Maarif-ul-Quran - Al-Hadid : 25
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَ اَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ١ۚ وَ اَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْهِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ لِیَعْلَمَ اللّٰهُ مَنْ یَّنْصُرُهٗ وَ رُسُلَهٗ بِالْغَیْبِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ۠
لَقَدْ اَرْسَلْنَا : البتہ تحقیق بھیجا ہم نے رُسُلَنَا : اپنے رسولوں کو بِالْبَيِّنٰتِ : ساتھ روشن نشانیوں کے وَاَنْزَلْنَا : اور اتارا ہم نے مَعَهُمُ الْكِتٰبَ : ان کے ساتھ کتاب کو وَالْمِيْزَانَ : اور میزان کو لِيَقُوْمَ النَّاسُ : تاکہ قائم ہوں لوگ بِالْقِسْطِ ۚ : انصاف پر وَاَنْزَلْنَا : اور اتارا ہم نے الْحَدِيْدَ : لوہا فِيْهِ بَاْسٌ : اس میں زور ہے شَدِيْدٌ : سخت وَّمَنَافِعُ : اور فائدے ہیں لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَلِيَعْلَمَ اللّٰهُ : اور تاکہ جان لے اللہ مَنْ يَّنْصُرُهٗ : کون مدد کرتا ہے اس کی وَرُسُلَهٗ : اور اس کے رسولوں کی بِالْغَيْبِ ۭ : ساتھ غیب کے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ تعالیٰ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ : قوت والا ہے، زبردست ہے
ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی نشانیاں دے کر بھیجا اور ان پر کتابیں نازل کیں اور ترازو (یعنی قواعد عدل) تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں اور لوہا پیدا کیا اس میں (اسلحہ جنگ کے لحاظ سے) خطرہ بھی شدید ہے اور لوگوں کیلئے فائدے بھی ہیں اور اس لئے کہ جو لوگ بن دیکھے خدا اور اس کے پیغمبروں کی مدد کرتے ہیں خدا ان کو معلوم کرلے بیشک خدا قوی (اور) غالب ہے
بعثت انبیاء (علیہم السلام) برائے ہدایت عالم وعطاء اسباب رشد و فلاح : قال اللہ تعالیٰ : (آیت ) ” لقد ارسلنا رسلنا بالبینت ...... الی ..... واللہ ذوالفضل العظیم “۔ (ربط) سابقہ آیات میں دنیا اور دنیا کی ہر راحت ونعمت کی ناپائیداری اور بےثباتی کا ذکر تھا اور یہ کہ انسان کو چاہئے کہ آخرت کی فکر کرے دنیا سر اسر دھوکہ ہے اس سے غرور وتکبر اور غفلت میں پڑجانا سب سے بڑی اور مہلک غلطی ہے تو اب ان آیات میں فرمایا جارہا ہے کہ اللہ رب العزت نے تو ہمیشہ ہی تخلیق عالم کے بعد سے اپنے رسولوں اور پیغمبروں کو بھیجا، ان پر کتابیں نازل کیں اور بینات و دلائل بھی دئیے تاکہ انسان کو رشد و فلاح کی منزل حاصل کرنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آسکے تو ارشاد فرمایا۔ بیشک ہم نے بھیجا ہے اپنے رسولوں کو نشانیاں دیکر اور ان کے ساتھ کتاب اتاری اور ترازو تاکہ لوگ عدل و انصاف قائم کریں کتاب ہدایت سے ہدایت کی باتیں سیکھیں اور اس پر عمل کرکے سیدھی راہ اختیار کریں جس سے نجات و کامیابی حاصل ہو اور ترازو بھی اتاری اس کے ذریعہ ہر عمل اور قول عقیدہ واخلاق اور معاملہ تولا جاسکے اور معلوم ہو سکے کہ کون سی چیز حق ہے اور کون سی باطل اور کون ساطریقہ معتدل اور افراط وتفریط کے درمیان ہے اور کون ساطریقہ انصاف اور حق کے معیار سے گرا ہوا ہے جس طرح کہ حسی ترازو سے اشیاء کی برابری معلوم ہوتی ہے اور کمی و زیادتی کا علم اس کے پلڑے کے جھکاؤ اور ابھار سے بیک نظر معلوم ہوجاتا ہے اسی طرح اس نازل کردہ میزان ہدایت سے ہر قول وعمل کا درست اور ہر چیز کا صراط مستیقم پر ہونا معلوم ہوسکتا ہے اور شریعت کی یہ ترازو قلب و قالب کے جملہ اعمال کے حسن وقبح کو ٹھیک ٹھیک جانچ تول کر بتاتی ہے اور ہم نے اتارا لوہا کہ زمین میں اس کی کانیں پیدا کیں جس میں بہت سختی ہے اور منافع بھی ہیں لوگوں کے واسطے کہ لوہے سے اسلحہ اور سامان حرب تیار کیا جاسکتا ہے جس سے جہاد و قتال ہوتا ہے اور کافروں پر اس کے ذریعہ سختی وشدت واقع کی جاتی ہے اور ساتھ ہی اس کے ذریعہ لوگوں کی معیشت کے بہت سے مادی فوائد ومنفعتیں بھی وابستہ ہیں یہ سب کچھ اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں تاکہ لوگ اس کی خالقیت وقدرت پر ایمان لائیں اور اس کی اطاعت کریں اور اس لئے کہ اللہ تعالیٰ دیکھ لے کہ کون مدد کرتا ہے اس کی اور اس کے رسولوں کی بغیر اللہ کو دیکھے بیشک اللہ تعالیٰ بڑی ہی قوت والا غالب و عزیز ہے اس کی قوت وعزت کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی حقیقت نہیں اور کافروں کی مجال نہیں کہ اللہ کو اور اس کے رسولوں کو مغلوب کرسکیں، پیغمبری اور کتب ہدایت نازل کرنے کے لیے اللہ نے اپنی ہی حکمت سے اپنے رسولوں کو منتخب کیا، اور اس طرح ہم نے بھیجا نوح (علیہ السلام) اور ابراہیم (علیہ السلام) کو اور رکھ دیا ہم نے ان دونوں کی اولاد میں نبوت کو اور کتاب کو ان دونوں کو اس طرح نبوت و رسالت اور آسمانی کتابیں نازل کرنے کے لئے چن لیا کہ ان ہی کی اولاد میں رسالت اور سلسلہ نبوت رہے اور ان کے بعد یہ دولت ان دونوں کی اولاد سے باہر نہ جائے اب اس کے بعدجب یہ رسول آئے تو انکی امتوں میں سے بہت سے راہ راست پر آگئے اور بہت سے ان میں سے نافرمان رہے۔ پھر ہم نے کے بعد بھیجے ان ہی کے نقش قدم پر چلنے کے لیے اپنے رسول اور ان سب کے بعد بھیجا عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو اور ان کو ہم نے انجیل دی جن پر انبیاء بنی اسرائیل کو ختم فرمادیا اور ڈال دی ہم نے ان لوگوں کے دلوں میں نرمی اور مہربانی جنہوں نے انکی اتباع کی اور رہبانیۃ ترک علائق دنیویہ کو بھی انہوں نے اختیار کرلیا جو انہوں نے اپنی طرف سے ایک نئی بات ایجاد کی تھی جس کو ہم نے ان پر مقرر نہیں کیا تھا انہوں نے اپنے اوپر دنیوی تعلقات سے علیحدگی اور جنگلوں اور غاروں میں زندگی گزارنے کا طرز اختیار کیا ہم نے تو ان پر صرف اللہ کی رضا مندی حاصل کرنا مقرر کیا تھا لیکن وہ اسکو نباہ نہ سکے جیسا کہ اسکو نبھانے کا حق تھا پھر ہم نے ان لوگوں میں سے ایمان لانے والوں کو اجر دیا جو ایمان پر قائم رہے اور اللہ کے احکام کی پیروی کرتے رہے اور بہت سے ان میں سے نافرمان ہوئے اور اسحاق (علیہ السلام) اور انبیاء بنی اسرائیل کا سلسلہ نبوت حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) پر ختم ہوجانے کے بعد اللہ نے اولاد اسماعیل (علیہ السلام) میں خاتم الانبیاء والمرسلین محمد رسول اللہ ﷺ کو مبعوث فرمادیا اور حکم ہوا۔ اے وہ لوگو ! جو پہنے انبیاء پر ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول آخر لانبیاء پر ایمان لاؤ تو وہ تم کو اپنی رحمت میں سے دو حصے دے گا اور تم کو وہ نور دے گا جس کو تم لئے پھروگے کہ دنیا میں بھی وہ نور تمہارے ساتھ ہوگا اور نور ہدایت سے تمہاری زندگی منور اور مزین ہوگی اور آخرت میں یہ نور تمہارے ساتھ رہیگا اور تمہاری مغفرت بھی کرے گا اور اللہ تو بڑا ہی معاف کرنے والا مہربان ہے۔ یہ سب کچھ اللہ نے بیان کردیا تاکہ جان لیں۔ 1 حاشیہ (بالعموم مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ (آیت ) ” لئلا یعلم “۔ میں ” لا “ زائد ہے اور مقصد یہ کہ جان لیں اس لئے کہ اس غرض کا اہل کتاب کے لیے جاننا مقصود ہے نہ کہ کہ نہ جانیں تو اکثر حضرات مفسرین سلف یہاں (آیت ) ” لئلا یعلم “۔ کا ترجمہ یعلم سے کرتے ہیں ینعی تاکہ جان لیں اہل کتاب الخ لیکن حضرت شاہ صاحب (رح) نے اس جگہ لفظ لا کر اپنے معنی پر برقرار رکھتے ہوئے ” نہ جانیں سے “ ترجمہ کیا ہے تو اس صورت میں کلام کی تقدیر اس طرح ہوگی، لئلا یکون ھذا الامر ان الایعلم۔ اور نفی کی نفی اثبات کو مفید ہے اور ترجمہ کی تقدیر یہ ہوگی تاکہ یہ بات نہ رہے کہ نہ جانیں اہل کتاب اس حقیقت کو بلکہ وہ جان لیں اور یقین کرلیں کہ وہ اللہ کے فضل میں سے کسی چیز پر بھی قادر نہیں کہ اس کو روک لیں یا جس کو چاہیں نہ دیں چناچہ ترجمہ کے بعد اضافہ کردہ الفاظ میں اسی کی طرف اشارہ ہے ” واللہ اعلم بالصواب “ 12۔ ) اہل کتاب اس بات کو کہ وہ اللہ کے فضل میں سے کسی چیز پر قادر نہیں ہیں اور اس امر سے انکو لاعلمی اور غفلت نہ ہو کہ وہ اللہ کے فضل پر قادر نہیں بلکہ اللہ کا فضل بیشک اسی کے قبضہ قدرت میں ہے جس کو چاہے وہ عطا کرے اس لئے اگر اللہ نے بنی اسرائیل سے نبوت کو ختم کرکے اولاد اسماعیل (علیہ السلام) میں نبوت رکھ دی تو اہل کتاب کو اس پر کسی درجہ میں بھی تذبذب نہ کرنا چاہئے نبوت و رسالت کا فضل اور ہر قسم کی بزرگی اللہ کے قبضہ میں ہے جہاں چاہے وہ بزرگی رکھ دے اور جس کو چاہے عطا کردے اور اسی طرح اہل کتاب میں سے آنحضرت ﷺ کی نبوت پر ایمان لانے والوں کو دوگنا اجروثواب دینا بھی اللہ کا فضل وانعام ہے وہ جس کو چاہے اپنے انعام سے نوازے کسی کی مجال نہیں کہ اسکے انعام کو روک لے اور اللہ تعالیٰ بہت ہی بڑے فضل وانعام والا ہے۔ حضرت ابوموسی اشعری ؓ سے روایت ہے آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ثلثہ یؤتون اجرھم مرتین رجل من اہل الکتاب امن بینیہ وامن بمحمد ﷺ ورجل مملوک ادی حق اللہ تعالیٰ وحق موالیہ ورجل کانت وعندہ امۃ ادبھا فاحسن تادیبھا ثم اعتقھا وتزوجھا الحدیث (صحیح بخاری ) (ترجمہ) کہ تین شخص ایسے ہیں جن کو دوگنا اجر دیا جائے گا (1) ایک شخص کتابی جو اپنے پیغمبر پر بھی ایمان لایا تھا پھر وہ آنحضرت ﷺ پر بھی ایمان لایا، (2) دوسرا مملوک غلام جو اپنے آقاؤں کا حق بھی ادا کرتا ہے اور خدا کا بھی حق ادا کرتا ہے، اور (3) تیسراوہ جس کے پاس باندی تھی جس کو اس نے اچھی تعلیم دی ادب سکھایا پھر اس کو آزاد کیا اور اس سے نکاح کرکے اسکو اپنی منکوحہ بنایا تو تینوں کو (2) دو گونا اجر وثواب ملے گا۔ الغرض اہل کتاب کا اپنی شریعت اور کتاب پر ایمان لانے کے بعد آنحضرت ﷺ کی نبوت کو ماننا اور آپکے دین پر عمل کرنا بہت ہی قابل قدر چیز ہے تو اس پر دوگنے اجر وثواب کا وعدہ فرمایا : لوہے کی سختی اور اس کے منافع : اس مقام پر حق تعالیٰ نے (آیت ) ” لقد ارسلنا رسلنا بالبینات “۔ سے اپنے رسولوں کی بعثت کا ذکر فرمایا اور اس امرکوثابت فرمایا کہ رسولوں کی بعثت عالم کی ہدایت اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے اللہ نے مقدر فرمائی۔ وہ دلائل وبینات کے ذریعے عالم کو ہدایت اور رشد و فلاح کی دعوت دیتے رہے اب اس کے بعد ارسال رسل کی نعمت کے ساتھ ایک اور انعام کا ذکر فرمادیا گیا کہ لوہے کو اتارا جس میں سختی ہے اور لوگوں کے واسطے منافع ہیں یعنی عالم کی ہدایت جس رسولوں اور آسمانی کتابوں کے ذریعہ ہے اسی کے ساتھ ہدایت کا دوسرا ذریعہ جہاد ہے کہ جو لوگ اپنی طبعی کجروی سے باز نہ آئیں نہ اللہ کے احکام کو مانیں اور نہ انصاف کی ترازو کو سیدھا رکھیں جس سے نظام عالم اور اسکا امن و راحت اور رشد و فلاح وابستہ ہے تو پھر ان سے جہاد و قتال ہوگا اور اس وقت ان باغیوں کے مقابلہ کے لیے تلوار اٹھانا پڑے گی اور ظاہر ہے کہ اس خالص دینی جہاد میں لوہے سے ہی کام لینا ہوگا پھر یہ ظاہر ہوجائے گا کہ کون اللہ کا مخلص وفرمانبردار ہے اور کون نافرمان وباغی۔ الغرض لوہے کی سختی سے مخص ظاہری اور مادی سختی ہی مراد نہیں بلکہ ارسال رسل اور نزول کتب کے ساتھ لوہے کی یہ سختی جہاد میں اسلحہ کا استعمال ہے دلائل وبینات سے بھی کافروں اور کفر کا جہاد ومقابلہ ہے چناچہ اس نوع کا جہاد مکی زندگی میں تیرہ سال تک جاری رہا اس کے بعد مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد دلائل کے بجائے بصورت جہاد، مقاتلہ شروع ہوگیا۔ امام ابوداؤد (رح) نے ایک حدیث بروایت عبداللہ بن عمر ؓ بیان فرمائی ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ” بعثت بالسیف بین یدی الساعۃ حتی یعبد اللہ وحدہ لاشریک لہ الخ میں مبعوث کیا گیا ہوں تلوار دیکر جہاد مع الکفار کے لئے قیامت سے پہلے اور اس کا مامور ہوں کے کہ جہاد کرتا رہوں تاآں کہ اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت و بندگی کی جانے لگے اور میرا رزق میرے تیروں کے سایہ میں بنایا گیا ہے اور ذلت وناکامی ان لوگوں کے حق میں طے کردی گئی ہے جو میرے حکم کی نافرمانی کریں۔ اس آیت مبارکہ میں بعثت رسل اور انزال کتب کے ساتھ میزان اتارنے کا ذکر فرما کر یہ اشارہ کردیا گیا کہ دنیا میں عدل و انصاف کا قیام دوچیزوں کے ذریعہ سے ہے ایک کتب سماویہ اور وحی الہی اور دوسرے میزان جس سے ہر ایک کو اس کا حق ناپ تول کو پہنچا دیا جائے نہ کسی کی حق تلفی ہوا اور نہ عدل و انصاف سے ذرہ برابر انحراف ہویہی چیز ہدایت کی روح اور نظام عالم کو صحیح خطوط پر چلانے والی ہے اور عدل و انصاف جن ہدایات و اصول کے ماتحت ہوسکتا ہے وہ آسمانی ہدایات اور پیغمبروں کے ذریعہ ہی سے معلوم ہوسکتے ہیں۔ اہل کتاب ونصارے کی رہبانیت : (آیت ) ” وجعلنا فی قلوب الذین اتبعوہ رافۃ ورحمۃ “۔ میں حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) اور انجیل کی پیروی کرنے والوں کا ذکر فرمایا گیا کہ انکے دلوں میں ہم نے نرمی اور مہربانی کی صفت رکھ دی تھی یہ وصف رکھ دی تھی یہ وصف پسندیدہ تھا اور ایمان کے آثار میں سے ایک پاکیزہ اثر تھا لیکن اصل ایمان اور اس کی روح، پیغمبر خدا کی اتباع ہے اور جو ہدایات اللہ نے نازل کیں انکی پیروی کرنا ہے اپنے جذبات سے خلاف شرع کسی چیز کو ثواب سمجھ کر اختیار کرلینا کوئی نیکی نہیں بلکہ یہ تو بدعت ہے جس کو نہ اللہ پسند کرتا ہے اور نہ اس کے رسول کی تعلیم ہوتی ہے۔ چناچہ نصاری میں سے بعض نیک طینت لوگوں نے رہبانیت اور دنیوی علائق کا ترک اختیار کرلیا جس کا ان کو حکم نہیں دیا گیا تھا پھر وہ اسکو نباہ نہ سکے جس کا انجام یہ ہوا کہ اصل اللہ کی ہدایت سے منحرف ہوگئے اور دین صحیحہ کو چھوڑ کو بدعات میں مبتلا ہوگئے۔ حافظ ابن کثیر (رح) نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت تخریج کی ہے جس کا مضمون ہے کہ ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ایک دفعہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے پکارا میں نے عرض کیا لبیک یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے فرمایا اے ابن مسعود ؓ جانتے بھی ہو کہ بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں متفرق ہوئے جن میں سے صرف تین گروہ نجات پانے والے ہیں باقی سب ہلاک وبرباد ہوئے جو حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کے بعد اپنے جبار ومغرور بادشاہوں کے مقابل اللہ کے دین پر قائم رہے اور ان کو اللہ کے دین کی طرف دعوت دی جبکہ وہ گمراہ اور بےدین ہوچکے تھے اور ان ان بادشاہوں نے پانی کتاب میں اپنی خواہشات ومرضی کے مطابق تحریف کرلی تھی تو ان میں سے ایک جماعت نے جباروں کے ساتھ مقابلہ کیا اور شہید کردیئے گئے اور اس جماعت نے صبر کیا اللہ کے فضل سے نجات پائی پھر ایک دوسری جماعت اٹھی جن میں جہاد اور مقابلہ کی قوت تو نہ تھی لیکن اپنے بادشاہوں اور جباروں کے سامنے پہنچ کر ان کو دین کی دعوت دی جس کے باعث ان لوگوں پر ظلم وستم ڈھائے گئے حتی کہ ان کو شہید کیا گیا آروں سے انکے بدن چیرے گئے اس گروہ نے بھی صبر کیا اور نجات پائی پھر ایک تیسری جماعت آئی اس میں بھی مقابلہ اور قتال کی طاقت نہ تھی اور نہ وہ اپنی زندگی اور اعمال میں عدل و اعتدال کو قائم رکھ سکے جس کے واسطے ترازواتاری گئی تھی تو یہ لوگ آبادیاں چھوڑ کر پہاڑوں بیابانوں میں نکل گئے اگرچہ ان کا جذبہ نیک تھا لیکن وہ اس رہبانیت کو نباہ نہ سکے (تفسیر ابن کثیر ج 4) چاہتے تو یہ تھے کہ اللہ کی رضا مندی حاصل کریں یا حکم تو ان کو اللہ کی رضا مندی ہی حاصل کرنے کا کیا گیا تھا مگر اس کے برعکس انہوں نے ازخود رہبانیت اختیار کرلی اور پھر اس کا حق ادا نہ کرسکے اصل رہبانیت اور علائق دنیویہ سے تعلق قطع کرلینا تو اللہ کی فرماں برداری کا نام ہے اور اپنے طبعی تقاضوں کو اللہ کی خوشنودی کے تابع کردینا ہے : حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے اس آیت کی تفسیر میں منقول ہے فرمایا بنی اسرائیل میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کچھ ایسے بادشاہ آئے جنہوں نے تورات وانجیل میں تحریف کی اور اپنی مرضی کے مطابق ردوبدل کیا تو ان میں کچھ لوگ ایمان والے تھے اور وہ اس تحریف وتبدیل سے اختلاف کرتے اور اصل اللہ کے ہی پیروی کرتے اور ان ہی کو بیان کرتے تو ان بادشاہوں سے یہ کہا گیا کہ اس قسم کے لوگ آپ کی بہت ہی سخت توہین کرتے ہیں اور آپ کو برابھلا کہتے اور (آیت ) ” ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکفافرون “۔ پڑھ کو گمراہ و کافر کہتے ہیں اور آپ کے اعمال وافعال پر طعن بھی کرتے ہیں تو آپ ان لوگوں کہیں کہ اسی طرح پڑھیں جس طرح ہم پڑھتے ہیں اور ایمان اسی طرح کا لائیں یعنی اسی چیز کو ایمان کہیں جس طرح کہ ہمارا ایمان ہے اور ان کو مجبور کیا کہ یا تو ہماری بات مانو ورنہ قتل کردیئے جاؤ گے اس پر اس گروہ نے رہبانیت اختیار کرلی کسی نے اپنے واسطے کوئی طریقہ اختیار کیا اور کسی نے کوئی رنگ اختیار کیا تو اس آیت مبارکہ میں ان ہی ایمان والوں کی رہبانیت کا ذکر ہے تفصیل کیلئے روح المعانی، تفسیر ابن کثیر (رح) اور تفسیر قرطبی کی مراجعت فرمائیں۔ انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہر امت کے لئے رہبانیت ہے لیکن میری اس امت کی رہبانیت جہاد فی سبیل اللہ ہے آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے لا تشددوا علی انفکم فیشدد اللہ علیکم فان قوما مشددوا علی انفسھم فشددد اللہ علیھم فتلک بقایاھم فی الصوامع والدیار رہبانیۃ ن ابتدعوھا ماکتبنھا علیھم “ ، کہ اے لوگوتم اپنے اوپر سختی نہ کرو ورنہ اللہ تم پر سختی کرے گا ایک قوم تھی جنہوں نے اپنے اوپر سختی کی تو اللہ نے بھی ان پر سختی فرمائی تو یہ لوگ انھی میں کے کچھ باقی ماندہ ہیں جو صومعوں اور گرجاؤں میں راہب بنے ہوئے ہیں جو انہوں نے خود اختیار کی تھی ہم نے ان پر اسکو لازم نہیں کیا تھا آپ ﷺ نے اسی وجہ سے اپنی شریعت کے سہل اور آسان ہونے کو تمام سابقہ شریعتوں کے بالمقابل ایک خاص امتیازی وصف بیان فرمایا : تم بحمد اللہ تفسیر سورة الحدید : ستائیسویں پارے کی تفسیر بحمد اللہ مکمل ہوئی۔
Top