Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 44
وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ اَصْحٰبَ النَّارِ اَنْ قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدْتُّمْ مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا١ؕ قَالُوْا نَعَمْ١ۚ فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَیْنَهُمْ اَنْ لَّعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الظّٰلِمِیْنَۙ
وَنَادٰٓي : اور پکاریں گے اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ : جنت والے اَصْحٰبَ النَّارِ : دوزخ والوں کو اَنْ : کہ قَدْ وَجَدْنَا : تحقیق ہم نے پالیا مَا : جو وَعَدَنَا : ہم سے وعدہ کیا رَبُّنَا : ہمارا رب حَقًّا : سچا فَهَلْ : تو کیا وَجَدْتُّمْ : تم نے پایا مَّا وَعَدَ : جو وعدہ کیا رَبُّكُمْ : تمہارا رب حَقًّا : سچا قَالُوْا : وہ کہیں گے نَعَمْ : ہاں فَاَذَّنَ : تو پکارے گا مُؤَذِّنٌ : ایک پکارنے والا بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان اَنْ : کہ لَّعْنَةُ : لعنت اللّٰهِ : اللہ عَلَي : پر الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور اہل بہشت دوزخیوں سے پکار کر کہیں گے کہ جو وعدہ ہمارے پروردگار نے ہم سے کیا تھا اس کو ہم نے سچا پالیا۔ بھلا جو وعدہ تمہارے پروردگار نے تم سے کیا تھا تم نے بھی اسے سچ پایا ؟ وہ کہیں گے ہاں تو اس وقت ایک پکارنے والاپکار دے گا کہ بےانصافوں پر خدا کی لعنت۔
اہل جنت اور اہل دوزخ اور اہل اعراف کی باہمی گفتگو کا ذکر قال اللہ تعالیٰ ونادی اصحب الجنۃ اصحب النار۔۔۔ الی۔۔۔ وضل عنھم ما کانوا یفترون، (ربط) گزشتہ آیات میں اہل جنت اور اہل نار کی جزاء وسزا کا بیان تھا اب ان آیات میں ان مخاطبات اور مکالمات کا ذکر ہے جو دخول جنت و جہنم کے بعد جنتیوں اور دوزخیوں کے مابین ہوں گے اور ان کے ساتھ اہل اعراف کا بھی ذکر فرمایا جن کی حالت ابتدا میں بین بین ہوگی اور بعد میں ان کو جنت میں داخل ہونے کا حکم ہوجائے گا اور اس تمام تذکرہ سے مقصود یہ بتلانا ہے کہ اس روز اہل ایمان کو سعادت کاملہ حاصل ہوگی اور اسلام کے دشمنوں کو انتہائی رنج وغم اور انتہائی حسرت پیش آئے گی جس کی کوئی تلافی ممکن نہیں جو کچھ کرنا ہے وہ اب کرلو چناچہ فرماتے ہیں اور جب جنت والے جنت میں اور آگ والے آگ میں جا چکیں اور اپنے اپنے ٹھکانہ پر پہنچ جائیں گے تو جنت والے اگ والوں کو پکاریں گے اور یہ پکارنا محض خبر دینے کے لیے نہ ہوگا بلکہ اپنی حالت پر اظہار مسرت کے لیے اور ان کی توبیخ اور حسرت بڑھانے کے لیے ہوگا۔ اور وہ نداء اور پکار یہ ہوگی کہ تحقیق ہم سے جو دنیا میں ہمارے پروردگار نے اپنے رسولوں کی زبانی ایمان اور عمل صالح پر بہشت کا وعدہ کیا تھا اس کو ہم نے ٹھیک پایا یعنی وہ وعدے جو ہمارے ساتھ کیے گئے تھے وہ پورے کردئیے گئے سو تم بتلاؤ کہ تم نے اس وعدہ کو ٹھیک پایا جو تمہارے پروردگار نے تم سے کیا تھا یعنی خدا کا وعدہ تم سے کفر پر عذاب الیم کا تھا جس کی خبر تم کو انبیاء کرام دیا کرتے تھے بتلاؤ کہ تم بھی اپنے وعدۂ عذاب کو پہنچے یا نہیں اور انبیاء نے جس چیز کی خبر دی تھی اب بھی اس کا یقین آیا یا نہیں اہل دوزخ جواب میں کہیں گے کہ ہاں ہم نے بھی اس وعدے کو ٹھیک پایا جو ہمارے پروردگار نے رسولوں کی معرفت ہم سے کیا تھا اسی وعدہ کے بناء پر ہم عذاب میں پڑے ہیں جنتیوں کا دوزخیوں سے یہ سوال بطور تقریع و توبیخ کے ہوگا کہ ہم نے تو اپنے رب کا وعدہ سچا پایا تم کہو کہ تم نے بھی سچاپایا یا نہیں۔ جھک مار کر کہیں گے کہ ہاں ہم نے سچا پایا جیسا کہ سورة صافات میں ہے کہ ایک شخص اپنے کافر یار سے کہے گا۔ فاطلع فراٰہ فی سواء الجحیم قال تاللہ ان کدت لتردین ولولا نعمۃ ربی لکنت من المحضرین افما نحن بمیتین الا موتتنا الاولی وما نحن بمعذبین۔ بعد ازاں فرشتے کہیں گے۔ ہذہ النار التی کنتم بھا تکذبون افسحر ھذا ام انتم لا تبصرون اصلوھا فاصبروا اولا تصبروا سواء علیکم انما تجزون ما کنتم تعملون۔ اور اسی طرح آنحضرت ﷺ نے بدر کے دن کنویں پر کھڑے ہو کر سرداران قریش کو نام بنام پکار کر بطور توبیخ اور سرزنش فرمایا۔ اے ابوجہل بن ہشام اے عتبہ بن ربیعہ اور اے شیبۃ بن ربیعہ اور اے فلاں اور اے فلاں ھل وجدتم ما وعد ربکم حقا فانی وجدت ما وعدنی ربی حقا۔ سو جس طرح آنحضرت ﷺ کی یہ ندا اور نام بنام خطاب مقتولین بدر کی توبیخ اور سرزنش کے لیے تھا اسی طرح اہل جنت کی اہل نار سے یہ گفتگو بطور تقریع اور توبیخ ہوگی تاکہ ان کی حسرت اور ندامت حد کمال کو پہنچ جائے اس وقت دوزخیوں کو جواب میں بجز نعم (ہاں) کہنے کے کوئی چارہ نہ ہوگا مگر لاچاری اور مجبوری کا یہ اقراء یعنی نعم اجمالی اقرار ہے جس میں اپنے جرم کی تفصیل نہیں پس اس وقت ان دوزخیوں اور بہشتیوں کے درمیان ایک پکارنے والا یعنی ایک فرشتہ بآواز بلند پکار کر یہ کہے گا کہ خدا کی لعنت ہو ظالموں پر جو لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے تھے اور خدا کی راہ میں کجی کے متلاشی رہتے تھے۔ یعنی اس میں عیب نکالتے رہتے تھے اور اپنی کج بحثیوں سے دن رات اس فکر میں رہتے تھے کہ صاف اور سیدھے راستہ کو ٹیڑھا ثابت کردیں تاکہ کوئی اس راہ پر نہ چل سکے۔ ملاحدہ اور زنادقہ کا طریقہ یہی ہے کہ دین کی باتوں میں شکوک اور شبہات نکالتے رہتے ہیں تاکہ لوگ دین سے بدظن اور متنفر ہوجائیں اور وہ آخرت کے منکر تھے صرف دنیاوی صرف دنیاوی زندگانی ان کی منتہائے نظر تھی عالم دنیا جو ان کو آنکھوں سے نظر آگیا تھا۔ صرف اس کے قائل تھے اور عالم آخرت جو مرنے کے بعد نظر آتا ہے وہ اس کے قائل نہ تھے غرض یہ کہ ان کے نعم (ہاں) کہنے کے بعد فرشتہ ان ظالموں پر بآواز بلند لعنت کی اذان دے گا تاکہ سب اولین اور آخرین سن لیں کہ یہ ظالم بلاشبہ قابل لعنت ہیں اور ان ظالموں نے جو مجبور ہو کر نعم کہا اس میں اپنے جرم کی تفصیل نہیں خدا کے مؤذن یعنی فرشتہ نے جب لعنۃ اللہ علی الظالمین الخ کی اذان دی اور بآواز بلند اس کا اعلان کیا تو ان کا مجرم ہونا سب کو معلوم ہوگیا کہ ان کا جرم ظلم یعنی کفر اور شرک ہے۔ اہل اعراف کا ذکر جب اللہ تعالیٰ جنت اور دوزخ والوں کا ذکر کرچکے تو اب یہ بتلاتے ہیں کہ دوزخ اور جنت کے درمیان ایک حجاب یعنی ایک بلند دیوار ہے جس کا خاصہ یہ ہوگا کہ جنت کا اثر دوزخ تک اور دوزخ کا اثر جنت تک نہیں پہنچنے دے گی کیونکہ اگر اہل جنت کو نار کا کوئی اثر پہنچے تو ان کے لیے باعث ایذاء ہے اور اگر اہل جنت کا کوئی اثر اہل دوزخ تک پہنچے تو ان کے عذاب اور مصیبت میں کمی آجائے اس لیے درمیان میں ایک پر وہ قائم کردیا گیا کہ ادھر کا اثر ادھر نہ پہنچ سکے اور یہ وہی حجاب ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے سورة حدید میں ذکر فرمایا ہے۔ فضرب بینھم بسور لہ باب۔ باطنہ فیہ الرحمۃ وظاھرہ من قبلہ العذاب۔ چناچہ فرماتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان یعنی جنت اور دوزخ کے درمیان ایک دیوار حائل ہے جس کا نام اعراف ہے اعراف کو اعراف کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اہل اعراف ہر شخص کو اوپر سے دیکھ کر پہچان لیں گے کہ یہ جنتی ہے اور یہ دوزخی ہے اعراف۔ عرف کی جمع ہے جس کے معنی بلند جگہ کے ہیں چونکہ وہ دیوار اونچی ہے اس لیے اس کا نام اعراف رکھا گیا جس کی بلندی پر سے جنتی اور دوزخی سب نظر آئیں گے اور اس دیوار اعراف پر کچھ مزدور ہونگے جن کی نیکیاں اور بدیاں برابر ہونگی اس لیے یہ لوگ نہ جنت کے مستحق ہیں اور نہ دوزخ کے اس لیے فی الحال اور سر دست اعراف میں رکھے جائیں گے پھر آخر میں اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے بہشت میں داخل فرمائے گا۔ غرض یہ کہ اہل اعراف جنت اور جہنم کے درمیان میں ایک بلند دیوار ہونے کی وجہ سے جنتیوں اور دوزخیوں میں سے ہر ایک کو ان کی علامت اور چہرے کی نشانی سے پہچان لیں گے چونکہ یہ لوگ بلندی پر ہونگے اس لیے دونوں فریقوں کو آسانی سے دیکھ سکیں گے جنتیوں کو ان کے سفید اور نورانی چہروں سے اور دوزخیوں کو ان کے چہروں کی بدروئی اور سیاہی اور بدرونقی سے پہچانیں گے۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ اہل اعراف جنتیوں کو ان کے چہروں کے سفیدی سے پہچانیں گے اور دوزخیوں کو ان کی روسیاہی سے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے۔ وجوہ یومئذ مسفرۃ ضاحکۃ مستبشرۃ ووجوہ یومئذ علیہا غبرۃ ترھقھا قترۃ اولئک ھم الکفرۃ الفجرۃ اور یہ اہل اعراف جب جنتیوں کی طرف دیکھیں گے تو جنتیوں کو پکار کر کہیں گے سلام علیکم یعنی تم کو مبارک ہو اللہ تعالیٰ کی سلامتی تم پر قائم اور دائم رہے ابھی تک یہ اہل اعراف جنت میں داخل نہ ہوئے ہونگے اور وہ امید اور توقع رکھتے ہونگے یعنی اہل اعراف جس وقت بہشتیوں کو بطور مبارک باد سلام کریں گے تو اس وقت تک وہ خود بہشت میں نہیں ہونگے مگر ان کو بہشت میں داخل ہونے کی توقع ہوگی کیونکہ وہ اپنے اعراف میں ہونے کی وجہ سے جان جائیں گے کہ دوزخ سے تو ہم نجات پا ہی چکے ہیں اب ہم بہشت میں ضرور داخل ہوجائیں گے اس لیے کہ اعراف کوئی دائمی مقام نہیں۔ آخرت میں دائمی قیام کی جگہ دوزخ ہے یا بہشت نیز عجب نہیں کہ اصحاب اعراف کی نظر اللہ کے لطف وکرم پر ہو اور دل میں یہ طمع ہو کہ اگرچہ ہماری حسنات اور سیئات کے دونوں پلے برابر ہیں لیکن حسنات کا پلہ بھاری ہوجائے حافظ شیرازی فرماتے ہیں ہست امیدم علی رغم عدو روز جزا فیض عفوش نہ نہد بار گنہ بردوشم اور جب اہل اعراف کی نظریں دوزخیوں کی طرف پھیری جائیں گی اور ان کے عذاب اور ان کی روسیاہی کو دیکھیں گے تو کہیں گے اے ہمارے پروردگار ہم کو ان ظالم لوگوں کے ساتھ دوزخ میں شامل نہ کر۔ ان کی ہمراہی سراسر تباہی ہے اہل اعراف کی حالت حسنات اور سیئات کے برابر ہونے کی وجہ سے اور دوزخ اور جنت کے درمیان میں ہونے کی وجہ سے خوف اور رجاء اور طمع اور یأس کے بین بین ہوگی۔ ادھر دیکھیں گے تو امید کریں گے اور ادھر نظر پڑے گی تو خدا سے ڈر کر پناہ مانگیں گے کہ ہم کو ان دوزخیوں میں شامل نہ کیجیے مگر پلہ رجاء اور طمع یعنی امید کا غالب ہوگا بالآخر ان کی امید پوری ہوجائے گی اور ان کو جنت میں جانے کا حکم ہوجائے گا جیسا کہ حدیث میں آیا ہے۔ نکتہ : اہل اعراف کا منہ جہنم کی طرف اس لیے پھیرا جاوے گا تاکہ اللہ کا شکر کریں کہ اس عذاب سے خلاسی ہی بہت بڑی نعمت ہے۔ : حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ دوزخ اور جنت کے درمیان جو حجاب ہے اسی کا نام اعراف ہے قیامت میں تین قسم کے آدمی ہوں گے ایک وہ جن کی نیکیاں بدیوں پر غالب ہونگی انہیں جنت میں جانے کا حکم ہوجائیگا۔ دوسرے وہ جن کی برائیاں ان کی نیکیوں ر غالب ہونگی انہیں دوزخ میں جانے کا حکم ہوجائیگا اور تیسرے وہ لوگ ہونگے جن کی نیکیاں اور بدیاں برابر ہونگی انہیں اس مقام میں جس کا نام اعراف ہے ٹھہرنے کا حکم ہوگا یہاں تک کہ جب اللہ کو منظور ہوگا تو ان کی خطائیں معاف کردے گا اور انہیں جنت میں داخل ہونے کا حکم دیگا۔ حذیفہ بن الیمان ؓ سے کسی نے پوچھا کہ اصحاب اعراف کون ہیں کہا کہ وہ لوگ ہیں جن کے حسنات اور سیئات برابر ہیں۔ سیئات نے جنت میں جانے سے روکا اور حسنات نے آگ سے بچایا سو وہ اس دیوار پر ٹھہریں گے جب تک کہ اللہ تعالیٰ ان کے حق میں فیصلہ کرے۔ جمہور سلف اور خلف کا مذہب یہی ہے کہ اصحاب اعراف وہ لوگ ہونگے جن کی حسنات اور سیئات برابر ہوں گی عبداللہ بن مسعود ؓ اور عبداللہ بن عباس ؓ اور حذیفۃ بن الیمان ؓ جیسے جلیل القدر صحابہ سے اسی طرح منقول ہے اور بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ اصحاب اعراف وہ لوگ ہوں گے جو جہاد میں بغیر والدین کی اجازت کے نکلے اور خدا کی راہ میں شہید ہوئے اس کے علاوہ اور بھی اقوال ہیں تفصیل اگر درکار ہو تو تفسیر قرطبی ص 211 ج 7 اور تفسیر ابن کثیر ص 216 ج 2 دیکھیں۔ اور جیسے اہل اعراف نے اہل جنت سے سلام و کلام کیا اسی طرح یہ اہل اعراف دوزخیوں میں سے کچھ مردان کفر کو یعنی کافروں کے سرداروں کو جنہیں وہ ان کی علامت سے پہچانتے ہوں گے پکاریں گے اور یہ کہیں گے کیا کام آیا تمہارا مال جمع کرنا اور وہ جو تم دنیا میں تکبر کرتے تھے۔ اور انبیاء کرام کی اتباع اور پیروی کو اپنے لیے عار سمجھتے تھے یعنی تمہارے مال و دولت اور تکبر نے آج تم کو نفع نہ پہنچایا آخر تم اس عذاب اور وبال میں پھنسے یا جمع سے جمعیت یعنی نوکر چاکر اور برادری اور فوج اور لشکر مراد ہے کہ جس جتھے پر تم کو گھمنڈ تھا وہ کچھ کام نہ آئی بعد ازاں اہل اعراف ان غریب اور بیچارے مسلمانوں کی طرف اشارہ کر کے جو جنت میں ہونگے یہ کہیں کیا یہ غریب مسلمان وہی لوگ نہیں کہ جنہیں تم دنیا میں حقیر سمجھ کر ان کے بارے میں قسمیں کھایا کرتے تھے کہ ان لوگوں کو اللہ کی رحمت نہیں پہنچے گی اب دیکھو کہ ان پر اللہ کی کیسی رحمت ہو رہی ہے۔ ان کے لیے حکم ہوچکا ہے کہ جنت میں داخل ہوجاؤ نہ تم پر کچھ خوف ہے اور نہ تم غمگین ہوگے اب دیکھ لو پس جن کو تم بہ نظر حقارت دیکھ کر یہ کہا کرتے تھے اھٰؤلاء من اللہ علیھم من بیننا۔ دیکھ لو ان پر اللہ کا کیسا فضل اور کیسی رحمت ہورہی ہے اور تم کس عذاب اور مصیبت میں مبتلا ہو اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ یہ قول فرشتوں کا ہے جو اہل اعراف سے متعلق ہے یعنی فرشتے اہل اعراف سے کہیں گے۔ اے اہل اعراف فریقین کا فیصلہ ہوچکا لو اب تم بھی جنت میں داخل ہوجاؤ وہاں تمہیں نہ کچھ خوف ہوا اور نہ غم۔ اہل اعراف دوزخ کے درمیان ایک بلند جگہ پر ہونے کی وجہ سے فریقین کا حال دیکھیں گے دوزخیوں کو دیکھ کر ڈریں گے اور پناہ مانگیں گے کہ اے اللہ ہمیں ان کے ساتھ نہ شامل کرنا اور اہل جنت کو دیکھ کر ایک عجیب طمع اور آرزو کے ساتھ ان کو سلام کریں گے زبان سے سلام کریں گے اور دل میں یہ طمع اور آرزو ہوگی کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ہم کو ان کی طرح جنت میں جگہ دے اللہ تعالیٰ ان کی یہ طمع اور آرزو پوری کریگا اور حکم ہوجائے گا۔ ادخلوا الجنۃ لا خوف علیکم ولا انتم تحزنون دوزخیوں کا اہل جنت کے سامنے دست سوال گزشتہ آیات میں اہل جنت کی گفتگو کا اہل جہنم سے ذکر تھا اب ان آیات میں دوزخیوں کی جنتیوں سے گفتگو کا ذکر کرتے ہیں اور دوزخ والے بھوک اور پیاس سے بدحواس ہو کر جنت والوں کو پکاریں گے کہ خدارا پانی کا کوئی قطرہ ہم پر ڈال دو یا جو روزی اللہ نے تم کو دی ہے اس میں سے کچھ ہم کو بھی دے دو جن فقراء مومنین کے بارے میں قسم کھا کر کہا کرتے تھے۔ لا ینالھم اللہ برحمۃ اور تکبر کی وجہ سے ان سے بات کرنا بھی پسند نہ کرتے تھے آخرت میں پہنچ کر ان کے سامنے دست سوال دراز کریں گے۔ اہل جنت میں جواب کہیں گے کہ تحقیق اللہ تعالیٰ نے ان دونوں چیزوں کو کافروں پر حرام کردیا ہے یہ کافر وہی تو ہیں جنہوں نے (دنیا میں) اپنے دین کو تماشا اور کھیل بنا رکھا تھا اور دنیاوی زندگانی نے ان کو ایسا فریب دیا کہ آخرت کو بالکل بھول گئے پس آج ہم بھی ان کو بھول جائیں گے جیسا کہ وہ دنیا میں اس دن کی پیشی اور ملنے کو بھولے ہوئے تھے۔ خدا تعالیٰ نسیان سے منزہ ہے یہاں مجازاً اس کو خدا کی طرف منسوب کردیا مطلب یہ ہے کہ آج ہم ان کو اپنی رحمت سے نظر انداز کردیں گے بھول جانا کنایہ ہے بےالتفاتی اور بےتوجہی سے اور اس کے راحت و آرام کی خبر نہ لینے سے ورنہ نسیان کے حقیق معنی جناب باری تعالیٰ میں متصور نہیں ہوسکتے پس جس طرح یہ لوگ ہماری ہی دی ہوئی نعمتوں میں مست ہو کر ہم کو بھول گئے اور پیغمبروں کے ذریعے ہم نے احکام بھیجے ان کا خیال بھی نہ کیا اور ہمارے دین کا کھیل اور تماشہ بنایا اسی طرح آج ہم بھی ان کا خیال نہ کریں گے اور جن لوگوں نے ہمارے دین کا کھیل اور تماشہ بنایا آج ہم ان کی ذلت و خواری کا تماشہ دکھلائیں گے اور جیسا کہ یہ لوگ ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہتے تھے۔ اسی طرح آج ہم بھی ان کی درخواست قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں اور ان لوگوں کا انکار کسی شبہ پر مبنی نہ تھا بلکہ عناد کی بناء پر تھا اس لیے کہ تحقیق ہم نے ان کفار کے پاس ایسی کتاب پہنچا دی جس میں تمام عقائد اور احکام اور امور آخرت کو تفصیل کے ساتھ بیان کردیا جو ایسے علم یقینی اور قطعی پر مشتمل ہے جس میں سہو اور خطاء کا احتمال بھی نہیں اور یہ کتاب ایسے عجیب و غریب علم پر مشتمل ہے کہ اس جیسا علم کسی اور کتاب میں نہیں (روح المعانی ص 11 ج 8) اور اس مفصل کتاب کو ہم نے اس لیے نازل کیا تاکہ سب پر حق واضح ہوجائے اور یہ کتاب ان لوگوں کے لیے ذریعۂ ہدایت اور رحمت ہے جو اس کو سن کر ایمان لاتے ہیں اور ایمان لا کر اس کی برکتوں سے حصہ پاتے ہیں برخلاف ان بدنصیطوں کے کہ جن کے دل تکبر اور تخوت اور مال و دولت کی محبت سے بھرے ہوئے اور لذات نفسانیہ پر فریفتہ ہیں وہ اس کا سننا بھی پسند نہیں کرتے ان کی حالت سے بظاہر ایسا مترشح ہوتا ہے کہ یہ کافر لوگ نہیں انتظار کر رہے ہیں مگر اس وعدۂ عذاب کی حقیقت اور مصداق کے ظاہر ہوجانے کا یعنی یہ کافر جو اس قرآن کی تکذیب پر آرے ہوئے ہیں کیا وہ اسی بات کے منتظر ہیں کہ قرآن میں جو عذاب کے وعدے کیے گئے ہیں وہ وقوع اور ظہور میں آجائیں اور اپنی آنکھوں سے ان کو دیکھ لیں تب ایمان لائیں تو خوب سمجھ لو جس دن اس وعدۂ عذاب کی حقیقت سامنے آجائے گی یعنی قیامت کے دن جب اس تکذیب اور تکبر کا نتیجہ آنکھوں سے دیکھ لیں گے سو وہ لوگ جو اس دن کو پہلے سے بھولے ہوئے تھے اور اس پر ایمان نہیں لاتے تھے اس دن کو دیکھ کر یہ کہیں گے کہ بیشک ہمارے رب کے رسول دنیا میں حق لے کر آئے تھے ہم نے اپنی حماقت اور تکبر سے ان ہیں ناحق جھٹلایا پس کیا ہمارے لیے یہاں کوئی سفارشی ہوسکتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے اللہ سے سفارش کریں یا یہ ہوسکتا ہے کہ ہم دنیا میں پھر واپس لوٹا دئیے جائیں۔ پس وہاں جا کر ان عملوں کے خلاف عمل کریں جو ہم پہلے کرتے تھے یعنی ہم پہلے برے عمل کرتے تھے اب اچھے عمل کریں گے عذاب خداوندی کو دیکھ کر یہ تمنا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اب نجات کی کوئی صورت نہیں جو وقت تم کو آخرت کی تجارت کے لیے دیا گیا تھا وہ سب تم نے اپنے تکبر اور حماقت سے ضائع کردیا بیشک ان لوگوں نے انبیاء کی تکذیب کر کے اپنی جانوں کو خسارہ میں ڈالا اب اس کا نتیجہ بھگتیں اور ان سے وہ سب کچھ گم ہوگیا جو وہ دنیا میں افتراء کرتے رہتے تھے سوائے عذاب کے کچھ نظر نہ آیا۔ " خود غلط بود آنچہ ما پنداشتیم " عجیب عجیب باتیں کرتے تھے جب آنکھ کھلی تو کچھ اور ہی دیکھا۔
Top