Tafseer-e-Madani - Maryam : 5
وَ اِنِّیْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَّرَآءِیْ وَ كَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا فَهَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّاۙ
وَاِنِّىْ : اور البتہ میں خِفْتُ : ڈرتا ہوں الْمَوَالِيَ : اپنے رشتے دار مِنْ وَّرَآءِيْ : اپنے بعد وَكَانَتِ : اور ہے امْرَاَتِيْ : میری بیوی عَاقِرًا : بانجھ فَهَبْ لِيْ : تو مجھے عطا کر مِنْ لَّدُنْكَ : اپنے پاس سے وَلِيًّا : ایک وارث
اور میں ڈرتا ہوں اپنے پیچھے اپنے رشتہ داروں سے اور میری بیوی بانجھ ہے پس تو اے میرے مالک ! مجھے اپنے یہاں سے ایک ایسا جانشین عطا فرما دے
3 دینی وراثت کے بارے میں فکر و اندیشہ : سو اس سے واضح فرمایا گیا کہ حضرت زکریا نے اپنے بعد اپنی دینی وراثت کے بارے میں فکر و اندیشہ کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا " اور میں ڈرتا ہوں اپنے رشتہ داروں سے "۔ کہ وہ میری مسند و عظ و ارشاد کو صحیح طور پر سنبھال نہیں سکیں گے اور علم وحی کی روشنی میں خلق خدا کی اصلاح نہیں کرسکیں گے۔ اور دین کی تعلیم و تبلیغ اور اس کے دفاع کے فریضہ کو صحیح طور پر ادا نہیں کرسکیں گے جو کہ ہماری اصل میراث اور حقیقی دولت ہے۔ (محاسن التاویل، المراغی اور المعارف وغیرہ) ۔ سو آپ کو اس بارے میں اندیشہ تھا کہ یہ لوگ آپ کے بعد آپ کی اور آل یعقوب کی دینی وراثت کو قائم نہیں رکھ سکیں گے جو اس پاکیزہ اور مقدس خاندان کا اصل سرمایہ تھا۔ اس لیے آنجناب کو اس کی فکر تھی کہ خاندان میں کوئی ایسا شخص اٹھے جو اس خاندان کے مشن کو زندہ رکھ سکے۔ اور ان روایات کا امین اور حامل بن سکے جو آل یعقوب کا اصلی ورثہ تھیں۔ اور عرض کیا کہ جہاں تک ظاہری اسباب اور حالات کا تعلق اور تقاضا ہے ان کے پیش نظر اس آرزو کے بر آنے کی کوئی امید اور توقع نہیں۔ لیکن اس کے باوجود میں اے میرے مالک تیرے حضور اپنی یہ درخواست پیش کرتا ہوں کہ تیری رحمت بہرحال بہت وسیع اور تیری قدرت ہر چیز پر حاوی ہے۔ اور تیری شان اقدس و اعلیٰ اسباب و وسائل کی محتاج نہیں۔ اور تیرے اختیار میں سب کچھ ہے۔ پس تو اپنی رحمت و عنایت سے اپنے پاس سے مجھے ایک ایسا وارث عنایت فرما دے جو میری اور آل یعقوب کی وراثت کو سنبھال سکے اور اس کو اے میرے رب پسندیدہ اخلاق والا بنانا۔ اور وہ کمزوریوں سے پاک اور بری ہو جو اب اس خاندان میں درآئی ہیں۔ سو اصل فکر دین و ایمان کی ہونی چاہیے نہ کہ دنیاوی مال ودولت کی۔ 4 پیغمبر بھی اولاد اللہ ہی سے مانگتے ہیں : حضرت زکریا نے اپنے عجز و نیاز کے سلسلے میں مزید عرض کیا " اور میری بیوی بانجھ ہے "۔ جو پہلے ہی بچے جننے کے قابل نہیں تھی تو اب کیا جنے گی۔ جبکہ اس کی عمر اٹھانوے برس ہوچکی ہے۔ (معارف وغیرہ) ۔ سو نظر بظاہر اگرچہ اب اولاد کی کوئی صورت نہیں، لیکن اس کے باوجود اے میرے مالک میں تجھ سے بچے کی یہ درخواست کرتا ہوں۔ کیونکہ یہ امر نہ تیری رحمت سے کچھ بعید ہے اور نہ تیری قدرت سے خارج کہ تو ہر چیز پر قادر ہے اور تیری رحمت بےپایاں ہے۔ سو اس سے پوری طرح واضح ہوجاتا ہے کہ پیغمبر مختار کل نہیں ہوتے کہ جو چاہیں کریں۔ بلکہ ان کا کام اپنے خالق ومالک کے حضور دست دعاء پھیلانا ہوتا ہے اور بس۔ اور وہ بھی اپنے خالق ومالک ہی کی عنایت کے محتاج اور اسی کے منتظر ہوتے ہیں۔ اپنی اولاد کیلئے بھی وہ اسی کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ اور جب پیغمبر اور حضرت زکریا جیسے عظیم الشان پیغمبر جو خود پیغمبر، ان کا بیٹا پیغمبر اور وہ خود خاندان نبوت کے چشم و چراغ اور ان کا ذکر قرآن حکیم میں اس قدر اہمیت کے ساتھ بیان فرمایا گیا۔ تو جب وہ بھی اور خود اپنے لیے بچہ اللہ ہی سے مانگتے ہیں تو پھر اور کون ہوسکتا ہے جو کسی کو اولاد دے یا دلا سکے ؟ سو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کس قدر گمراہ اور بہکے بھکٹے ہیں وہ لوگ جو اس وحدہ لاشریک سے منہ موڑ کر دوسروں سے بچے مانگتے ہیں۔ اور اس کیلئے وہ طرح طرح کے آستانوں اور قبروں کے چکر لگاتے اور وہاں طرح طرح کی شرکیات کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top