Tafseer-e-Madani - Ibrahim : 27
یُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِ١ۚ وَ یُضِلُّ اللّٰهُ الظّٰلِمِیْنَ١ۙ۫ وَ یَفْعَلُ اللّٰهُ مَا یَشَآءُ۠   ۧ
يُثَبِّتُ : مضبوط رکھتا ہے اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ لوگ جو ایمان لائے (مومن) بِالْقَوْلِ : بات سے الثَّابِتِ : مضبوط فِي : میں الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَ : اور فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں وَيُضِلُّ : اور بھٹکا دیتا ہے اللّٰهُ : اللہ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع) وَيَفْعَلُ : اور کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ مَا يَشَآءُ : جو چاہتا ہے
اللہ ثبات (وقرار) سے نوازتا ہے ایمان والوں کو، قول ثابت کی بناء پر دنیا کی اس (عارضی) زندگی میں بھی، اور آخرت (کے اس ابدی جہاں) میں بھی، اور اللہ (جل شانہ) گمراہی (کے گڑھے) میں ڈال دیتا ہے ظالموں کو، اور اللہ (سبحانہ، و تعالیٰ ) کرتا ہے جو چاہتا ہے،1
55۔ اہل ایمان کے لئے دنیا میں بھی ثابت قدمی : کہ وہ راہ حق و صواب پر قائم اور ثابت قدم رہتے ہیں، اور زیغ وضلال کے جھگڑوں سے محفوظ رہتے ہیں، اور ہر فیصلہ کن مرحلے پر اس ایمان کی برکت اور اپنے رب کی عنایت و توفیق سے وہ صحیح فیصلہ کرتے ہیں اور ان کا رب ان کے ایمان کی برکت سے ان کی صحیح راہنمائی فرماتا ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ ان الذین امنو وعملوالصالحات یہدیہم ربہم بایمانہم تجری من تحتہم الانہار فی جنات النعیم (یونس : 9) یعنی بلاشبہ جو لوگ ایمان لائے ان کا رب ان کی راہنمائی فرمائے گا ان کے ایمان کی برکت سے اور اس کے نتیجے میں، یہاں تک کہ وہ نعمتوں بھری ان جنتوں سے سرفراز ہوجائینگے جن کے نیچے سے طرح طرح کی عظیم الشان نہریں بہہ رہی ہونگی، سو نور ایمان و یقین دارین کی سعادت و سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے، اور اس سے محرومی ہر خیر سے محرومی ہے۔ والعیاذ باللہ۔ 56۔ اور ان کے لئے آخرت میں بھی ثابت قدمی : جس کا سب سے پہلا اور اہم مرحلہ برزخ کا مرحلہ ہے، جہاں منکرونکیر کے سوالات کے جواب میں وہ صحیح جواب دے گا، اور ثابت قدم رہے گا، جیسا کہ صحیح بخاری ومسلم وغیرہ کی احادیث میں اس کی تصریح و تفصیل موجود ہے (بخاری کتاب التفسیر، سورة ابراہیم، اور مسلم کتاب الجنتہ وصفۃ نعیمہا واھلہا) 57۔ ظالموں کے لئے محرومی اور ہلاکت و تباہی۔ والعیاذ باللہ : چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ گمراہی (کے ہولناک گڑھے) میں ڈال دیتا ہے ظالموں کو، ان کے ظلم وعدوان کی بناء پر کہ وہ حق سے منہ موڑ کر ظلم کرتے ہیں، اپنے خالق ومالک کے حق میں، کہ وہ اس کی عبودیت و بندگی سے منہ موڑ کر بغاوت و سرکشی کی راہ کو اپنا تے ہیں، نیز وہ ظلم کرتے ہیں اس کائنات کے حق میں جس میں وہ رہتے بستے ہیں، کہ اس کی بیشمار نعمتوں سے لگاتار اور طرح طرح مستفید ہوتے ہیں، مگر اس کے باوجود اس واہب مطلق کے حضور جھکنے اور اس کا حق شکرادا کرنے کی بجائے کفر وانکار کا طریقہ اپناتا ہیں، جس نے ان کو محض اپنے فضل وکرم سے ان نعمتوں سے نوازا ہے، نیز وہ ظلم کرتے ہیں خود اپنی جانوں پر، کہ ایک تو وہ اس طرح اپنی فطرت کو بدلتے اور مسخ کرتے ہیں، اور دوسری طرف راہ حق کے مقابلے میں کفر وباطل کو اپنا کر وہ خود اپنے لئے دوزخ کا سامان کرتے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 58۔ اللہ جو چاہے کرے، سبحانہ وتعالیٰ : چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے کہ وہ خالق بھی ہے اور مالک و مختار بھی اور اپنی کائنات میں بلاشرکت غیرے حاکم و متصرف بھی، پس وہ جو چاہے کرے لیکن چونکہ وہ حکیم وعلیم بھی ہے، اس لیے اس کا ہرحکم کامل علم اور نہایت حکمت پر مبنی ہوتا ہے اور یہ اسی وحدہ لاشریک کی شان اور صفت ہے کہ وہ عزیز وقہار ہونے کے ساتھ ساتھ رحمن ورحیم اور حلیم و کریم بھی ہے، سبحانہ وتعالیٰ سو اس کائنات میں اسی کی مشیت ومرضی چلتی ہے وہ جو چاہے اور جیسا چاہے کرے، کوئی نہیں جو اس کی مشیت میں رکاوٹ بن سکے اور اس کے آگے دم مارسکے، سبحانہ وتعالیٰ ، پس مشیت اسی وحدہ لاشریک کی مشیت ہے۔
Top