Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Fath : 23
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَ اَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ١ۚ وَ اَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْهِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ لِیَعْلَمَ اللّٰهُ مَنْ یَّنْصُرُهٗ وَ رُسُلَهٗ بِالْغَیْبِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ۠
لَقَدْ اَرْسَلْنَا : البتہ تحقیق بھیجا ہم نے رُسُلَنَا : اپنے رسولوں کو بِالْبَيِّنٰتِ : ساتھ روشن نشانیوں کے وَاَنْزَلْنَا : اور اتارا ہم نے مَعَهُمُ الْكِتٰبَ : ان کے ساتھ کتاب کو وَالْمِيْزَانَ : اور میزان کو لِيَقُوْمَ النَّاسُ : تاکہ قائم ہوں لوگ بِالْقِسْطِ ۚ : انصاف پر وَاَنْزَلْنَا : اور اتارا ہم نے الْحَدِيْدَ : لوہا فِيْهِ بَاْسٌ : اس میں زور ہے شَدِيْدٌ : سخت وَّمَنَافِعُ : اور فائدے ہیں لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَلِيَعْلَمَ اللّٰهُ : اور تاکہ جان لے اللہ مَنْ يَّنْصُرُهٗ : کون مدد کرتا ہے اس کی وَرُسُلَهٗ : اور اس کے رسولوں کی بِالْغَيْبِ ۭ : ساتھ غیب کے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ تعالیٰ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ : قوت والا ہے، زبردست ہے
ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی نشانیاں دے کر بھیجا اور ان پر کتابیں نازل کیں اور ترازو (یعنی قواعد عدل) تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں اور لوہا پیدا کیا اس میں (اسلحہ جنگ کے لحاظ سے) خطرہ بھی شدید ہے اور لوگوں کیلئے فائدے بھی ہیں اور اس لئے کہ جو لوگ بن دیکھے خدا اور اس کے پیغمبروں کی مدد کرتے ہیں خدا ان کو معلوم کرلے بیشک خدا قوی (اور) غالب ہے
25۔ اوپر جنت کے لئے دوڑ دھوپ کرنے کا ذکر تھا ان آیتوں میں اس دوڑ دھوپ کا طریقہ سمجھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نوح (علیہ السلام) سے لے کر محمد ﷺ تک ہم نے رسول بھیجے جن کی تصدیق کے لئے ان کو طرح طرح کے معجزے دیئے ان پر اسلامی کتابیں نازل فرمائیں۔ پھر ہر زمانہ کے لوگوں میں سے جنہوں نے اللہ کے رسولوں کی نصحیت کو مانا ‘ اور اللہ کے حکم کے موافق عمل کیا۔ وہ جنت کی دوڑ دھوپ کے طریقہ میں کامیاب ہوئے اور جو اسی طریقے کے رہے وہ دنیا میں طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک ہوئے اور عقبیٰ میں ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔ حاصل یہ ہے کہ نبی آخر الزمان کے عہد کے لوگوں کا انجام بھی اسی عادت الٰہی کے موافق ہوگا۔ معتبر سند 3 ؎ سے بیہقی وغیرہ میں عبد اللہ بن مسعود کا قول ہے کہ کہ جس طرح نماز روزہ وغیرہ آسمانی کتابوں کے ذریعہ سے اللہ کی امانتیں ہیں ‘ اسی طرح ترازو کے ذریعہ سے پورا تولنا بھی اللہ کی ایک امانت ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کا یہ قول آسمانی کتابوں کے ساتھ ترازو کے ذکر کئے جانے کی گویا تفسیر ہے معتبر سند سے سے مستدرک 1 ؎ حاکم میں بریدہ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کم تولنے اور کم ناپنے سے اکثر قحط کی آفت آتی ہے۔ کم تولنے کی زیادہ مذمت ویل المطففین میں آئے گی۔ حاصل یہ ہے کہ کتاب آسمانی اور ترازو اس لئے ہیں کہ جن سے لوگ سیدھے راستہ پر رہ کر جنت کی دوڑ دھوپ میں کامیابی حاصل کریں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر توارۃ کے نازل ہونے تک اللہ کے رسولوں کو مخالف لوگوں سے لڑنے کا حکم نہیں تھا۔ اس لئے مخالف لوگوں کی مخالفت اور نافرمانی جب بہت بڑھ جاتی تھی تو وہ ایک عام عذاب سے ہلاک ہوجاتے تھے۔ توراۃ کے نزول کے زمانہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو مخالف لوگوں کے ساتھ ہتھیاروں سے لڑنے کا بھی حکم دیا ہے۔ اس واسطے ان آیتوں میں رسولوں کے ذکر کے ساتھ لوہے کا ذکر فرمایا تاکہ معلوم ہوجائے کہ حال کے لوگوں میں سے جو لوگ اللہ کے رسولوں کی زبانی نصیحت کو نہ مانیں گے تو ان کو تلوار سے نصیحت کی جائے گی۔ یہ بھی فرمایا کہ اس لوہے کے سوا لڑائی کے ہتھیاروں کے دنیا میں اور بھی طرح طرح کے کام چلتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ اللہ ایسا زبردست ہے کہ اس کو لڑائی کا حکم دینے کی کچھ ضرورت نہیں۔ بغیر لڑائی کے اس نے پچھلی بہت سی سرکش قوموں کو ہلاک کردیا۔ لیکن شریعت موسوی ‘ عیسوی اور محمدی میں جو اس نے لڑائی کا حکم فرمایا ہے اس میں طرح طرح کی مصلحتیں ہیں مثلاً یہ مصلحت کہ علم الٰہی میں جو لوگ اللہ کے دین اور اللہ کے رسولوں کے حامی اور مددگار قرار پائے ہیں ان کا ظہور دنیا میں ہوجائے اور جب یہ لوگ اللہ کے دین کے پھیلانے میں اپنی جان دینے پر مستعد ہوجاتے ہیں تو عقبیٰ میں جو درجے اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لئے رکھتے ہیں ان درجوں کے پانے کے یہ لوگ پورے مستحق ہوجائیں چناچہ مسند 2 ؎ امام احمد بخاری وغیرہ میں ابوہریرہ ؓ کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک روز آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو لوگ نماز روزے کے پابند ہیں۔ ایسے لوگ دین کی لڑائی میں شریک نہ بھی ہوں تو ضرور وہ جنت میں جائیں گے۔ یہ حدیث سن کر بعض صحابہ نے عرض کیا کہ حضرت اس مطلب کو عام طور پر مشہور کردیا جائے آپ نے فرمایا دین کی لڑائی کی جرأت والوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ کیونکہ جنت کے سو درجہ ہیں جن میں سے دین کی لڑائی والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے بڑے عالی درجے رکھے ہیں۔ بخاری کی بعض شرحوں میں یہ جو لکھا ہے کہ اس حدیث میں فقط نماز اور روزہ کا ذکر اس واسطے ہے کہ زکوٰۃ اور حج اس وقت تک فرض نہیں ہوئے تھے۔ یہ قول صحیح نہیں معلوم ہوتا کس لئے کہ ترمذی 1 ؎ کی معاذ بن جبل کی روایت میں حج کا بھی ذکر ہے اور یہ بھی ہے کہ شاید زکوٰۃ کا لفظ بھی آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا اس سبب سے یہی قول صحیح ہے کہ ابوہریرہ ؓ کی حدیث میں راوی نے اختصار کی نظر سے فقط نماز روزہ کا ذکر کیا ہے جس سے مطلب سوائے جہاد کے اور ارکان دین کا ہے۔ (3 ؎ الترغیب والترہیب الترھیب من منع الزکوٰۃ ص 717 ج 1۔ ) (1 ؎ الترغیب و الترہیب الترھیب من منع الزکوٰۃ ص 717 ج 1۔ ) (2 ؎ صحیح بخاری باب درجات المومنین فی سبیل اللہ ص 391 ج 1۔ ) (1 ؎ جامع ترمذی باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ ص 89 ج 2۔ )
Top