Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 7
خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَ عَلٰى سَمْعِهِمْ١ؕ وَ عَلٰۤى اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ١٘ وَّ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۠   ۧ
خَتَمَ اللَّهُ : اللہ نے مہرلگادی عَلَىٰ : پر قُلُوبِهِمْ : ان کے دل وَعَلَىٰ : اور پر سَمْعِهِمْ : ان کے کان وَعَلَىٰ : اور پر أَبْصَارِهِمْ : ان کی آنکھیں غِشَاوَةٌ : پردہ وَلَهُمْ : اور ان کے لئے عَذَابٌ عَظِيمٌ : بڑا عذاب
اللہ نے مہر لگا دی ان کے دلوں پر اور (ڈاٹ لگادیئے) ان کے کانوں پر (ان کی اپنی بدنیتی اور سوء اختیار کی بنیاد پر) ان کی آنکھوں پر ایک (سخت قسم کا) پردہ ہے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے
17 " ختم قلوب " کا مفہوم اور اس کا سبب اور باعث : سو اس طرح انہوں نے اپنی فطری استعداد کو ضائع کرکے، اور اپنے آپ کو نور حق سے محروم کرکے، اپنی جانوں پر خود ظلم کیا، کہ حق و ہدایت سے محرومی درحقیقت ہر خیر سے محرومی ہے ـ ـــوَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم ـ ورنہ اللہ پاک سبحانہ و تعالیٰ تو اپنے بندوں پر کبھی بھی اور کسی بھی طرح ذرہ برابر کوئی ظلم نہیں کرتا، جیسا کہ کلام حکیم میں اس کی جابجا تصریح فرمائی گئی ہے، مثلاً سورة توبہ کی آیت نمبر 70 میں ارشاد فرمایا گیا { فَمَا کَان اللّٰہُ لِیَظْلِمَہُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْا اَنْفُسَہُمْ یَظْلِمُوْنَ } ۔ (توبہ : 70) " سو اللہ ایسا نہیں تھا کہ ان پر ظلم کرتا مگر وہ (بدبخت) اپنی جانوں پر خود ہی ظلم کر رہے تھے " اور یہی بات سورة عنکبوت آیت نمبر 40 اور سورة روم آیت نمبر 9 اور دوسرے مقامات پر بھی ارشاد فرمائی گئی ہے۔ اور اس کے علاوہ قرآن حکیم کے دوسرے بیشمار مواقع پر بھی اسی بات کو دوسرے مختلف طریقوں سے بیان فرمایا گیا ہے۔ سو " ختم قلوب " کی اس محرومی کا سبب اور باعث ان لوگوں کا خود اپنا عمل و کردار اور سوء اختیار ہے۔ والعیاذ باللہ۔ سو جس طرح کسی ظرف پر مہر لگنے سے نہ اس کے اندر کی کوئی چیز باہر نکل سکتی ہے، اور نہ باہر سے کوئی چیز اس کے اندر جاسکتی ہے، اسی طرح کا حال ایسے محروم دلوں کا ہوتا ہے، جو اپنی ہٹ دھرمی کی بناء پر اپنی فطری استعداد کو ضائع کردیتے ہیں، کہ نہ ان کے اندر کا کفر باہر نکل سکتا ہے اور نہ باہر سے ایمان و ہدایت کی روشنی کی کوئی کرن ان کے اندر جاسکتی ہے، والعیاذ باللہ العظیم۔ کیونکہ ایسے ہٹ دھرم لوگ حق بات کو سننے اور ماننے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتے۔ تو پھر ایسوں کو دولت ہدایت سے سرفرازی کیسے نصیب ہوسکتی ہے ؟۔ 18ٓ " غشاوۃ " سے مقصود و مراد ؟: سو غشاوۃ یعنی آنکھوں کے اس پردے سے مراد وہ معنوی پردہ ہے جو انسان کو نور حق و ہدایت سے محروم کردیتا ہے والعیاذ باللہ، اور آنکھوں پر پڑنے والا ایسا پردہ جو اگرچہ ظاہر میں نظر نہیں آتا، لیکن وہ اتنا سنگین اور اس قدر سخت اور ہولناک ہے کہ انسان کو نور حق سے محروم کردیتا ہے ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ ـ اور ظاہر ہے کہ جب ان کے دلوں پر مہر لگ گئی، اور ان کے کانوں پر ڈاٹ لگ گئے، اور ان کی آنکھوں پر پٹی بندھ گئی، تو پھر حق کی روشنی ان کو نصیب ہو تو کہاں سے، اور کیسے ہو ؟ کیونکہ اس کے سب منافذ بند، اور تمام راستے مسدود ہوگئے۔ پس ان کی آنکھیں، ان کے دل، اور ان کے کان، جو دنیاوی اشیاء کو دیکھنے سننے اور سمجھنے اور پرکھنے کے لئے تو بہت تیز ہیں، حق سے محروم، اور بند ہوگئے، جیسا کہ دوسری جگہ اس کی اس طرح تصریح فرما دی گئی { لَھُمْ قُلُوْبٌ لاَّ یَفْقَھُوْنَ بِھَا وَلَھُمْ اَعْیُنٌ لاَ یُبْصِرُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُونَ بِھَا اُولٓئِکَ کَالْاَنَعاَم بَلْ ھُمْ اَضَلُّ اُوِلٓئِکَ ھُمُ الُغَافِلُوْنَ } ۔ (الاعراف : 179) " ان کے دل ہیں کہ جن سے یہ سمجھتے نہیں، ان کی آنکھیں ہیں جن سے یہ (سامان عبرت کو) دیکھتے نہیں، ان کے کان ہیں، جن سے یہ (حق کو) سنتے نہیں۔ یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں، بلکہ ان سے بھی کہیں بڑھ کر گمراہ۔ یہی لوگ ہیں جو (اپنے مقصد زندگی اور اپنے ہولناک انجام سے) غافل و (بےخبر) ہیں۔ اور یہی نتیجہ و انجام ہوتا ہے حق سے منہ موڑنے، اِعراض برتنے اور عناد و ہٹ دھرمی سے کام لینے کا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 19 اَخیار و متقین کے مقابلے میں اشرار و منکرین کے انجام کا بیان : سو اس سے اخیار و متقین کے مقابلے میں اشرار و منکرین کے انجام کا ذکر وبیان فرمایا گیا ہے سو یہ ہے اشرار و کافرین کا انجام جو ان کو اپنے کئے کی پاداش میں بہرحال بھگتنا ہوگا۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم ۔ اور یہ پرہیزگاروں کے بالمقابل ان کفار ناہنجار کے انجام بد اور مآل سو کا بیان ہے، جو حق سے محرومی کے باعث ان کو پیش آئے گا ۔ وَلاَحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ الاّ بِہٖ جَلَّ وَعَلاَ ۔ اور یہ عذاب اس قدر بڑا، اور اتنا سخت اور شدید ہوگا کہ اس دنیا میں اس کا تصور بھی کسی کے لئے ممکن نہیں۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم۔ سو جس کافر کا انجام یہ ہونے والا ہے، اس کو اگر حیات دنیا کی اس محدود و مختصر فرصت میں دنیا بھر کی دولت بھی مل جائے، تو بھی اس کو کیا ملا، اور اس کے مقابلہ میں جس مومن صادق کو اس کے ایمان و یقین کی برکت سے اور اس کے نتیجے میں دوزخ کے اس ہولناک عذاب سے بچا کر جنت کی سدا بہار نعمتوں سے سرفراز کردیا گیا، اس سے بڑھ کر خوش نصیب اور کون ہوسکتا ہے، اگرچہ اس کو دنیا میں پیٹ بھر کر کھانا بھی نصیب نہ ہوا ہو، سو اصل دولت ایمان و یقین کی وہ دولت ہے جو دارین کی سعادت و سرخروئی کی کفیل وضامن، اور حیات آفرین و سدا بہار دولت ہے۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہ الَّذِیْ شَرَّفَنَا بِنِعْمَۃ الْاِیْمَان اللّٰھُمَّ فَثَبِّتْنَا عَلَیْہ وزِدْ نَا مِنْہُ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمیْن وَیَا اَکْرَمَ الْاَکْرَمِیْنَ ۔ بہرکیف کفر و انکار اور عناد و ہٹ دھرمی کا نتیجہ وانجام ہلاکت و تباہی ہے اور نہایت ہی ہولناک اور دائمی ہلاکت و تباہی۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top