Tafseer-e-Madani - Maryam : 54
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ١٘ اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں اِسْمٰعِيْلَ : اسمعیل اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھے صَادِقَ الْوَعْدِ : وعدہ کا سچا وَكَانَ : اور تھے رَسُوْلًا : رسول نَّبِيًّا : نبی
اور اس کتاب میں ان کو اسماعیل (علیہ السلام) کا ذکر بھی سناؤ، بلاشبہ وہ بھی وعدے کے سچے اور ہمارے بھیجے ہوئے پیغمبر تھے۔
63 حضرت اسماعیل اور ان کی ایک امتیازی صفت کا ذکر : حضرت اساعیل کا ذکر " صادق الوعد " کی صفت سے فرمایا گیا۔ سو صدق وعدہ حضرت اسماعیل کی ایک امتیازی شان تھی۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ اس وصف یعنی صدق و صفاء میں وہ خاص درجہ اور مقام رکھتے تھے۔ چناچہ آپ کے والد ماجد نے جب آپ سے اپنا خواب بیان فرمایا کہ " میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں ذبح کر رہا ہوں اب بتاؤ تمہاری اس بارے کیا رائے ہے " ۔ { یٰبُنَیَّ اِِنّیِْ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَریٰ } ۔ تو آپ (علیہ السلام) نے سر تسلیم خم کردیا اور اپنے والد ماجد کو جواب دیا کہ " ابا جان آپ اپنا خواب پورا کرلیجئے مجھے آپ انشاء اللہ صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے " ۔ { یَا اَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْ اِنْشَائَ اللّٰہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ ۔ (الصافات : 102) ۔ سو یہاں سے صدق و صفائی اور وعدہ وفائی کی عظمت و اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ رسالت و نبوت کے ساتھ اسی صفت کو بیان فرمایا گیا ہے۔ اور قرآن و سنت کی بیشمار نصوص کریمہ میں اس کو طرح طرح سے واضح فرمایا گیا ہے۔ اور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ " مومن بزدل اور بخیل وغیرہ تو ہوسکتا ہے مگر جھوٹا نہیں ہوسکتا "۔ نیز صحیحین وغیرہ کی روایت میں آپ نے منافق کی تین نشانیاں بتلائیں کہ " جب وہ بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے۔ جب وعدہ کرتا ہے تو اس کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اور جب اس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو وہ اس میں خیانت اور بددیانتی سے کام لیتا ہے "۔ " اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَاِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَاِذَا ائْتُمِنَ خَانَ " اور ہمارے حضور کی سچائی اور وعدہ وفائی کی نبوت ملنے سے پہلے بھی ایسی منفرد اور امتیازی شان تھی کہ اس کا کوئی نمونہ اور مثال بھی کہیں نہیں مل سکتی۔ چناچہ سنن ابوداؤد وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن ابوالحمساء سے مروی ہے کہ میں نے آنحضرت ﷺ سے آپ کی بعثت سے پہلے ایک سودا کیا جس میں کچھ ادائیگی میرے ذمے باقی رہ گئی تھی۔ تو میں نے آپ سے کہا کہ آپ یہیں ٹھہرئیے میں لے کر آتا ہوں۔ مگر بعد میں میں بھول گیا۔ یہاں تک کہ تیسرے دن جب مجھے یاد آیا تو میں وہ لے کر آپ کی خدمت میں اسی مقام پر حاضر ہوا تو آپ کو وہیں انتظار میں پایا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا " جوان تم نے مجھے مشقت میں ڈالے رکھا۔ میں اب تک یہاں تمہارا انتظار کرتا رہا "، " یَا فَتَی لَقَدْ شَفَقْتَ عَلَیَّ اَنَا ھٰھُنَا مُنْذُ ثلٰثٍ اَنْتَظِرُکَ "۔ اسی طرح حضرت اسماعیل کے بارے میں منقول ہے کہ آپ (علیہ السلام) نے بھی کئی کئی دن تک وعدہ وفائی کے لئے انتظار کیا۔ بلکہ بعض روایات میں ہے کہ سال بھر تک انتظار کیا۔ (ابن کثیر، فتح القدیر وغیرہ) ۔ بہرکیف صدق و صفاء کا خصال حمیدہ میں ایک خاص درجہ اور امتیازی مرتبہ ہے۔ اور حضرت اسماعیل ۔ علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام ۔ اس میں ایک خاص شان کے مالک تھے۔ اسی لیے یہاں پر رب تعالیٰ نے ان کے اسی خاص وصف کا بطور خاص ذکر فرمایا۔ یعنی وہ وعدے کے بڑے ہی سچے اور پابند تھے۔ سو صدق وعد مومن کے امتیازی کردار اور اس کی انفرادی شان کی ایک اور جامع تعبیر ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل - 64 شرف نبوت و رسالت سے بڑا شرف : سو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نبوت و رسالت کا وصف و شرف سب سے بڑا وصف و شرف ہے۔ اسی لیے حضرت اسماعیل کے ذکر کے آخر میں اسی کا ذکر فرمایا گیا ہے اور ان کے علاوہ دوسرے حضرات انبیائے کرام ۔ علیہم الصلوۃ والسلام ۔ کے ذکر میں بھی ان کی نبوت کا خاص طور پر اور باربار تذکرہ فرمایا گیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ وصف یعنی وصف نبوت و رسالت سب سے اہم اور اللہ تعالیٰ کے یہاں سب سے زیادہ محبوب وصف ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ اللہ پاک کی طرف سے ملنے والا وہ سب سے بڑا اعزازو انعام ہے جس سے وہ اپنے کسی بندے کو محض اپنی رحمت و عنایت سے نوازتا ہے۔ اہل بدعت کے بعض بڑے اس لفظ کا ترجمہ ہر جگہ غیب کی خبریں بتانے والے سے کرتے ہیں تاکہ اس طرح یہ لوگ علم غیب کلی کے اپنے شرکیہ عقیدے کے لئے دلیل کشید کرسکیں۔ حالانکہ اس سے ان کا کام بن نہیں سکتا۔ کیونکہ نفس علم غیب جس کا حصول پیغمبر کے منصب کے لئے ضروری ہوتا ہے اس کا تو کسی کو انکارہوسکتا ہی نہیں کہ پیغمبر کا معنیٰ ہی ہے " پیغام لانے والا " اور علم غیب کلی جس کے اہل بدعت مدعی ہیں وہ اس سے ثابت نہیں ہوسکتا۔ پس ثابت کا انکار نہیں اور جس کا دعویٰ ایسے لوگ کرتے ہیں وہ اس سے ثابت ہوتا نہیں۔ بہرکیف حضرت اسماعیل اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نبی اور رسول تھے اور آپ کو بنو جرہم کی طرف مبعوث فرمایا گیا تھا جنہوں نے مکہ میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ اور حضرت اسماعیل نے بھی اپنی والدہ ماجدہ کے ساتھ وہیں ان ہی لوگوں کے ساتھ سکونت اختیار فرما لی تھی۔ (المراغی، المحاسن اور المعارف وغیرہ) ۔ اور مشرکین مکہ زعم اور گھمنڈ تو رکھتے تھے ان کی اولاد اور ان کے وارثو جانشیں ہونے کا لیکن تھے ایسے ناخلف کہ آنجناب کے عمل و کردار اور اخلاق وصفات کے اعتبار سے بالکل صفر۔ بلکہ اس کے برعکس وہ کفر و شرک اور اخلاق رذیلہ کی طرح طرح کی گندگیوں میں لتھڑے ہوئے تھے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ اپنی حفاظت وپناہ میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔
Top