Ruh-ul-Quran - Maryam : 54
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ١٘ اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں اِسْمٰعِيْلَ : اسمعیل اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھے صَادِقَ الْوَعْدِ : وعدہ کا سچا وَكَانَ : اور تھے رَسُوْلًا : رسول نَّبِيًّا : نبی
اور کتاب میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی سرگزشت کو ذکر کیجیے، بیشک وہ وعدے کے پکے اور رسول نبی تھے۔
وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ ز اِنَّـہٗ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَکَانَ رَسُوْلاً نَّبِیًّا۔ وَکَانَ یَاْمُرُاَھْلَـہٗ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ ص وَکَانَ عِنْدَ رَبِّـہٖ مَرْضِیًّا۔ (مریم : 54، 55) (اور کتاب میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی سرگزشت کو ذکر کیجیے، بیشک وہ وعدے کے پکے اور رسول نبی تھے۔ وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور اپنے رب کے نزدیک پسندیدہ تھے۔ ) حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا ذکر خاص اہتمام کے ساتھ قرائن سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہاں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) سے مراد حضرت اسماعیل بن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اس سے پہلے انہی آیات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے صاحبزادے حضرت اسحاق (علیہ السلام) اور آپ ( علیہ السلام) کے پوتے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن ان کے ساتھ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا ذکر نہیں کیا گیا جبکہ وہ آپ ( علیہ السلام) کے سب سے بڑے فرزند ہیں۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ جس طرح حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے صاحبزادے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد سے بنی اسرائیل جیسی امت اٹھائی گئی اور ان میں بڑے بڑے نبی مبعوث ہوئے، اسی طرح حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے بنی اسماعیل کو پیدا کیا گیا اور قریش ان میں نامور ہوئے اور ان میں محمد ﷺ جیسی عظیم شخصیت کو مبعوث فرما کر انھیں تمام امتوں کا امام بنادیا گیا۔ اگر حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا ذکر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی باقی اولاد کے ساتھ رواروی میں کردیا جاتا تو پھر شاید اس بات کی طرف اشارہ نہ ہوسکتا جبکہ اس سورة کے مکی ہونے کی وجہ سے اس میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے ذکر کی ایک خاص اہمیت ہے اور اس میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی جو پہلی صفت بیان کی گئی ہے اس میں اسی اہمیت کی طرف اشارہ بھی ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) صادق الوعد یعنی وعدے کو سچا کر دکھانے والے تھے جبکہ کوئی نبی بھی غدروعد اور شکست عہد کے جرم کا کبھی ارتکاب نہیں کرتا۔ انبیاء کرام تو خیر معصوم ہوتے ہیں، ان پر ایمان لانے والے، ان کے راستے پر چلنے والے بھی کبھی وعدہ توڑنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے، کیونکہ نبی کریم ﷺ سے جب پوچھا گیا کہ کیا ایک مومن کبھی وعدہ خلافی کرسکتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا، ہرگز نہیں۔ بعض احادیث میں نبی کریم ﷺ نے عہد کو قرض قرار دیا ہے اور بعض احادیث میں یہاں تک فرمایا لاَدِیْنَ لِمَنْ لاَ عَہَدَ لَـہٗ ” اس آدمی کا دین نہیں جس میں وعدے کی پابندی نہیں۔ “ خود آنحضرت ﷺ کے بارے میں حدیث شریف میں آتا ہے اور ترمذی نے اسے روایت کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے عبداللہ بن ابی الخمساء سے انتظار کرنے کا وعدہ فرمایا۔ وہ صاحب جا کر بھول گئے۔ تیسرے دن یاد آیا، وعدے کی جگہ پر پہنچے تو آپ ﷺ کو منتظر پایا، آپ ﷺ نے صرف یہ کہا کہ تم نے مجھے بہت تکلیف دی، میں تین دن سے تمہارے انتظار میں ہوں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی صفت کے طور پر بطور خاص صادق الوعد کا ذکر عام معنی میں نہیں بلکہ ایک خاص حوالے سے ہے۔ وہ حوالہ جانا پہچانا اور معروف ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب خواب دیکھا کہ آپ ( علیہ السلام) اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھوں ذبح کررہے ہیں۔ پیغمبر کا خواب چونکہ وحی ہوتا ہے، اس لیے تو آپ ( علیہ السلام) سمجھ گئے کہ یہ منشاء خداوندی ہے۔ آپ ( علیہ السلام) نے صبح بیٹے سے استمزاج کیا کہ میں نے اس طرح خواب دیکھا ہے، تمہاری کیا رائے ہے ؟ بیٹا چونکہ اپنے باپ کو اللہ تعالیٰ کا رسول جانتا تھا۔ اس لیے بےتأمل کہا کہ ابا جان ! اللہ تعالیٰ نے آپ ( علیہ السلام) کو جو حکم دیا ہے، اسے کر گزریئے، مجھے انشاء اللہ تعالیٰ آپ ( علیہ السلام) صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے اور جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) انھیں لے کر منیٰ کی ایک وادی میں پہنچے اور انھیں ذبح کرنے کا ارادہ کیا تو انھوں نے بےتردد گردن آپ ( علیہ السلام) کے سامنے پیش کردی۔ باپ نے پوری قوت سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کی کوشش کی اور بیٹے نے قربان ہونے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ تب اللہ تعالیٰ کا حکم آیا کہ مقصود اسماعیل کو ذبح کرنا نہ تھا بلکہ صرف یہ دیکھنا تھا کہ باپ بیٹا تعمیل حکم میں کہاں تک آمادہ، پُرجوش اور ثابت قدم ہیں۔ تاریخ انسانی کا یہ حیرت انگیز واقعہ ایفائے عہد کی ایک ایسی تابندہ مثال ہے جس کی نظیر شاید کہیں اور نہ مل سکے۔ اس لیے اس واقعہ کے حوالے سے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو صادق الوعد قرار دیا گیا ہے اور آپ ( علیہ السلام) کی صفات میں اسے نمایاں مقام عطا فرمایا گیا ہے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی دوسری صفت دوسری آیت میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے مقام و مرتبہ کی وضاحت کے لیے یہ فرمایا کہ وہ اپنے اہل خانہ کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا کرتے تھے۔ ایفائے عہد جس کی معراج اللہ تعالیٰ کے راستے میں جان دے دینا ہے، یہ دراصل ایمان و اسلام کی دوسری تعبیر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے رسول پر ایمان لانا درحقیقت ایک عہد ہے اور پھر قدم قدم پر احکام کی تعمیل اور سنت کا اتباع اسلام ہے۔ چناچہ ایمان و اسلام کی وضاحت کے بعد یہ بتایا گیا ہے کہ وہ نماز اور زکوٰۃ (جو درحقیقت حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ایک جامع تعبیر ہے) کا کس حد تک اہتمام کرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ نماز تمام حقوق اللہ کی ایک قانونی تعبیر ہے اور زکوٰۃ تمام حقوق العباد کی۔ ان دونوں کے گر جانے یا زندگیوں سے نکل جانے سے دین و شریعت کو کیا نقصان پہنچتے ہیں اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ نماز اور زکوٰۃ کی پابندی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا بھی تقاضا کرتی ہے اور تربیت کی صحیح جگہ ہوش سنبھالنے کے ساتھ ہی گھر ہے۔ اس لیے آپ اپنے اہل خانہ کو جس میں بیوی کے ساتھ ساتھ بچے شامل ہیں انھیں ان دونوں باتوں کا بطور خاص حکم دیتے تھے۔ نبی کریم ﷺ کو بھی قرآن پاک میں اسی بات کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد ہے : وَاْمُرْاَہْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْہَا ” اپنے اہل خانہ کو نماز کا حکم دیجیے اور خود بھی اس کی پابندی کیجیے۔ “ اسی طرح مسلمانوں کو بھی خود نماز کی پابندی کرنے اور اپنے اہل خانہ کو آگ سے بچانے کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر بطور خاص عمل پیرا تھے اور آپ ( علیہ السلام) اس میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرتے تھے۔ اس لیے آپ ( علیہ السلام) کے اس طریقے کو قیامت تک کے لیے ایک مثال کے طور پر پیش کیا گیا۔ مزید اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا کہ تبلیغ و دعوت اور تعلیم و تربیت کا کام ہمیشہ گھر سے شروع کیا جانا چاہیے۔ اگر پیغمبر کا اپنا گھر علم و دعوت کا مرکز بن جائے تو اسے ایک مدرسے اور مرکز کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے اور یہیں سے ہدایت کی شعاعیں پھوٹنا شروع ہوجاتی ہیں اور رفتہ رفتہ دوسرے گھر بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے، لیکن اگر خدانخواستہ داعی کا اپنا گھر ہی دعوت کے آثار و نتایج سے محروم ہو تو یہ گھر بجائے مرکز بننے کے طریق ہدایت میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اہل دنیاکا طریقہ ہے کہ وہ سب سے پہلے داعی کے اپنے گھر اور اس کے گھر کے افراد کو جانچتے اور پرکھتے ہیں اور اسی سے دعوت کے حق و باطل ہونے کا بھی اندازہ لگاتے ہیں۔ اس لیے نبی کریم ﷺ کو بھی سب سے پہلے اپنے قریبی عزیزوں کو دعوت دینے کا حکم دیا گیا تھا۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی تیسری صفت آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہر لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندے تھے، ان کی اپنی ذات سرفروشی اور اتباعِ امر کا نمونہ تھی۔ اور آپ ( علیہ السلام) تبلیغ و دعوت کی باریکیوں کو کما حقہ سمجھتے تھے۔ ایک پیغمبر میں رسول اور نبی ہونے کی حیثیت سے جتنی خوبیاں ہوسکتی ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) میں جمع کردی تھیں۔ اسی لیے آپ ( علیہ السلام) کو پسندیدہ ہونے کے لقب سے نوازا گیا یعنی آپ ( علیہ السلام) بالکل ویسے تھے جیسے اللہ تعالیٰ اپنے کسی نبی اور رسول کو دیکھنا چاہتا ہے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا ذکر اس اہتمام کے ساتھ شاید اس لیے کیا گیا ہے تاکہ قریش مکہ کو توجہ دلائی جائے کہ تم جو اپنے آپ کو حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد کہتے ہو، تمہیں کچھ اندازہ ہے کہ تم میں اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے اعتقادات اور سیرت و کردار میں کوئی نسبت نہیں پائی جاتی۔ وہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے اور اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی بندگی کی طرف لوگوں کو بلاتے تھے۔ اسی کی نماز اور اسی کی زکوٰۃ کی تلقین کرتے تھے۔ ان کی اپنی عبدیت کی انتہا یہ تھی کہ وہ اپنی جان بھی جان آفرین کے سپرد کرنے کے لیے تیار ہوگئے تھے اور تم نے نہ جانے کس کس کو اس کا شریک بنا رکھا ہے اور نہ جانے کس کس کے سامنے تمہارے سر جھکتے ہیں اور تمہاری عبدیت میں کون کون شریک ہے۔ تم ہر ایک کے سامنے جھکتے ہو اور ہر ایک سے ڈرتے ہو، لیکن اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنا چاہتے ہو، نہ ڈرنا چاہتے ہو، تو آخر تمہیں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) سے کیا نسبت ہے ؟ اور دوسری وجہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا ذکر الگ کرنے کی یہ بھی ہے کہ یہود نے اسلام دشمنی کے جوش میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی تاریخ بالکل مسخ کرکے رکھ دی تھی۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی زندگی پر تو انھوں نے اس طرح پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ کسی کو سراغ لگانے سے بھی ان کا سراغ نہ مل سکے۔ ان کی زندگی سے جن پہاڑوں، جن وادیوں اور جن شہروں کو نسبت تھی ان میں سے ہر ایک کا انھوں نے نام بگاڑا اور انھیں کھینچ تان کر ملک شام لے گئے اور ان کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں ذبح ہونا ہے، اسی لیے انھیں ذبیح اللہ کہا جاتا ہے۔ چناچہ انھوں نے یہ خطاب بھی ان سے چھین کر حضرت اسحاق (علیہ السلام) کو دے دیا۔ انھوں نے اپنے تئیں تحریفات کا ایسا طلسم پیدا کیا ہے کہ بظاہر کہیں بھی حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی شخصیت دکھائی نہیں دیتی، لیکن اللہ تعالیٰ اہل حق کی قبروں کو ٹھنڈا رکھے۔ انھوں نے تمام تحریفات کا پردہ چاک کرکے ازسرنو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی تاریخ کو زندہ کردیا ہے۔ ان میں مولانا حمیدالدین فراہی ( رح) کے کام کو خصوصیت حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جزائے خیر سے نوازے۔
Top