھی درہ کی حفاظت پر باقی رہ گئے۔ مشرکین کے سواروں کا رسالہ اس وقت خالد بن ولید کے زیر کمان تھا (جو ابھی مشرف باسلام نہیں ہوئے تھے) انہوں نے دیکھا کہ درہ خالی ہے پلٹ کر درہ کی جانب سے حملہ کردیا دس بارہ تیر انداز ایک پورے رسالہ کے یلغار کی تاب نہ لاسکے تاہم عبداللہ بن جبیر اور ان کے رفقاء نے پورا مقابلہ کیا اور بالاآخر جام شہادت نوش فرمایا۔ مسلمان مجاہدین، اپنے عقب سے مطمئن تھے ناگہاں مشرکین کا پورا رسالہ ا اور ایک فوجی دستہ ان کے سروں پر جا پہنچا اور سامنے سے مشرکین کی فوج بھاگی جارہی تھی وہ یہ منظر دیکھ کر پلٹ پڑی، اب مسلمانوں کی جماعت دو طرف سے گھر گئی پیچھے سے سواروں کا دستہ آگیا اور آگے سے پیادوں کی فوج واپس آگئی اور خوب زور کے ساتھ مقابلہ ہوا جس میں بہت سے مسلمان شہید اور زخمی ہوئے اسی افراتفری میں عبداللہ بن قمیہ نے ایک بھاری پتھر نبی پر پھینکا جس سے حضور کے دندان مبارک شہید ہوئے اور چہرہ انور زخمی ہوگیا ابن قمیہ نے چاہا کہ آپ کو قتل کردے مگر مصعب بن عمیر جن کے ہاتھ میں اسلام کا جھنڈا تھا انہوں نے نبی پر نور کی حفاظت اور آپ کی طرف سے مدافعت میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا زخم کی شدت کی وجہ سے آپ ایک گڑھے میں گرگئے اور صحابہ کی نظروں سے پوشیدہ ہوگئے کسی شیطان نے یہ آواز لگا دی کہ محمد ﷺ قتل کردیے گئے الی آخر۔ اس واقعہ کو یاد رکھیں کیونکہ آئندہ آیات میں اس واقعہ کے اجزاء کی طرف بار بار اشارہ ہے ان آیات کا سمجھنا اس واقعہ کے جاننے پر موقوف ہے اس لیے اس واقعہ کا استحضار ضروری ہے۔
Top