Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 8
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِیْنَۘ
وَمِنَ : اور سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَقُولُ : کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللہِ : اللہ پر وَ بالْيَوْمِ : اور دن پر الْآخِرِ : آخرت وَ مَا هُمْ : اور نہیں وہ بِمُؤْمِنِينَ : ایمان لانے والے
اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو (زبان سے تو) کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور قیامت کے دن پر مگر وہ ایمان دار ہیں نہیں3
20 منافقین کا ذکر اور ایک بدعی مغالطے کا جواب : سو یہاں سے تیسرے گروہ یعنی منافقین کا ذکر شروع ہوتا ہے، جو کہ زبانی کلامی تو ایمان کا دم بھرتے اور دعوی کرتے ہیں، مگر اندر سے یہ لوگ کافر اور منکر ہوتے ہیں۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم۔ یہ لوگ چونکہ مار آستین کی طرح کھلے کافروں سے بھی زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ہوتے ہیں، اس لئے یہاں ان کا ذکر نسبتاً زیادہ تفصیل سے فرمایا گیا ہے، اور اسی بنا پر ان کا عذاب بھی زیادہ سخت ہوگا، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا { اِنَّ المُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْک الْاَسْفَل مِنَ النَّارِ } ۔ (النساء۔ 145) یعنی " منافق لوگ یقینی طور پر دوزخ کے سب سے نچلے گڑھے میں ہوں گے "۔ اہل بدعت کے بعض تحریف پسندوں نے اس موقع پر یہ گوہر افشانی بھی کی ہے کہ " اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کو بشر کہنے میں اس کے فضائل و کمالات کے انکار کا پہلو نکلتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جا بجا انبیاء کرام کے بشر کہنے والوں کو کافر فرمایا گیا اور درحقیقت انبیاء علیھم الصلوۃ والسلام کی شان میں ایسا لفظ ادب سے دور اور کفار کا دستور ہے " ۔ فَاِنَّا لِلّٰہ وِاِنَّا اِلَیْہ رَاجِعُوْنَ ۔ کہاں کی بےتکیاں کہاں جوڑ دیں۔ نہ کوئی جوڑ نہ ربط۔ پھر یہ کہنا کتنا بڑا ظلم اور کس قدر کھلا افترا ہے کہ قرآن پاک میں جا بجا انبیاء کرام کو بشر کہنے والوں کو کافر فرمایا گیا ہے، جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ قرآن پاک میں جا بجا تو درکنار کسی ایک مقام پر بھی ایسا نہیں فرمایا گیا، بلکہ اس کے برعکس امر واقعہ یہ ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیھم الَّصلٰوۃُ والسّلام نے اپنی بشریت کا اظہار و اعلان خود فرمایا، اور صاف وصریح طور پر، اور حصرو تاکید کے الفاظ کے ساتھ فرمایا ہے، مثلاً سورة ابراہیم میں ہے ۔ { قَالَتْ لَہُمْ رُسُلُہُمْ اِنْ نَّحْنُ اِلّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَمُنُّ عَلَی مَنْ یَّشَاءُ مِنْ عِبَادِہ } ۔ ( سورة ابراہیم : 1 1) سو حضرات انبیاء کرام علیھم الّصلوٰۃ والسلام کا اجماعی قول کفار و مشرکین کے جواب میں اس طرح ذکر فرمایا گیا ہے یعنی رسولوں نے ان سے کہا کہ " لوگو ! واقعتا ہم تم ہی جیسے بشر ہیں لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے احسان فرماتا ہے "۔ چناچہ اس نے ہم پر احسان فرما کر اور ہمیں منصب نبوت و رسالت کے لئے چن کر خاص شرف سے نواز دیا، سو اپنی اصل کے اعتبار سے ہم بھی تم ہی جیسے بشر اور انسان ہیں، البتہ وصف رسالت کے اعتبار سے تم سے ممتاز ہیں، اور خاتم الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو حکم فرمایا گیا کہ اپنی بشریت کا صاف اور صریح طور پر اعلان کرو اور کہو کہ میں صرف ایک انسان اور بشر رسول ہوں۔ کسی خدائی صفت کا کوئی شائبہ تک نہ مجھ میں ہے، اور نہ ہی میں نے کبھی اس طرح کوئی دعوی ہی کیا ہے ۔ { قُلْ ہَلْ کُنْتُ الاَّ بَشَرًا رَّسُوْلاً } ۔ (بنی اسرائیل : 93) اس ارشاد ربانی میں " ھَل " نافیہ اور " الا " استثنائیہ کے کلمات حصرو تاکید کے ساتھ اس حقیقت صادقہ کو مؤکد کر کے بیان فرمایا گیا ہے، اور بعض دوسرے مقامات پر تو آپ ﷺ کو { بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ } " تم ہی جیسا بشر " کے الفاظ کے ساتھ اپنی بشریت کے اعلان و اظہار کا حکم و ارشاد فرمایا گیا ہے، مثلاً سورة کہف کی آخری آیت کریمہ میں ارشاد ہوتا ہے۔ { قُلْ اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحَی اِلَیَّ } ۔ (ان سے) " کہو کہ میں تو تم ہی لوگوں جیسا ایک (انسان اور) بشر ہوں، بس میری طرف وحی بھیجی جاتی ہے " (الکہف : 1 10) ۔ سو وحی کے اس شرف و امتیاز کی بنا پر میرا مرتبہ و مقام سب سے بڑھ گیا ورنہ اپنی اصل کے اعتبار سے میں تم ہی جیسا ایک بشر اور انسان ہوں۔ اس کے علاوہ صحیح احادیث شریفہ کی بیشمار نصوص ایسی ہیں جن میں بشریت پیغمبر ﷺ کی اس حقیقت صادقہ کا واضح طور پر اعلان فرمایا گیا ہے۔ مثلًا صحیح بخاری و مسلم وغیرہ کی روایت کے مطابق آپ ﷺ نے اس بارے میں صاف اور صریح طور پر اعلان فرمایا : ۔ ” ِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِثْلُکُمْ " ۔ (صحیح بخاری ج 1 ص 58، صحیح مسلم ج 1 ص 2 12) ایک اور مقام پر آپ ﷺ نے تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : " اَیُّہَا النَّاسُ اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ یُوْشِکُ اَنْ یَأ تِیْنِی رَسُوْلُ رَبِّیْ فَاُجِیْبْ لَہ " (مسند احمد ج 6 ص 36 ولہ، و مسلم ج 2 ص 279، دارمی 424) اور ترجمان القرآن۔ " حِبْرُ ہٰذِہ الْاُمَّۃ " حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں : " وَاِنَّہٗ لَبَشَرٌ " (دارمی ص 23) اور امُّ المومنین حضرت عائشہ ؓ آنحضرت ﷺ کے شمائل کے ضمن میں ارشاد فرماتی ہیں ۔ " مَاکَان الاَّ بَشرًا مِنَ الْبَشَر " ۔ " کہ آپ ﷺ عام انسانوں کی طرح ایک انسان ہی تھے " یعنی اپنی اصل فطرت اور طبیعت کے اعتبار سے، (شمائل ترمذی 24، الادب المفرد للبخاری، ص 79، موارد الظمآن ص 525) ۔ پس کس قدر ظلم ہے کہ اس طرح کی بیشمار نصوص کے باوجود، سلف و خلف سے ثابت و مروی اور عقل و فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق، بشریت انبیاء کے اس بنیادی عقیدے کا انکار کیا جائے۔ اور اس سے بڑھ کر ظلم و ستم یہ کہ اس انکار کو قرآن حکیم کی تفسیر کے نام سے رواج دینے کی کوشش کی جائے، اور اس سے بھی بڑھ کر یہاں تک افتراء پردازی کی جائے کہ قرآن پاک میں انبیائے کرام کو بشر کہنے والوں کو جا بجا کافر فرمایا گیا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ تَعَالَی اللّٰہُ عَمَّا یَصِفُوْنَ ۔ اور اس طرح کی ہرزہ سرائی افتراء علی اللہ نہیں تو اور کیا ہے ؟ اور اللہ تعالیٰ پر افترا باندھنے والوں سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوسکتا ہے ؟ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّن اِفْتَرَی عَلَی اللَّہ کَذِبًا ۔ وَالْعَیَاذ باللَّہ الْعَزِیْز الرَّحْمٰن۔ سو ایسے لوگوں نے اس طرح تحریف قرآن کے سنگین اور ہولناک جرم کا ارتکاب کیا، وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم ـ اَللّٰہُمَّ اَلْہِمْنَا مَرَاشِدَ أمُوْرِنَا وَأعِذْنَا مِنْ شُرُوْر اَنْفُسِنَا وَسَیِّئَات اَعْمَالِنَا یَا ذَا الْجَلاَل وَالاِکْرَامِ- 21 ایمان کے دعوے کے باوجود بےایمان والعیاذ باللہ : کیونکہ ایمان صرف زبانی جمع خرچ اور ظاہری اعلان و اظہار کا نام نہیں، بلکہ ایمان عبارت ہے اس اعتقاد جازم سے جو دل کے اندر موجود اور اس کے رگ و ریشے میں پیوست ہو۔ اور اس کا اقرار و اظہار الفاظ اور زبان سے کیا جائے۔ تو پھر اعتقاد قلبی سے محروم، اس طرح کے برخود غلط لوگ مومن (ایماندار) کس طرح ہوسکتے ہیں ؟۔ سو ایسے لوگ اپنے ایمان کے بلند بانگ دعو وں کے باوجود دولت ایمان و یقین سے محروم ہیں، والعیاذ باللہ العظیم۔ اور ایمان بھی وہ معتبر ہے جو دین حنیف کی تعلیمات مقدسہ کے مطابق ہو، ورنہ محض اور فی الجملہ ایمان تو مشرکین اور اہل کتاب بھی رکھتے تھے، مگر وہ ایمان اللہ تعالیٰ کے یہاں قابل اعتبار نہیں کہ وہ معیار مطلوب کے مطابق نہیں۔ بہرکیف ایمان سے مقصود و مراد چونکہ وہ ایمان ہے جو کہ دل کے یقین اور اعتقاد و تصدیق سے پھوٹتا ہو اور اس سے یہ منافق لوگ چونکہ محروم ہیں اس لیے یہ لوگ ایمان کے دعوے کے باوجود نور ایمان و یقین سے محروم اور بےایمان ہیں۔ پس ایمان کا صرف دعویٰ درکار نہیں بلکہ اس کی اصل اور حقیقت مطلوب ہے جو عبارت ہے تصدیق قلبی اور اقرار لسانی سے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید -
Top