Maarif-ul-Quran - Az-Zumar : 71
وَ سِیْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى جَهَنَّمَ زُمَرًا١ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْهَا فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَ قَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَاۤ اَلَمْ یَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ یَتْلُوْنَ عَلَیْكُمْ اٰیٰتِ رَبِّكُمْ وَ یُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَآءَ یَوْمِكُمْ هٰذَا١ؕ قَالُوْا بَلٰى وَ لٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ
وَسِيْقَ : اور ہانکے جائیں گے الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَفَرُوْٓا : کفر کیا (کافر) اِلٰى : طرف جَهَنَّمَ : جہنم زُمَرًا ۭ : گروہ در گروہ حَتّىٰٓ اِذَا : یہاں تک کہ جب جَآءُوْهَا : وہ آئیں گے وہاں فُتِحَتْ : کھول دیے جائیں گے اَبْوَابُهَا : اس کے دروازے وَقَالَ : اور کہیں گے لَهُمْ : ان سے خَزَنَتُهَآ : اس کے محافظ اَلَمْ يَاْتِكُمْ : کیا نہیں آئے تھے تمہارے پاس رُسُلٌ : رسول (جمع) مِّنْكُمْ : تم میں سے يَتْلُوْنَ : وہ پڑھتے تھے عَلَيْكُمْ : تم پر اٰيٰتِ رَبِّكُمْ : تمہارے رب کی آیتیں (احکام) وَيُنْذِرُوْنَكُمْ : اور تمہیں ڈراتے تھے لِقَآءَ : ملاقات يَوْمِكُمْ : تمہارا دن ھٰذَا ۭ : یہ قَالُوْا : وہ کہیں گے بَلٰى : ہاں وَلٰكِنْ : اور لیکن حَقَّتْ : پورا ہوگیا كَلِمَةُ : حکم الْعَذَابِ : عذاب عَلَي : پر الْكٰفِرِيْنَ : کافروں
اور کافروں کو گروہ گروہ بنا کر جہنم کی طرف لے جائیں گے یہاں تک کہ جب وہ اسکے پاس جائیں گے تو اس کے دروازے کھول دئیے جائیں گے تو اس کے داروغہ ان سے کہیں گے کہ کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے پیغمبر نہیں آئے تھے جو تم کو تمہارے پروردگار کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے اور اس دن کے پیش آنے سے ڈراتے تھے ؟ کہیں گے کیوں نہیں لیکن کافروں کے حق میں عذاب کا حکم متحقق ہوچکا تھا
بیان انجام حقارت وتذلیل کفار ومجرمین وانعام واکرام اہل ایمان ومطیعین :۔ قال اللہ تعالیٰ :۔ (آیت ) ” وسیق الذین کفروا ........ الی ....... الحمد للہ رب العلمین “۔ (ربط) گزشتہ آیات میں مشرکین و کفار کو متنبہ کیا گیا تھا کہ اگر وہ شرک ونافرمانی سے باز نہ آئیں گے، تو زندگی میں کیے ہوئے تمام اعمال حبط وبرباد ہوں گے اور انسان کو نہ قیامت سے بےفکر ہونا چاہئے اور نہ محاسبہ سے لاپرواہی برتنی چاہئے، قیامت بھی برحق ہے، محاسبۂ اعمال بھی۔ اعمال اس پروردگار پر پورشیدہ نہیں وہ اعمال کو دیکھتا اور جانتا ہے، اس نے ہر انسان کا نامہ اعمال بھی تیار کر رکھا ہے، اعمال پر گواہ بھی ہیں اس نوعیت سے مجرم کو اعمال کی سزا دی جائے گی اور جو مطیع وفرمانبردار ہیں ان کو ان کی نیکیوں پر انعاْم وجزا دی جائے گی تو اس طرح جزا وسزا کا اجمالی ذکر کرنے کے بعد اب آئندہ آیات میں اس کی تفصیل کی جارہی ہے، ہر گروہ کے ساتھ قیامت کے روز کیسا معاملہ ہوگا تو ارشاد فرمایا، اور اس قضاء حق اور فیصلہ عدل کے بعد ہانکا جائے گا کافروں کو جہنم کی طرف گروہ گروہ بنا کر اس طرح ان کو ذلت کے ساتھ ہنکا کرلے جایا جائے گا، جیسے جانوروں کو دھکیل کر کسی جگہ لے جایا جاتا ہو اور ظاہر ہے کہ یہ کفار جانے کے لیے تیار نہ ہوں گے تو زبردستی ان کو دھکیلا جاتا ہوگا، اور کافروں کے کفر وشرک کی بہت انواع ہیں تو اسی لحاظ سے ہر نوع کفر وشرک کے مرتکب کا ایک گروہ ہوگا، اس طرح گروہ درگروہ جہنم کی طرف گھسیٹے جائیں گے یا یہ کہ رؤسا اور ان کے سرغنے آگے آگے ہوں گے اور متبعین وپیرو کار پیچھے پیچھے ،۔ 1 حاشیہ نمبر 1 (اسی کو حق تعالیٰ نے اپنے اس فرمان میں ظاہر فرمایا (آیت) ” ثم لننزعن من کل شیعۃ ایھم اشد علی الرحمن عتیا “۔ یعنی کافروں کی ہر جماعت میں سے ہم ان لوگوں کو چھانٹ لیں گے جو کفر میں زیادہ شدید تھے تو بڑے بڑے کفار علیحدہ ہوں گے اور چھوٹے چھوٹے الگ ہوں گے۔ ) یہاں تک کہ جب یہ کفار دوزخ کے سامنے پہنچیں گے تو دوزخ کے دروازے کھول دیئے جائیں گے تاکہ ایک دم جہنم کے شعلے اور لپٹیں انکو جھلسنا شروع کردیں، اور دروازے کھلتے ہی دائمی عذاب اور وہاں کے ہولناک مناظر نظروں کے سامنے آتے ہی حسرت وملال کی بےچینی پیدا کردیں گے اور ان سے دوزخ کے نگران فرشتے بطور ملامت کہیں گے کیا تمہارے پاس تمہاری ہی جنس سے پیغمبر نہیں آئے تھے جو تم کو تمہارے رب کی آیتیں سنایا کرتے تھے اور احکام خداوندی سکھایا کرتے تھے اور تم کو ڈرایا کرتے تھے تمہارے اس دن کے پیش آنے سے اے لوگو قیامت کا دن آنا ہے اس کی فکر کرلو، اللہ کی نافرمانی سے بچو ورنہ عذاب خداوندی کا سامنا کرنا پڑے گا اس وقت ذلت و لاچاری کے عالم میں کافر کہیں گے کیوں نہیں : بیشک ہمارے پاس اللہ کے رسول آئے اور انہوں نے عذاب الہی سے ڈرایا، بیشک اسباب ہدایت سب موجود تھے لیکن ہم نے نہ ان سے فائدہ اٹھایا اور نہ راہ راست پر آئے لہذا اب عذاب کا فیصلہ ثابت ہو کر رہا کافروں پر اور اب حسرت وندامت کے ساتھ سوائے اس اعتراف کے اور کوئی چارہ نہیں کہ بیشک ہم نے کفر کیا اور کافروں کے حق میں جس عذاب کا فیصلہ اور وعدہ تھا وہ اب ہمارے سامنے موجود ہے تو یہ ہماری نالائقی ہے اور ہم اس کے مستحق ہیں، اس وقت ان لوگوں سے کہا جائے گا اچھا اب تو جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ اس طرح کہ ہمیشہ اس میں رہو گے، غرض یہ متکبرین۔ 1، (پہلی آیت میں ان دوزخیوں کو ” کافرین “ کہا گیا اور اس آیت میں ” متکبرین “ عذاب جہنم تو بیشک کفر ہی کی وجہ سے ہے، لیکن کفر کا اصل سبب اور علت تکبر ہے، جس کا حاصل یہ ہوا کہ ایک چیز عذاب کی ذلت ہے اور دوسری چیز یعنی تکبر وہ علۃ العلۃ ہے تو ان دو تعبیروں سے اشارہ کردیا گیا کہ جو لوگ کفر میں مبتلا ہیں دراصل ان کا یہ کفر ان کے تکبر کا نتیجہ ہے، نخوت اور تکبر ہی ہمیشہ کافروں کے کفر کا سبب بنا، انہوں نے اللہ کے پیغمبروں کے سامنے سرجھکانے سے تکبر کیا تو ایک موقعہ پر علت عذاب کو ذکر کردیا گیا اور دوسری آیت میں علت کی علت بیان کرکے یہ ظاہر کردیا گیا کہ ان کافروں کا یہ کفر ان کا تکبر کا انجام ہے، چناچہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم سے لے کر آنحضرت ﷺ کے زمانہ تک کے کافروں کی یہی نخوت، کفر ونافرمانی کا سبب بنی رہی جیسے کہ ارشاد ہے (آیت) ” انؤمن لک واتبعک الارذلون “۔ اور تکبر ہی تمام رذائل کا سرچشمہ ہے اس وجہ سے اس کی سزا میں کفار کو انتہائی ذلت و خواری کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس طرح ذلت و حقارت کیساتھ جہنم میں گھسیٹ کرلے جایا جائے گا جیسے جانور ہنکائے جارہے ہوں، اسی وجہ سے لفظ ” سیق “ استعمال کیا گیا جو سوق بمعنی ہنکانے سے مشتق ہے۔ 12) اور اللہ کے احکام سے سرکشی کرنے والوں کا بہت ہی برا ٹھکانا ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے بخلاف رہیں گے، بخلاف اہل توحید میں سے گنہگاروں کے کہ اگر وہ اپنے گناہوں کے باعث بطور سزا جہنم میں گئے بھی تو سزا بھگتنے کے بعد ان کو عذاب جہنم سے آزاد کردیا جائے گا جہنم ان کا دائمی ٹھکانا اور حقیقی مثوی نہیں، اور اس کے برعکس جو لوگ اپنے خدا سے ڈرے اور اپنے رب پر ایمان لائے ان کو نہایت ہی عزت واکرام کے ساتھ چلایا جائے گا جنت کی جانب گروہ گروہ بنا کر اس طرح کہ متبعین کی جماعتیں مراتب تقوی کے لحاظ سے جدا جدا ہوں گی ہر جماعت کی ایک علیحدہ شان ہوگی وہ اس شان کے ساتھ جنت کی طرف لے گئے تھے تو ان فرمانبرداروں اور مومنین کے اللہ کے فرشتے ذلت و حقارت سے گھسیٹ کر جہنم کی طرف لے گئے تھے تو ان فرمانبرداروں اور مومنین کے اللہ کے فرشتے ان کے ساتھ چلتے ہوں گے جس طرح بادشاہوں کے محافظ اور درباری خدام اپنے درمیان اپنے بادشاہ کو لے کر چلتے ہوں، اہل جہنم کا سوق حقارت وتوہین کے رنگ میں تھا جیسے چوروں ڈاکوؤں کو طوق وسلاسل کے ساتھ سپاہی لے جاتے ہوں لیکن اہل جنت کا جنت کی طرف سوق اعزاز واکرام کے ساتھ ایسا ہوگا جیسے بادشاہ کو اس کے مصاحبین لیے جاتے ہوں ،۔ 2، حاشیہ (ان کلمات سے یہ ظاہر کردیا گیا کہ لفط جنت کے لیے بطور صنعت مشاکلت کے استعمال کیا گیا ہے کیونکہ اہل جنت تو ظاہر ہے کہ بصد اکرام جنت میں لیجائے جائیں گے جیسے کہ ارشاد ہے (آیت) ” اولئک فی جنت مکرمون “۔ ) فرشتے ان کو تقاضا کرکے جلدی جلدی لیے چلتے ہوں گے اور خدام پیچھے سے ان کے حواریوں کو ہنکاتے ہوں گے، غرض یہ سوق عزت و کرامت کا ہوگا جو بصد شوق و محبت ہوگا، یہاں تک کہ جب یہ اہل ایمان جنت تک پہنچ جائیں گے اور اس کے دروازے پہلے ہی سے کھلے ہوئے ہوں گے اور جیسے کہ معزز مہمانوں کی آمد سے قبل ان کے استقبال کیلیے دروازے کھلے رکھے جاتے ہیں اور ان کو دیکھتے ہی جنت کے نگران ان سے کہیں گے (آیت) ” سلام علیکم طبتم “۔ سلامتی ہو تم پر اللہ کی عنایات ورحمتوں کے ساتھ اور خوش رہو تم، پس داخل ہوجاؤ اس جنت میں اس شان سے کہ تم اس میں ہمیشہ رہنے والے ہوگے، ہر جانب سے تم پر اللہ کی رحمتیں ہوں گی نہ کبھی کوئی تعب ومشقت پیش آئے گی اور نہ کسی قسم کا رنج وغم واقع ہوگا۔ اہل جہنم کو تو خازنین جہنم داخل ہونے سے پہلے ملامت اور سرزنش کریں گے لیکن اہل جنت کے لیے خازنین جنت تحیہ وسلام اور پیغام بشارت اور ان کی ثناء و توصیف اور اعزاز واکرام کے ساتھ استقبال کرتے ہوں گے اور آئندہ کے لئے بھی سکون وچین کا مژدہ سنا کر مطمئن کریں گے، جس پر اہل جنت خوش ہوں گے اور فرط مسرت اور جذبہ تشکر سے یہ کہیں گے ” الحمد للہ “۔ شکر ہے اس خدا کا جس نے پورا کردکھایا جو وعدہ اس نے ہم سے کیا تھا ہمارے ایمان لانے پر جو وعدہ تھا جنت کا وہ وعدہ محض اپنے فضل سے پورا کردکھایا جو وعدہ اس نے ہم سے کیا تھا ہمارے ایمان لانے پر جو وعدہ تھا جنت کا وہ وعدہ محض اپنے فضل سے پورا کردیا اول تو وعدہ ہی محض اس کا فضل تھا پھر اس مہربانی پر مزید یہ کہ ہم کو اس نے ایمان کی توفیق دی پھر یہ انعام کہ ہم کو اس پر قائم رکھا، پھر اور کرم بالائے کرم یہ کہ اس کو قبول فرمایا اور خوشنودی ذریعہ بنایا لہذا یہ سب کچھ اس کا فضل ہی فضل ہے اس پر جس قدر بھی اس کا شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے اور ہم کو اس سرزمین کا وارث بنادیا کہ ہم عالم جنت میں جہاں چاہیں اپنا ٹھکانا بنا لیں۔ کوئی روک ٹوک نہیں حالانکہ دنیا میں تو کوئی ایک بالشت زمین کا ٹکڑا بھی جہاں چاہیں اپنا ٹھکانا بنا لیں، کوئی روک ٹوک نہیں حالانکہ دنیا میں تو کوئی ایک بالشت زمین کا ٹکڑا بھی جہاں چاہے نہیں حاصل کرسکتا تھا، پھر یہاں ہر شوق اور خواہش پوری ہورہی ہے ہر طلب پوری کی جارہی ہے جیسے کہ ارشاد ہے۔ (آیت) ” ولکم فیھا ما تشتھی انفسکم ولکم فیھا ما تدعون “۔ تو آخراس بڑھ کر انعام واکرام کا کیا درجہ ہوسکتا ہے، پس کیا ہی اچھا ہے اجر وثواب نیک عمل کرنے والوں کا۔ الغرض جب اہل جنت اللہ کے فضل سے جنت میں چلے جائیں گے اور دوزخیوں کو جہنم میں گھسیٹ کر ڈال دیا جائے گا تو اللہ کے برگزیدہ بندے اللہ رب العزت کی تسبیح وتحمید میں مشغول ہوجائیں گے اور اے دیکھنے والے تو روز دیکھے گا فرشتوں کو اس طرح کہ گھیرے ہوئے ہوں گے ہر جانب سے عرش الہی کو پاکی بیان کررہے ہوں گے اپنے رب کی حمد وثناء کرتے ہوئے کہ پروردگار عالم کی تسبیح وتحمید میں غرق ہوں گے اور عرش الہی کعبۃ اللہ کی طرح ملائکہ کا مطاف بنا ہوا ہوگا اور عرش خداوندی کے طواف کے دوران ملائکہ کا ورد ہوگا۔ ” سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم “۔ اور تمام خلائق کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا اور اللہ رب العزت کی اس شان عظمت وکبریائی اور عدل و انصاف کو دیکھ کر ہر زبان اور ہر سمت سے یہی صدا جاری ہوگی۔” الحمد للہ رب العالمین “۔ یعنی ہر طرف سے فرشتوں اور اہل جنت کی زبان جوش و خروش کے ساتھ اللہ کی حمد و ستائش میں مصروف ہوگی اور کہا جاتا ہوگا۔ ساری خوبیاں اس خدا کو زیبا ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ فرشتوں کا عرش الہی کے گرد گھیرابنائے تسبیح وتحمید میں مصروف ہونا اس وقت ہوگا جب حق تعالیٰ کا نزول اجلال ہوگا بندوں کے حساب کے لیے اس وقت کی عظمت وہیبت کا یہ اثر ہوگا، فرشتے بھی عرش الہی کا گھیرا دیئے یا طواف کرنے کی حالت میں حمد وثناء میں مصروف ہوں گے۔ ان آیات میں عجیب ربط وتناسب ہے جس سے مزید شان اعجاز کلام خداوندی کی ظاہری ہورہی ہے (آیت) ” قل افغیر اللہ تامرونی ٓ ’“۔ سے کلام کا آغاز فرمایا گیا تھا، اثبات توحید اور نفی شرک موضوع خطاب تھا، اس سے کلام کی ابتداء کرتے ہوئے معاد اور آخرت کا ذکر شروع کردیا گیا اس میں جنت و جہنم اور اہل جنت و جہنم کا ان کے احوال کا ان کے جنت و جہنم میں داخل ہونے کی کیفیات کا بیان فرمایا دیا گیا اور ان تمام تفصیلات کو اخیر میں حق تعالیٰ کی الوہیت و ربوبیت کے بیان پر ختم فرمایا، یہ کہتے ہوئے (آیت) ” الحمد للہ رب العالمین “۔ (آیت) ” اور ثنا الارض “۔ میں جنت کی سرزمین کو لفظ ارض سے مجازا اس لحاظ سے تعبیر کیا گیا کہ وہ جگہ اسی طرح چلنے پھرنے اور ٹھکانا بنانے کی ہوگی جیسے عالم دنیا میں زمین ہوتی ہے۔ دوزخ وجنت کے دروازے اور ان میں داخل ہونیوالوں کو کیفیات : (آیت) ” حتی اذا جآء و ھا فتحت ابوابھا “۔ اہل جہنم کے جہنم کے سامنے پہنچنے کی کیفیت میں یہ فرمایا گیا، یہاں تک کہ جب وہ جہنم کے سامنے پہنچیں گے تو اس کے دروازے کھول دیئے جائیں گے، (آیت) ” اذا جآء و ھا “۔ شرط پر فتحت کا جملہ جزائیہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان کے پہنچتے ہی فورا دروازے کھولے جائیں گے تاکہ جلد سے جلد ان کفار ومجرمین کو دارالعقوبت میں پہنچا دیا جائے اور ایک لمحہ کی بھی مہلت نہ مل سکے نیز مجرمین کے ساتھ یہی طریقہ برتا جاتا ہے کہ جیل خانہ بند ہوتا ہے جوں ہی مجرم لایا گیا جیل کے نگران فورا دروازہ کھول کر مجرم کو اندر دھکیل دیتے ہیں، اسکے بالمقابل اہل جنت کا جنت میں جانا اعزاز واکرام کے ساتھ ہوگا اور اعزاز واکرام کا مقتضی یہ ہے کہ معزز مہمانوں کے استقبال کے لیے دروازے پہلے کھلے رہیں اس لیے وہاں (آیت) ” وفتحت ابوابھا “ کی تعبیر اختیار کی گئی جس کا ترجمہ یہ کیا گیا اور دروازے کھلے ہوں گے جیسا کہ ایک موقعہ پر دخول جنت کے ذکر میں (آیت) ” مفتحۃ لھم الابواب “۔ فرمایا گیا۔ (آیت) ” زمرا “ یعنی گروہ گروہ اور جماعتیں جماعتیں اہل جنت کے گروہ وہی جماعتیں ہوں گی جن پر خدا کا انعام ہے اور وہ انبیاء وصدیقین وشہداء اور صالحین کے گروہ ہیں جو یکے بعد دیگرے جنت میں داخل ہوں گے جیسا کہ ارشاد ہے (آیت) ” اولٓئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبین والصدیقین والشھدآء والصالحین وحسن اولٓئک رفیقا (نساء) جنت میں داخل ہونے والا سب سے پہلا گروہ اگرچہ جملہ انبیاء کا ہوگا لیکن وہ ذات جو سب سے پہلے جنت میں جائے گی وہ حضور اکرم ﷺ ہوں گے جیسے کہ ارشاد ہے۔ انا اول من یقرع باب الجنۃ (صحیح مسلم) کہ میں ہی سب سے پہلا وہ شخص ہوں گے جو جنت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا۔ اور صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے، انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا قیامت کے روز میں جنت کے دروازہ پر پہنچوں گا دستک دینے پر خازن جنت جنت وریافت کرے گا، کون ؟ میں جواب دوں گا میں ہوں محمد ﷺ خازن جنت کہے گا، مجھے آپ ﷺ ہی کے بارے میں حکم دیا گیا ہے اور یہ حکم ہے کہ آپ ﷺ سے پہلے کسی کے واسطے جنت کا دروازہ نہ کھولوں، ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا سب سے پہلے جو گروہ جنت میں داخل ہوگا ان کے چہرے سے چودھویں رات کے چاند کی طرح ہوں گے، ان کے بعد وہ گروہ ہوگا جو زیادہ سے زیادہ روشن ستاروں کے مانند ہوں گے پھر اسی ترتیب کے ساتھ یکے بعد دیگرے داخل ہونے والے گروہوں کے حسن و جمال کا حال ہوگا۔ جنت کے دروازے اعمال کی مناسبت سے متعین ہوں گے : جنت کے دروازوں کا عدد احادیث میں آٹھ ثابت ہوا ہے چناچہ صحیح مسلم کی روایت ہے ان فی الجنۃ ثمانیۃ ابواب باب منھا یسمی باب الریان لایدخلہ الا الصائمون اور باب فضل وضو میں ہے فتحت لہ ابواب الجنۃ الثمانیۃ یدخل من ایھاشاء۔ جنت کے دروازوں میں کوئی باب الصلوۃ ہوگا، کوئی دروازہ باب الصدقہ ہوگا، کوئی باب الصیام جس کو باب الریان فرمایا گیا، کوئی کوئی باب الحج ہوگا، علی ہذا القیاس، ان دروازوں میں ہر ایک دروازہ سے داخل ہونے والے وہ ہوں گے جو اپنی زندگی میں اس عبارت اور عمل سے خاص شغف رکھنے والے ہوں گے مثلاجن پر نماز کا رنگ غالب ہوگا وہ باب الصلوۃ سے اور جن پر صدقہ و خیرات کا رنگ غالب ہوگا وہ باب الصدقہ سے داخل ہوں گے اور جن پر جہاد کا رنگ غالب تھا وہ باب الجہاد سے اور اسی لحاظ سے ان کو پکارا جائے گا، ایک مجلس میں آنحضرت ﷺ جب یہ بیان فرما رہے تھے تو صدیق اکبر ؓ کہنے لگے یا رسول اللہ اس بات کی کسی کو ضرورت تو نہیں ہے کہ اس کو تمام دروازوں سے پکارا جائے اور بلایا جائے (کیونکہ ایک آدمی ایک ہی دروازے سے داخل ہوتا ہے) لیکن پھر بھی معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ کیا کوئی ہوگا ایسا جس کو سب دروازوں سے پکارا جائے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا، ہاں ! ایسا بھی کوئی شخص ہوگا اور مجھے امید ہے کہ وہ شخص اے ابوبکر ؓ تم ہی ہوگئے (صحیح بخاری ومسلم ) (آیت) ” وقیل الحمد للہ رب العالمین “۔ الحمد للہ رب العالمین کی صدا جوش و خروش کے ساتھ لگانے والے کون ہوں گے ؟ بالعموم حضرات مفسرین کا خیال ہے کہ مومنین اور اللہ کے فرشتے ہوں گے حافظ ابن کثیر (رح) اپنی تفسیر میں بیان کرتے ہیں یہ کہنے والی کائنات کی ہر شے ہوگی کہ ہر موجود شے اس فیصلہ کے عدل و انصاف کو دیکھ کر اللہ کی پاکی اور حمد وثناء میں مصروف ہوجائے گی (تفسیر ابن کثیر ج 4) عالم کائنات کی جب ہر چیز اللہ کی حمد وثناء کرتی ہے جیسے کہ ارشاد ہے (آیت) ” وان من شیء الا یسبح بحمدہ ولکن لا تفقھون تسبیحھم “۔ یہی وجہ ہے صیغہ مجہول (آیت ) ” وقیل “۔ استعمال کیا گیا تاکہ عموم قائل پر دلالت کرے، اس سے ظاہر ہوا کہ ہر مخلوق حمد خداوندی کے ساتھ ناطق ہوگی اور اس کی پاکی کی گواہی دینے والی ہوگی۔ قتادہ (رح) بیان کرتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق اپنی حمد سے فرمائی جیسے کہ فرمان ہے (آیت) ” الحمد للہ الذی خلق السموت والارض “۔ تو مناسب ہوا کہ تمام مخلوقات کا انجام اور فیصلہ اور ان کے امور کی انتہا بھی حمد خداوندی پر ہو، اس بناء پر اس عدل و انصاف کے آخری فیصلہ کو اسی عنوان کے ساتھ ذکر فرمایا گیا (آیت) ” وقضی بینھم بالحق قیل الحمد للہ رب العالمین “۔ ابتداء خلق بھی حمد سے تھی تو تمام امور کا انجام وانتہا بھی حمد خداوندی پر کی گئی۔ الحمد للہ آج مورخہ 22 ذی الحجۃ الحرام 1400 ؁ھ یوم شنبہ بعد العشاء سورة زمر کی تفسیر ختم ہوئی ‘۔ وللہ الحمد اولاواخرا۔
Top