Tafseer-e-Madani - Ar-Ra'd : 8
اَللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى وَ مَا تَغِیْضُ الْاَرْحَامُ وَ مَا تَزْدَادُ١ؕ وَ كُلُّ شَیْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ
اَللّٰهُ : اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا تَحْمِلُ : جو پیٹ میں رکھتی ہے كُلُّ اُنْثٰى : ہر مادہ وَمَا : اور جو تَغِيْضُ : سکڑتا ہے الْاَرْحَامُ : رحم (جمع) وَمَا : اور جو تَزْدَادُ : بڑھتا ہے وَكُلُّ : اور ہر شَيْءٍ : چیز عِنْدَهٗ : اس کے نزدیک بِمِقْدَارٍ : ایک اندازہ سے
اللہ خوب جانتا ہے اس حمل کو جو کہ ہر مادہ کو رہتا ہے، اور وہی پوری طرح باخبر ہے اس کمی بیشی سے جو کہ رحموں کے اندر ہوتی رہتی ہے، اور ہر چیز اس کے یہاں ایک خاص اندازہ پر ہے،
26۔ اللہ تعالیٰ کے کمال علم کا ایک مظہر : سوارشاد فرمایا گیا کہ اللہ خوب جانتا ہے اس حمل کو جو ہر مادہ کو رہتا ہے۔ کہ وہ نر ہے یا مادہ۔ ناقص ہے یا کامل۔ سعید ہے یا شقی۔ کالا ہے یا گورا وغیرہ وغیرہ۔ (ابن کثیر، محاسن التاویل، جامع البیان وغیرہ) کہ وہی وحدہ لاشریک جو اپنی مخلوق کی ہر حالت اور اس کی ہر سٹیج کو جانتا اور پوری طرح جانتا ہے۔ اور اس کے آغاز سے لیکر انجام اور ابتداء سے لیکر انتہاء تک کوئی بھی حالت ایسی نہیں جو اس خالق ومالک سے مخفی ہو۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا (ھواعلم بکم اذانشأکم من الارض واذا انتم اجنۃ فی بطون امھاتکم) (النجم : 32) یعنی وہ تم لوگوں کو اس وقت بھی پوری طرح جانتا ہے جب کہ اس نے تم کو زمین سے پیدا فرمایا اور اس وقت بھی جب کہ تم اپنی ماؤں کے رحموں کے اندر جنین کی شکل میں ہوتے ہو۔ اور یہ شان جب اس وحدہ لاشریک کے سوا اور کسی کی نہیں ہوسکتی تو معبود برحق بھی اس وحدہ لاشریک کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ اور جب اس نے پہلی مرتبہ انسان کو پیدا فرمادیا اور اس طرح پیدا فرما دیا تو پھر وہ اس کو دوبارہ کیوں نہیں پیدا کرسکتا۔ 27۔ اللہ تعالیٰ رحموں کے اندر کی کمی بیشی کو بھی پوری طرح جانتا ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اور وہ پوری طرح باخبر ہے اس کمی بیشی سے جو رحموں کے اندر ہوتی رہتی ہے بچوں کی تعداد میں " کہ وہ ایک ہے یا دو یا زیادہ۔ نیز مدت حمل میں کہ وہ چھ ماہ ہے یا سات ماہ یا آٹھ ماہ۔ یا اس سے کم یا زیادہ۔ نیز بچوں کی غذا کے بارے میں جو کہ حیض کا خون ہے کہ وہ کم ہے یا زیادہ۔ سو کلمہ " ما " کا عموم ان سب ہی صورتوں کو عام اور ان کو شامل ہے سو ان سب امور پر اس وحدہ لاشریک کا علم ہی حاوی اور محیط ہے۔ (محاسن، مدارک، مراغی اور جامع وغیرہ) سو ایسی قدرت کاملہ، حکمت بالغہ اور رحمت شاملہ کا مالک رب ہی معبود برحق ہے۔ اور عبادت کی ہر قسم اور ہر شکل اسی کا حق ہے۔ سو اس کے علم سے کوئی بھی چیز مخفی نہیں رہ سکتی۔ اور ماں کے رحم کے اندر بچے چار تک بھی ہوسکتے ہیں چناچہ روایت ہے کہ حضرت شریک (رح) اپنی ماں کے پیٹ کے اندر چوتھے تھے۔ (محاسن التاویل وغیرہ) اور یہ بات صرف شریک ہی کی حد تک محدود نہیں بلکہ آج بھی ایسے ہی ہوتا ہے، اگرچہ کم اور کبھی کبھار ہوتا ہے۔ لیکن قدرت کے ایسے عجوبے اور معجزات ظاہر ہوتے رہتے ہیں چناچہ آج سے کچھ ہی عرصہ قبل اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ ملایئشیا میں ایک خاتون نے چار بچوں کو جنم دیا اور چاروں کے نام خلفاء راشدین کے ناموں پر ابوبکر، عمر، عثمان، اور علی رکھے گئے۔ وہ چاروں صحتمند تھے اور ان چاروں کی تصویریں بھی اخبارات میں شائع ہوئی تھیں۔ 28۔ ہر چیز ایک مقدار اور خاص اندازے پر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اور ہر چیز اس کے یہاں ایک خاص اندازے پر ہے " نہ اس سے کم ہوسکتی ہے نہ زیادہ جو کہ مبنی ہے نہایت علم اور حد درجہ حکمت پر ہے۔ جس کا احاطہ اس وحدہ لاشریک کے سوا کوئی نہیں کرسکتا (انا کل شئی خلقناہ بقدر) (القمر : 49) سو یہ بھی اس کے کمال قدرت اور کمال حکمت و عنایت کا ایک اور ثبوت ہے۔ سو اس سے ہر چیز کے وجود میں آنے کے لیے ایک خاص وقت مقرر فرما رکھا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اس نے ہر چیز کو پیدا فرما کر ایک خاص وقت اور خاص حال کے ساتھ مقید فرمایا ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ (وخلق کل شیء فقدرہ تقدیرا) (الفرقان : 3) یعنی اس قادر مطلق نے ہر چیز کو پیدا فرمایا اور اس کو ایک خاص اندازے پر رکھا۔ سو اسی طرح ہر قوم کے عذاب کے لیے بھی ایک وقت مقرر ہے۔ وہ اپنے وقت پر بہرحال آکر رہے گا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ پس نہ تو کسی کو اس کے لیے جلدی کرنی چاہئے اور نہ اس کی تاخیر سے دھوکے میں پڑنا چاہئے۔
Top