Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 30
وَ قِیْلَ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا مَا ذَاۤ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ١ؕ قَالُوْا خَیْرًا١ؕ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةٌ١ؕ وَ لَدَارُ الْاٰخِرَةِ خَیْرٌ١ؕ وَ لَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِیْنَۙ
وَقِيْلَ : اور کہا گیا لِلَّذِيْنَ اتَّقَوْا : ان لوگوں سے جنہوں نے پرہیزگاری کی مَاذَآ : کیا اَنْزَلَ : اتارا رَبُّكُمْ : تمہارا رب قَالُوْا : وہ بولے خَيْرًا : بہترین لِلَّذِيْنَ : ان کے لیے جو لوگ اَحْسَنُوْا : بھلائی کی فِيْ : میں هٰذِهِ : اس الدُّنْيَا : دنیا حَسَنَةٌ : بھلائی وَلَدَارُ الْاٰخِرَةِ : اور آخرت کا گھر خَيْرٌ : بہتر وَلَنِعْمَ : اور کیا خوب دَارُ الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کا گھر
اور (اس کے برعکس) جب پرہیزگار لوگوں سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا اتارا ہے تمہارے رب نے ؟ تو وہ جواب میں کہتے ہیں کہ ایک بہت ہی بڑی بھلائی، 2 جنہوں نے اچھائی کی اس دنیا میں ان کے لئے بڑی عظیم الشان بھلائی ہے اور آخرت کا گھر تو یقیناً (ایسے لوگوں کے لئے) اس سے کہیں بڑھ کر اچھا ہوگا، اور یقیناً بڑا ہی عمدہ گھر ہوگا پرہیزگاروں کا،
59۔ قرآن حکیم سراسر خیروخوبی : سو اس سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ منکرین کے برعکس متقین کے نزدیک قرآن حکیم ایک عظیم الشان اور بےمثال خیر اور بھلائی ہے یعنی (خیرا) کی تنوین تعظیم کی ہے۔ اور فی الواقع یہ بھلائی اتنی بڑی ہے کہ اس کی بھلائی اور خیروبرکت دنیا وآخرت کی سب خیروبرکت کو حاوی و محیط ہے۔ ایسی خیر اور بھلائی جو انسان کے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی اور حقیقی فوز و فلاح کی کفیل وضامن ہے۔ بہرکیف ارشاد فرما گیا کہ یہی سوال جب متقی اور پرہیزگار لوگوں سے کیا جاتا ہے کہ تمہارے رب نے کیا اتارا ؟ تو یہ اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ ایک بہت ہی بڑی خیر اور عظیم الشان بھلائی کہ یہ سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ والحمد للہ جل وعلا بکل حال من الاحوال۔ 60۔ نیکوکاروں کے لئے دنیا وآخرت کی سعادت کی بشارت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جنہوں نے اچھائی کی ان کے لئے اس دنیا میں بھی بڑی بھلائی ہے کہ وہ دنیا میں بھی حقیقی عزت، سچی ناموری، پاکیزہ زندگی اور سکون واطمینان کی دولت سے سرفراز ہوں گے۔ اللہم اجعلنا منہم ) ۔ یعنی جن لوگوں نے صدق و اخلاص سے دین حق کو اپنایا اور وہ سچے دل سے اس کی تعلیمات مقدسہ پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور صدق دل سے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ (المراغی، المحاسن، المعارف وغیرہ) سو ایسے خوش نصیبوں کو آخرت کی اصل حقیقی اور دائمی کامیابی سے پہلے اس دنیا میں بھی عظیم الشان سعادتوں سے نوازا جاتا ہے جس کی ایک عظیم الشان اور جامع تعبیر ہے " حیات طیبہ " یعنی پاکیزہ زندگی جو سب عمدہ اور پاکیزہ صفات کی جامع اور ایک عظیم الشان نعمت ہے۔ جس عظمت اور لذت کو دولت ایمان سے محروم لوگوں کے لئے سمجھنا بھی ممکن نہیں۔ بہرکیف اس ارشاد سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ نیکوکاروں کے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی کی بشارت ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے میں ارشاد فرمایا گیا۔ (من عمل صالحا من ذکراوانثی وھو مومن فلنحییہ حیوۃ طیبۃ ولنجزینہم اجرھم باحسن ماکانوا یعملون) ۔ (النحل : 97) نیز دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا (تاتہم اللہ ثواب الدنیا وحسن ثواب الاخرۃ ) ۔ (آل عمران : 128) وباللہ التوفیق لما یحب ویرید جل وعلا۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا کی راہوں پر گامزن رہنے کی توفیق بخشے۔ آمین۔ 61۔ اصل صلہ وبدلہ تو آخرت ہی کا ہے : سو فرمایا گیا اور آخرت کا گھر تو یقینا اس سے کہیں بڑھ کر اچھا ہوگا۔ اور اتنا بڑھ کر کہ یہاں پر اس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ کہ آخرت اور اس کی ہر چیز دنیا اور اس کی ہر چیز سے کہیں اعلی وارفع ہوگی۔ اس لئے مومن کا اصل مقصد اور حقیقی نصب العین تو آخرت کا اجروثواب ہی ہوتا ہے۔ اور وہی ہونا چاہیے۔ لیکن متقین کے ایمان وتقوی کی برکت سے ان کو آخرت سے پہلے اس دنیا کی نوازشیں بھی نصیب ہوتی ہیں۔ سو تقوی دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے، کہ اس کے نتیجے میں انسان کو دنیا میں حیات طیبہ یعنی پاکیزہ زندگی کی سعادت نصیب ہوتی ہے اور آخرت میں جنت کی نعیم مقیم سے سرفرازی نصیب ہوگی۔ اور آخرت دنیا سے کہیں بڑھ کر بہتر بھی ہے اور ہمیشہ باقی رہنے والی بھی جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ولآخرۃ خیروابقی۔ سو اس سے یہ اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ جن لوگوں نے دنیاوی زندگی اور اس کے حطام زائل ہی کو اپنا اصلی مقصد بنایا ہوا ہے وہ کس قدر خسارے میں ہیں۔۔ والعیاذ باللہ جل وعلا۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنا ہی بنائے رکھے اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے اپنی حفاظت وپناہ میں رکھے اور ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر ہی گامزن رہنا نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ یارب العالمین، ویا ارحم الراحمین۔ 62۔ پرہیزگاروں کے لئے بڑا ہی عمدہ گھر : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ یقینا پرہیزگاروں کا گھر بڑا عمدہ ہوگا یعنی ان پر پرہیزگاروں کے لئے جنہوں نے زندگی بھر کفر و شرک اور معصیت و نافرمانی اور ہر چیز سے پرہیز کیا ہوگا جو رب تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کے غضب کا باعث بنتی ہو۔ سو تقوی و پرہیز گاری دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ وسیلہ ہے۔ اللہ نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ اور پرہیزگاروں کے بارے میں فرمایا گیا کہ ان کا گھر بہت ہی عمدہ ہوگا۔ سو جس طرح متکبروں کے ٹھکانے کی برائی کی کوئی حد اور انتہاء نہیں ہوگی اسی طرح متقیون کے اس گھر کی خوبی و کمال کی بھی کوئی حدوانتہا نہیں ہوگی۔ سو اصل دولت جو انسان کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے بہرور سرفراز کرنے والی دولت ہے وہ ایمان وتقوی اور پرہیزگاری کی دولت ہے جو انسان کو دارین کی سعادت سے سرفراز کرنے والی واحد دولت ہے۔ جو انسان کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز کرنے والی واحد دولت ہے۔ اللہ نصیب فرمائے اور علی وجہ الکمال والتمام نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ یامن بیدہ ملکوت کل شیء ویامن ھو اکرم الاکرمین وارحم الراحمین۔
Top