Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 44
وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ اَصْحٰبَ النَّارِ اَنْ قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدْتُّمْ مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا١ؕ قَالُوْا نَعَمْ١ۚ فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَیْنَهُمْ اَنْ لَّعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الظّٰلِمِیْنَۙ
وَنَادٰٓي
: اور پکاریں گے
اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ
: جنت والے
اَصْحٰبَ النَّارِ
: دوزخ والوں کو
اَنْ
: کہ
قَدْ وَجَدْنَا
: تحقیق ہم نے پالیا
مَا
: جو
وَعَدَنَا
: ہم سے وعدہ کیا
رَبُّنَا
: ہمارا رب
حَقًّا
: سچا
فَهَلْ
: تو کیا
وَجَدْتُّمْ
: تم نے پایا
مَّا وَعَدَ
: جو وعدہ کیا
رَبُّكُمْ
: تمہارا رب
حَقًّا
: سچا
قَالُوْا
: وہ کہیں گے
نَعَمْ
: ہاں
فَاَذَّنَ
: تو پکارے گا
مُؤَذِّنٌ
: ایک پکارنے والا
بَيْنَهُمْ
: ان کے درمیان
اَنْ
: کہ
لَّعْنَةُ
: لعنت
اللّٰهِ
: اللہ
عَلَي
: پر
الظّٰلِمِيْنَ
: ظالم (جمع)
اور اہل بہشت دوزخیوں سے پکار کر کہیں گے کہ جو وعدہ ہمارے پروردگار نے ہم سے کیا تھا اس کو ہم نے سچا پالیا۔ بھلا جو وعدہ تمہارے پروردگار نے تم سے کیا تھا تم نے بھی اسے سچ پایا ؟ وہ کہیں گے ہاں تو اس وقت ایک پکارنے والاپکار دے گا کہ بےانصافوں پر خدا کی لعنت۔
اہل جنت اور اہل دوزخ اور اہل اعراف کی باہمی گفتگو کا ذکر قال اللہ تعالیٰ ونادی اصحب الجنۃ اصحب النار۔۔۔ الی۔۔۔ وضل عنھم ما کانوا یفترون، (ربط) گزشتہ آیات میں اہل جنت اور اہل نار کی جزاء وسزا کا بیان تھا اب ان آیات میں ان مخاطبات اور مکالمات کا ذکر ہے جو دخول جنت و جہنم کے بعد جنتیوں اور دوزخیوں کے مابین ہوں گے اور ان کے ساتھ اہل اعراف کا بھی ذکر فرمایا جن کی حالت ابتدا میں بین بین ہوگی اور بعد میں ان کو جنت میں داخل ہونے کا حکم ہوجائے گا اور اس تمام تذکرہ سے مقصود یہ بتلانا ہے کہ اس روز اہل ایمان کو سعادت کاملہ حاصل ہوگی اور اسلام کے دشمنوں کو انتہائی رنج وغم اور انتہائی حسرت پیش آئے گی جس کی کوئی تلافی ممکن نہیں جو کچھ کرنا ہے وہ اب کرلو چناچہ فرماتے ہیں اور جب جنت والے جنت میں اور آگ والے آگ میں جا چکیں اور اپنے اپنے ٹھکانہ پر پہنچ جائیں گے تو جنت والے اگ والوں کو پکاریں گے اور یہ پکارنا محض خبر دینے کے لیے نہ ہوگا بلکہ اپنی حالت پر اظہار مسرت کے لیے اور ان کی توبیخ اور حسرت بڑھانے کے لیے ہوگا۔ اور وہ نداء اور پکار یہ ہوگی کہ تحقیق ہم سے جو دنیا میں ہمارے پروردگار نے اپنے رسولوں کی زبانی ایمان اور عمل صالح پر بہشت کا وعدہ کیا تھا اس کو ہم نے ٹھیک پایا یعنی وہ وعدے جو ہمارے ساتھ کیے گئے تھے وہ پورے کردئیے گئے سو تم بتلاؤ کہ تم نے اس وعدہ کو ٹھیک پایا جو تمہارے پروردگار نے تم سے کیا تھا یعنی خدا کا وعدہ تم سے کفر پر عذاب الیم کا تھا جس کی خبر تم کو انبیاء کرام دیا کرتے تھے بتلاؤ کہ تم بھی اپنے وعدۂ عذاب کو پہنچے یا نہیں اور انبیاء نے جس چیز کی خبر دی تھی اب بھی اس کا یقین آیا یا نہیں اہل دوزخ جواب میں کہیں گے کہ ہاں ہم نے بھی اس وعدے کو ٹھیک پایا جو ہمارے پروردگار نے رسولوں کی معرفت ہم سے کیا تھا اسی وعدہ کے بناء پر ہم عذاب میں پڑے ہیں جنتیوں کا دوزخیوں سے یہ سوال بطور تقریع و توبیخ کے ہوگا کہ ہم نے تو اپنے رب کا وعدہ سچا پایا تم کہو کہ تم نے بھی سچاپایا یا نہیں۔ جھک مار کر کہیں گے کہ ہاں ہم نے سچا پایا جیسا کہ سورة صافات میں ہے کہ ایک شخص اپنے کافر یار سے کہے گا۔ فاطلع فراٰہ فی سواء الجحیم قال تاللہ ان کدت لتردین ولولا نعمۃ ربی لکنت من المحضرین افما نحن بمیتین الا موتتنا الاولی وما نحن بمعذبین۔ بعد ازاں فرشتے کہیں گے۔ ہذہ النار التی کنتم بھا تکذبون افسحر ھذا ام انتم لا تبصرون اصلوھا فاصبروا اولا تصبروا سواء علیکم انما تجزون ما کنتم تعملون۔ اور اسی طرح آنحضرت ﷺ نے بدر کے دن کنویں پر کھڑے ہو کر سرداران قریش کو نام بنام پکار کر بطور توبیخ اور سرزنش فرمایا۔ اے ابوجہل بن ہشام اے عتبہ بن ربیعہ اور اے شیبۃ بن ربیعہ اور اے فلاں اور اے فلاں ھل وجدتم ما وعد ربکم حقا فانی وجدت ما وعدنی ربی حقا۔ سو جس طرح آنحضرت ﷺ کی یہ ندا اور نام بنام خطاب مقتولین بدر کی توبیخ اور سرزنش کے لیے تھا اسی طرح اہل جنت کی اہل نار سے یہ گفتگو بطور تقریع اور توبیخ ہوگی تاکہ ان کی حسرت اور ندامت حد کمال کو پہنچ جائے اس وقت دوزخیوں کو جواب میں بجز نعم (ہاں) کہنے کے کوئی چارہ نہ ہوگا مگر لاچاری اور مجبوری کا یہ اقراء یعنی نعم اجمالی اقرار ہے جس میں اپنے جرم کی تفصیل نہیں پس اس وقت ان دوزخیوں اور بہشتیوں کے درمیان ایک پکارنے والا یعنی ایک فرشتہ بآواز بلند پکار کر یہ کہے گا کہ خدا کی لعنت ہو ظالموں پر جو لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے تھے اور خدا کی راہ میں کجی کے متلاشی رہتے تھے۔ یعنی اس میں عیب نکالتے رہتے تھے اور اپنی کج بحثیوں سے دن رات اس فکر میں رہتے تھے کہ صاف اور سیدھے راستہ کو ٹیڑھا ثابت کردیں تاکہ کوئی اس راہ پر نہ چل سکے۔ ملاحدہ اور زنادقہ کا طریقہ یہی ہے کہ دین کی باتوں میں شکوک اور شبہات نکالتے رہتے ہیں تاکہ لوگ دین سے بدظن اور متنفر ہوجائیں اور وہ آخرت کے منکر تھے صرف دنیاوی صرف دنیاوی زندگانی ان کی منتہائے نظر تھی عالم دنیا جو ان کو آنکھوں سے نظر آگیا تھا۔ صرف اس کے قائل تھے اور عالم آخرت جو مرنے کے بعد نظر آتا ہے وہ اس کے قائل نہ تھے غرض یہ کہ ان کے نعم (ہاں) کہنے کے بعد فرشتہ ان ظالموں پر بآواز بلند لعنت کی اذان دے گا تاکہ سب اولین اور آخرین سن لیں کہ یہ ظالم بلاشبہ قابل لعنت ہیں اور ان ظالموں نے جو مجبور ہو کر نعم کہا اس میں اپنے جرم کی تفصیل نہیں خدا کے مؤذن یعنی فرشتہ نے جب لعنۃ اللہ علی الظالمین الخ کی اذان دی اور بآواز بلند اس کا اعلان کیا تو ان کا مجرم ہونا سب کو معلوم ہوگیا کہ ان کا جرم ظلم یعنی کفر اور شرک ہے۔ اہل اعراف کا ذکر جب اللہ تعالیٰ جنت اور دوزخ والوں کا ذکر کرچکے تو اب یہ بتلاتے ہیں کہ دوزخ اور جنت کے درمیان ایک حجاب یعنی ایک بلند دیوار ہے جس کا خاصہ یہ ہوگا کہ جنت کا اثر دوزخ تک اور دوزخ کا اثر جنت تک نہیں پہنچنے دے گی کیونکہ اگر اہل جنت کو نار کا کوئی اثر پہنچے تو ان کے لیے باعث ایذاء ہے اور اگر اہل جنت کا کوئی اثر اہل دوزخ تک پہنچے تو ان کے عذاب اور مصیبت میں کمی آجائے اس لیے درمیان میں ایک پر وہ قائم کردیا گیا کہ ادھر کا اثر ادھر نہ پہنچ سکے اور یہ وہی حجاب ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے سورة حدید میں ذکر فرمایا ہے۔ فضرب بینھم بسور لہ باب۔ باطنہ فیہ الرحمۃ وظاھرہ من قبلہ العذاب۔ چناچہ فرماتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان یعنی جنت اور دوزخ کے درمیان ایک دیوار حائل ہے جس کا نام اعراف ہے اعراف کو اعراف کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اہل اعراف ہر شخص کو اوپر سے دیکھ کر پہچان لیں گے کہ یہ جنتی ہے اور یہ دوزخی ہے اعراف۔ عرف کی جمع ہے جس کے معنی بلند جگہ کے ہیں چونکہ وہ دیوار اونچی ہے اس لیے اس کا نام اعراف رکھا گیا جس کی بلندی پر سے جنتی اور دوزخی سب نظر آئیں گے اور اس دیوار اعراف پر کچھ مزدور ہونگے جن کی نیکیاں اور بدیاں برابر ہونگی اس لیے یہ لوگ نہ جنت کے مستحق ہیں اور نہ دوزخ کے اس لیے فی الحال اور سر دست اعراف میں رکھے جائیں گے پھر آخر میں اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے بہشت میں داخل فرمائے گا۔ غرض یہ کہ اہل اعراف جنت اور جہنم کے درمیان میں ایک بلند دیوار ہونے کی وجہ سے جنتیوں اور دوزخیوں میں سے ہر ایک کو ان کی علامت اور چہرے کی نشانی سے پہچان لیں گے چونکہ یہ لوگ بلندی پر ہونگے اس لیے دونوں فریقوں کو آسانی سے دیکھ سکیں گے جنتیوں کو ان کے سفید اور نورانی چہروں سے اور دوزخیوں کو ان کے چہروں کی بدروئی اور سیاہی اور بدرونقی سے پہچانیں گے۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ اہل اعراف جنتیوں کو ان کے چہروں کے سفیدی سے پہچانیں گے اور دوزخیوں کو ان کی روسیاہی سے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے۔ وجوہ یومئذ مسفرۃ ضاحکۃ مستبشرۃ ووجوہ یومئذ علیہا غبرۃ ترھقھا قترۃ اولئک ھم الکفرۃ الفجرۃ اور یہ اہل اعراف جب جنتیوں کی طرف دیکھیں گے تو جنتیوں کو پکار کر کہیں گے سلام علیکم یعنی تم کو مبارک ہو اللہ تعالیٰ کی سلامتی تم پر قائم اور دائم رہے ابھی تک یہ اہل اعراف جنت میں داخل نہ ہوئے ہونگے اور وہ امید اور توقع رکھتے ہونگے یعنی اہل اعراف جس وقت بہشتیوں کو بطور مبارک باد سلام کریں گے تو اس وقت تک وہ خود بہشت میں نہیں ہونگے مگر ان کو بہشت میں داخل ہونے کی توقع ہوگی کیونکہ وہ اپنے اعراف میں ہونے کی وجہ سے جان جائیں گے کہ دوزخ سے تو ہم نجات پا ہی چکے ہیں اب ہم بہشت میں ضرور داخل ہوجائیں گے اس لیے کہ اعراف کوئی دائمی مقام نہیں۔ آخرت میں دائمی قیام کی جگہ دوزخ ہے یا بہشت نیز عجب نہیں کہ اصحاب اعراف کی نظر اللہ کے لطف وکرم پر ہو اور دل میں یہ طمع ہو کہ اگرچہ ہماری حسنات اور سیئات کے دونوں پلے برابر ہیں لیکن حسنات کا پلہ بھاری ہوجائے حافظ شیرازی فرماتے ہیں ہست امیدم علی رغم عدو روز جزا فیض عفوش نہ نہد بار گنہ بردوشم اور جب اہل اعراف کی نظریں دوزخیوں کی طرف پھیری جائیں گی اور ان کے عذاب اور ان کی روسیاہی کو دیکھیں گے تو کہیں گے اے ہمارے پروردگار ہم کو ان ظالم لوگوں کے ساتھ دوزخ میں شامل نہ کر۔ ان کی ہمراہی سراسر تباہی ہے اہل اعراف کی حالت حسنات اور سیئات کے برابر ہونے کی وجہ سے اور دوزخ اور جنت کے درمیان میں ہونے کی وجہ سے خوف اور رجاء اور طمع اور یأس کے بین بین ہوگی۔ ادھر دیکھیں گے تو امید کریں گے اور ادھر نظر پڑے گی تو خدا سے ڈر کر پناہ مانگیں گے کہ ہم کو ان دوزخیوں میں شامل نہ کیجیے مگر پلہ رجاء اور طمع یعنی امید کا غالب ہوگا بالآخر ان کی امید پوری ہوجائے گی اور ان کو جنت میں جانے کا حکم ہوجائے گا جیسا کہ حدیث میں آیا ہے۔ نکتہ : اہل اعراف کا منہ جہنم کی طرف اس لیے پھیرا جاوے گا تاکہ اللہ کا شکر کریں کہ اس عذاب سے خلاسی ہی بہت بڑی نعمت ہے۔ : حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ دوزخ اور جنت کے درمیان جو حجاب ہے اسی کا نام اعراف ہے قیامت میں تین قسم کے آدمی ہوں گے ایک وہ جن کی نیکیاں بدیوں پر غالب ہونگی انہیں جنت میں جانے کا حکم ہوجائیگا۔ دوسرے وہ جن کی برائیاں ان کی نیکیوں ر غالب ہونگی انہیں دوزخ میں جانے کا حکم ہوجائیگا اور تیسرے وہ لوگ ہونگے جن کی نیکیاں اور بدیاں برابر ہونگی انہیں اس مقام میں جس کا نام اعراف ہے ٹھہرنے کا حکم ہوگا یہاں تک کہ جب اللہ کو منظور ہوگا تو ان کی خطائیں معاف کردے گا اور انہیں جنت میں داخل ہونے کا حکم دیگا۔ حذیفہ بن الیمان ؓ سے کسی نے پوچھا کہ اصحاب اعراف کون ہیں کہا کہ وہ لوگ ہیں جن کے حسنات اور سیئات برابر ہیں۔ سیئات نے جنت میں جانے سے روکا اور حسنات نے آگ سے بچایا سو وہ اس دیوار پر ٹھہریں گے جب تک کہ اللہ تعالیٰ ان کے حق میں فیصلہ کرے۔ جمہور سلف اور خلف کا مذہب یہی ہے کہ اصحاب اعراف وہ لوگ ہونگے جن کی حسنات اور سیئات برابر ہوں گی عبداللہ بن مسعود ؓ اور عبداللہ بن عباس ؓ اور حذیفۃ بن الیمان ؓ جیسے جلیل القدر صحابہ سے اسی طرح منقول ہے اور بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ اصحاب اعراف وہ لوگ ہوں گے جو جہاد میں بغیر والدین کی اجازت کے نکلے اور خدا کی راہ میں شہید ہوئے اس کے علاوہ اور بھی اقوال ہیں تفصیل اگر درکار ہو تو تفسیر قرطبی ص 211 ج 7 اور تفسیر ابن کثیر ص 216 ج 2 دیکھیں۔ اور جیسے اہل اعراف نے اہل جنت سے سلام و کلام کیا اسی طرح یہ اہل اعراف دوزخیوں میں سے کچھ مردان کفر کو یعنی کافروں کے سرداروں کو جنہیں وہ ان کی علامت سے پہچانتے ہوں گے پکاریں گے اور یہ کہیں گے کیا کام آیا تمہارا مال جمع کرنا اور وہ جو تم دنیا میں تکبر کرتے تھے۔ اور انبیاء کرام کی اتباع اور پیروی کو اپنے لیے عار سمجھتے تھے یعنی تمہارے مال و دولت اور تکبر نے آج تم کو نفع نہ پہنچایا آخر تم اس عذاب اور وبال میں پھنسے یا جمع سے جمعیت یعنی نوکر چاکر اور برادری اور فوج اور لشکر مراد ہے کہ جس جتھے پر تم کو گھمنڈ تھا وہ کچھ کام نہ آئی بعد ازاں اہل اعراف ان غریب اور بیچارے مسلمانوں کی طرف اشارہ کر کے جو جنت میں ہونگے یہ کہیں کیا یہ غریب مسلمان وہی لوگ نہیں کہ جنہیں تم دنیا میں حقیر سمجھ کر ان کے بارے میں قسمیں کھایا کرتے تھے کہ ان لوگوں کو اللہ کی رحمت نہیں پہنچے گی اب دیکھو کہ ان پر اللہ کی کیسی رحمت ہو رہی ہے۔ ان کے لیے حکم ہوچکا ہے کہ جنت میں داخل ہوجاؤ نہ تم پر کچھ خوف ہے اور نہ تم غمگین ہوگے اب دیکھ لو پس جن کو تم بہ نظر حقارت دیکھ کر یہ کہا کرتے تھے اھٰؤلاء من اللہ علیھم من بیننا۔ دیکھ لو ان پر اللہ کا کیسا فضل اور کیسی رحمت ہورہی ہے اور تم کس عذاب اور مصیبت میں مبتلا ہو اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ یہ قول فرشتوں کا ہے جو اہل اعراف سے متعلق ہے یعنی فرشتے اہل اعراف سے کہیں گے۔ اے اہل اعراف فریقین کا فیصلہ ہوچکا لو اب تم بھی جنت میں داخل ہوجاؤ وہاں تمہیں نہ کچھ خوف ہوا اور نہ غم۔ اہل اعراف دوزخ کے درمیان ایک بلند جگہ پر ہونے کی وجہ سے فریقین کا حال دیکھیں گے دوزخیوں کو دیکھ کر ڈریں گے اور پناہ مانگیں گے کہ اے اللہ ہمیں ان کے ساتھ نہ شامل کرنا اور اہل جنت کو دیکھ کر ایک عجیب طمع اور آرزو کے ساتھ ان کو سلام کریں گے زبان سے سلام کریں گے اور دل میں یہ طمع اور آرزو ہوگی کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ہم کو ان کی طرح جنت میں جگہ دے اللہ تعالیٰ ان کی یہ طمع اور آرزو پوری کریگا اور حکم ہوجائے گا۔ ادخلوا الجنۃ لا خوف علیکم ولا انتم تحزنون دوزخیوں کا اہل جنت کے سامنے دست سوال گزشتہ آیات میں اہل جنت کی گفتگو کا اہل جہنم سے ذکر تھا اب ان آیات میں دوزخیوں کی جنتیوں سے گفتگو کا ذکر کرتے ہیں اور دوزخ والے بھوک اور پیاس سے بدحواس ہو کر جنت والوں کو پکاریں گے کہ خدارا پانی کا کوئی قطرہ ہم پر ڈال دو یا جو روزی اللہ نے تم کو دی ہے اس میں سے کچھ ہم کو بھی دے دو جن فقراء مومنین کے بارے میں قسم کھا کر کہا کرتے تھے۔ لا ینالھم اللہ برحمۃ اور تکبر کی وجہ سے ان سے بات کرنا بھی پسند نہ کرتے تھے آخرت میں پہنچ کر ان کے سامنے دست سوال دراز کریں گے۔ اہل جنت میں جواب کہیں گے کہ تحقیق اللہ تعالیٰ نے ان دونوں چیزوں کو کافروں پر حرام کردیا ہے یہ کافر وہی تو ہیں جنہوں نے (دنیا میں) اپنے دین کو تماشا اور کھیل بنا رکھا تھا اور دنیاوی زندگانی نے ان کو ایسا فریب دیا کہ آخرت کو بالکل بھول گئے پس آج ہم بھی ان کو بھول جائیں گے جیسا کہ وہ دنیا میں اس دن کی پیشی اور ملنے کو بھولے ہوئے تھے۔ خدا تعالیٰ نسیان سے منزہ ہے یہاں مجازاً اس کو خدا کی طرف منسوب کردیا مطلب یہ ہے کہ آج ہم ان کو اپنی رحمت سے نظر انداز کردیں گے بھول جانا کنایہ ہے بےالتفاتی اور بےتوجہی سے اور اس کے راحت و آرام کی خبر نہ لینے سے ورنہ نسیان کے حقیق معنی جناب باری تعالیٰ میں متصور نہیں ہوسکتے پس جس طرح یہ لوگ ہماری ہی دی ہوئی نعمتوں میں مست ہو کر ہم کو بھول گئے اور پیغمبروں کے ذریعے ہم نے احکام بھیجے ان کا خیال بھی نہ کیا اور ہمارے دین کا کھیل اور تماشہ بنایا اسی طرح آج ہم بھی ان کا خیال نہ کریں گے اور جن لوگوں نے ہمارے دین کا کھیل اور تماشہ بنایا آج ہم ان کی ذلت و خواری کا تماشہ دکھلائیں گے اور جیسا کہ یہ لوگ ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہتے تھے۔ اسی طرح آج ہم بھی ان کی درخواست قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں اور ان لوگوں کا انکار کسی شبہ پر مبنی نہ تھا بلکہ عناد کی بناء پر تھا اس لیے کہ تحقیق ہم نے ان کفار کے پاس ایسی کتاب پہنچا دی جس میں تمام عقائد اور احکام اور امور آخرت کو تفصیل کے ساتھ بیان کردیا جو ایسے علم یقینی اور قطعی پر مشتمل ہے جس میں سہو اور خطاء کا احتمال بھی نہیں اور یہ کتاب ایسے عجیب و غریب علم پر مشتمل ہے کہ اس جیسا علم کسی اور کتاب میں نہیں (روح المعانی ص 11 ج 8) اور اس مفصل کتاب کو ہم نے اس لیے نازل کیا تاکہ سب پر حق واضح ہوجائے اور یہ کتاب ان لوگوں کے لیے ذریعۂ ہدایت اور رحمت ہے جو اس کو سن کر ایمان لاتے ہیں اور ایمان لا کر اس کی برکتوں سے حصہ پاتے ہیں برخلاف ان بدنصیطوں کے کہ جن کے دل تکبر اور تخوت اور مال و دولت کی محبت سے بھرے ہوئے اور لذات نفسانیہ پر فریفتہ ہیں وہ اس کا سننا بھی پسند نہیں کرتے ان کی حالت سے بظاہر ایسا مترشح ہوتا ہے کہ یہ کافر لوگ نہیں انتظار کر رہے ہیں مگر اس وعدۂ عذاب کی حقیقت اور مصداق کے ظاہر ہوجانے کا یعنی یہ کافر جو اس قرآن کی تکذیب پر آرے ہوئے ہیں کیا وہ اسی بات کے منتظر ہیں کہ قرآن میں جو عذاب کے وعدے کیے گئے ہیں وہ وقوع اور ظہور میں آجائیں اور اپنی آنکھوں سے ان کو دیکھ لیں تب ایمان لائیں تو خوب سمجھ لو جس دن اس وعدۂ عذاب کی حقیقت سامنے آجائے گی یعنی قیامت کے دن جب اس تکذیب اور تکبر کا نتیجہ آنکھوں سے دیکھ لیں گے سو وہ لوگ جو اس دن کو پہلے سے بھولے ہوئے تھے اور اس پر ایمان نہیں لاتے تھے اس دن کو دیکھ کر یہ کہیں گے کہ بیشک ہمارے رب کے رسول دنیا میں حق لے کر آئے تھے ہم نے اپنی حماقت اور تکبر سے ان ہیں ناحق جھٹلایا پس کیا ہمارے لیے یہاں کوئی سفارشی ہوسکتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے اللہ سے سفارش کریں یا یہ ہوسکتا ہے کہ ہم دنیا میں پھر واپس لوٹا دئیے جائیں۔ پس وہاں جا کر ان عملوں کے خلاف عمل کریں جو ہم پہلے کرتے تھے یعنی ہم پہلے برے عمل کرتے تھے اب اچھے عمل کریں گے عذاب خداوندی کو دیکھ کر یہ تمنا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اب نجات کی کوئی صورت نہیں جو وقت تم کو آخرت کی تجارت کے لیے دیا گیا تھا وہ سب تم نے اپنے تکبر اور حماقت سے ضائع کردیا بیشک ان لوگوں نے انبیاء کی تکذیب کر کے اپنی جانوں کو خسارہ میں ڈالا اب اس کا نتیجہ بھگتیں اور ان سے وہ سب کچھ گم ہوگیا جو وہ دنیا میں افتراء کرتے رہتے تھے سوائے عذاب کے کچھ نظر نہ آیا۔ " خود غلط بود آنچہ ما پنداشتیم " عجیب عجیب باتیں کرتے تھے جب آنکھ کھلی تو کچھ اور ہی دیکھا۔
Top