Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 142
سَیَقُوْلُ السُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰىهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِیْ كَانُوْا عَلَیْهَا١ؕ قُلْ لِّلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ١ؕ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
سَيَقُوْلُ : اب کہیں گے السُّفَهَآءُ : بیوقوف مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ مَا : کس وَلَّاهُمْ : انہیں (مسلمانوں کو) پھیر دیا عَنْ : سے قِبْلَتِهِمُ : ان کا قبلہ الَّتِيْ : وہ جس کَانُوْا : وہ تھے عَلَيْهَا : اس پر قُلْ : آپ کہہ دیں لِلّٰہِ : اللہ کے لئے الْمَشْرِقُ : مشرق وَالْمَغْرِبُ : اور مغرب يَهْدِیْ : وہ ہدایت دیتا ہے مَنْ : جس کو يَّشَآءُ : چاہتا ہے إِلٰى : طرف صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيمٍ : سیدھا
بیوقوف لوگ ضرور کہیں گے کس چیز نے پھیر دیا ان (مسلمانوں) کو ان کے اس قبلے سے جس پر یہ لوگ (اس سے پہلے) تھے1 کہو اللہ ہی کے لئے ہے مشرق بھی، اور مغرب بھی، وہ جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ (کی توفیق) سے نوازتا ہے،2
386 تحویل قبلہ سے متعلق قرآن حکیم کی ایک پیشینگوئی اور اس کی تصدیق : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " عنقریب کہیں گے بیوقوف لوگ کہ کس چیز نے پھیر دیا مسلمانوں کو ان کے اس قبلہ سے جس پر یہ لوگ اب تک تھے "۔ چناچہ ایسے ہی ہوا۔ ان لوگوں نے تحویل قبلہ کے اس حکم پر اسی طرح کے اعتراضات کر کے اپنی حماقت و سفاہت کا ثبوت بہم پہنچا دیا، سو یہ بھی قرآن حکیم کا ایک معجزہ ہے کہ اس نے جیسے پیشگی خبر دی تھی ویسے ہی ہوا۔ ورنہ ان لوگوں کے لئے یہ موقع تھا کہ جس قرآن کی مخالفت میں وہ دن رات ایک کئے ہوئے تھے، اس کی اس پیشگوئی کو غلط ثابت کرنے کیلئے ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ العلی العظیم۔ وہ اس طرح کا کوئی اعتراض نہ کرتے اور پھر کہتے کہ لو جی قرآن کی یہ پیشینگوئی غلط ثابت ہوگئی ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ العلی العظیم۔ کہ ہم نے ایسا کوئی اعتراض نہیں کیا، مگر اس کی ہمت ان کو نہ ہوسکی۔ سو یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شریعت مطہرہ کے کسی حکم پر اپنی عقل ناقص کی بناء پر اعتراض کرنا سفاہت و جہالت ہے۔ اور یہ یوں بھی ظاہر ہے، کیونکہ عقل کی پرواز جہاں ختم ہوجاتی ہے، وہاں سے وحی کی حدود کا آغاز ہوتا ہے۔ تو پھر اس خام اور ناقص عقل کی بنا پر وحی کے کسی حکم پر اعتراض کرنے کا کیا موقع و مقام ہوسکتا ہے ؟ عقل کا دائرہ تو محسوسات تک ہے، اور بس۔ جبکہ شریعت اور وحی کا تعلق غیب سے ہے جس کا دائرہ عقل سے وراء الوراء ہے، اور اس سے کہیں بڑھ کر اعلیٰ وبالا ہے۔ سو جہاں عقل کی پرواز ختم ہوجاتی ہے وہاں سے وحی کے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ 387 مشرق و مغرب سب اللہ تعالیٰ ہی کیلئے : کہ سب کا خالق بھی وہی ہے، اور مالک بھی وہی۔ اور اس پر حاکم و متصرف بھی وہی۔ پس وہ جس سمت کو چاہے قبلہ قرار دے، اور جس کو چاہے منسوخ فرما دے۔ بندے کو اس کی " لِمْ " اور علت پوچھنے کا کیا حق ہوسکتا ہے، جبکہ ایک غلام اپنے آقا سے اس کے حکم کی حکمت اور علت پوچھنے کا حق دار نہیں ہوتا، جبکہ ایک مریض اپنے ڈاکٹر کے لکھے ہوئے نسخے پر اعتراض نہیں کرسکتا، تو پھر ایک بندہ مخلوق اپنے خالق ومالک کے حکم کی علت اور حکمت جاننے کا سوال کیونکر کرسکتا ہے ؟ بلکہ بندے کا کام تو اس کے حکم و ارشاد کو بےچون و چرا تسلیم کرنا، اور اسے جوں کا توں بجا لانا ہے اور بس۔ اور یہی تقاضا ہے اس وحدہ لاشریک کی عبادت و بندگی کا، جو کہ اس کے بندوں کی ذمہ داری اور ان سے مطلوب ہے۔ البتہ یہ حقیقت اپنی جگہ ایک قطعی اور اٹل حقیقت ہے کہ اس وحدہ لاشریک کا جو بھی حکم ہوگا، وہ کسی نہ کسی حکمت بلکہ حکمتوں پر ہی مبنی ہوگا، کہ وہ وحدہ لاشریک حاکم ہونے کے ساتھ ساتھ حکیم بھی ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ پس اس کے ہر حکم کے بےچوں و چرا تسلیم کرنے اور اپنانے ہی میں بندے کا بھلا ہے۔ وباللہ التوفیق ۔ بہرکیف اس سے واضح فرما دیا گیا کہ مشرق و مغرب کی یہ ساری کائنات تنہا اسی وحدہ لاشریک کی ہے۔ وہی اس کا خالق ومالک بھی ہے اور اس میں حاکم و متصرف بھی۔ پس وہ جو چاہے حکم دے کسی کو اس پر اعتراض کا کوئی حق نہیں ہوسکتا ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ 388 سیدھی راہ کی توفیق اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " وہ جس کو چاہتا ہے نوازتا ہے سیدھی راہ سے "۔ سو سیدھی راہ سے نوازے جانے کیلئے بنیادی شرط مشیت خداوندی ہے، کیونکہ اس کا دار و مدار طلب صادق اور اخلاص نیت کی اس اساس و بنیاد پر ہے، جس کا محل دل ہے۔ اور دلوں میں چھپی چیزوں کو جاننے والا وہی وحدہ لاشریک ہے۔ اس لئے وہی جانتا ہے کہ کس کے باطن کی کیفیت کیا ہے، اور کون کس صلے اور بدلے کا مستحق اور کس کے لائق ہے ؟ وہ اسی کے مطابق کسی کو نور حق و ہدایت سے نوازتا ہے، اور کسی کو اس کی اپنی اختیار کردہ ضلالت و گمراہی کے گڑھے میں دھکیل دیتا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ پس انسان کا بھلا اس میں ہے کہ وہ اپنے دل کی دنیا اور اپنے باطن کو صحیح رکھے، اور اپنے خالق ومالک سے اپنا رشتہ وتعلق درست رکھے، کہ اسی پر سارا دارومدار ہے۔ سو انسان کے صلاح و فساد اور اس کے بناؤ بگاڑ کا تعلق اس کے اپنے قلب و باطن سے ہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید -
Top