Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 9
یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ۚ وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَؕ
يُخٰدِعُوْنَ : وہ دھوکہ دیتے ہیں اللّٰهَ : اللہ کو وَ : اور الَّذِيْنَ : ان لوگوں کو اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے وَ : اور مَا : نہیں يَخْدَعُوْنَ : وہ دھوکہ دیتے اِلَّآ : مگر اَنْفُسَھُمْ : اپنے نفسوں کو وَ : اور مَا : نہیں يَشْعُرُوْنَ : وہ شعور رکھتے
وہ (اس طرح) دھوکہ دیتے ہیں اللہ کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں حالانکہ (حقیقت میں) وہ دھوکہ خود اپنے آپ کو ہی دے رہے ہیں، مگر وہ شعور نہیں رکھتے
22 منافق لوگ اور ان کی دھوکے بازی : کہ یہ لوگ دھوکہ دیتے ہیں اللہ کو اور ایمان والوں کو۔ یعنی اپنے خیال کے مطابق، کہ اپنے طور پر یہ لوگ یوں سمجھتے ہیں کہ اس طرح اندر کچھ اور باہر کچھ کی اس منافقانہ پالیسی سے یہ حقیقت حال کو پوشیدہ رکھ کر اپنی بڑی مہارت اور چالاکی دکھا رہے ہیں، حالانکہ یہ ان کی پرلے درجے کی حماقت تھی، اور ہے، بھلا اللہ پاک سبحانہ و تعالیٰ کو جو کہ " عَلِیْمٌ بِذَات الصُّدُوْر " ہے کسی طرح کا کوئی دھوکہ دینا کیونکر ممکن ہوسکتا ہے ؟ سو اسی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جو لوگ نور ایمان کی دولت سے محروم ہوتے ہیں وہ کیسی کیسی حماقتوں کا ارتکاب کرتے ہیں، اور کیسی کیسی ٹھوکریں کھاتے ہیں ۔ وَالْعِیَاذ باللَّہِ ۔ اور جن کے باطن نور ایمان و یقین سے منور ہوتے ہیں، وہ کس اطمینان و سکون کے ساتھ بےخوف و خطر شاہراہ فوز و فلاح پر گامزن ہوتے ہیں، وہ اپنے خالق ومالک کے حقوق کو پہچانتے، اور صدق دل سے ان کے حضور جھکتے ہیں، اور اس طرح اپنے لیے سعادت دارین کا سامان کرتے ہیں ۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہ الَّذِیْ شَرَّفَنَا بِہٰذَا النُّوْر العَظِیْم ۔ سو ایمان و یقین کی دولت سعادت دارین سے سرفراز کرنے والی دولت ہے، اور اس سے محرومی ۔ والعیاذ باللہ ۔ سعادت دارین سے محرومی ہے اور ایسا محروم انسان ہر خیر سے محروم رہتا ہے والْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم ـ 23 منافقت کا وبال خود منافقوں پر : سو اس طرح سے ایسے لوگوں کی منافقت کا وبال خود انہی پر پڑتا ہے، کہ اللہ تعالیٰ کو تو دھوکہ دینا کسی کے بس میں نہیں ہے، کیونکہ اس کی شان ہے ۔ { یَعْلَمُ خَآئِنَۃَ الْاَعْیُن وَمَا تُخْفِیْ الصُّدُوْرُ } ۔ یعنی " وہ آنکھوں کی چوری اور دلوں میں چھپی باتوں کو بھی جانتا ہے "، نیز اس کی شان ایسی ہے کہ وہ ذات اعلیٰ و اقدس چھپے بھیدوں اور اس سے بھی مخفی چیزوں کو جانتی ہے۔ { یَعْلَمُ السِّرَّ و َاَخْفٰی } تو پھر اس کو دھوکہ دینا ممکن ہی کس طرح ہوسکتا ہے ؟ اور اہل ایمان کو بھی یہ منافق لوگ دھوکہ اس لئے نہیں دے سکتے کہ ان کو اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے اصل حقیقت سے آگاہ فرما دیتا ہے، جیسا کہ ان آیات کریمہ میں بھی اس کا نمونہ موجود ہے۔ پس دھوکا دراصل خود ان منافق لوگوں کو لگ رہا ہے کہ اس طرح سے ایک طرف تو یہ لوگ اپنی رسوائی کا سامان خود کرتے رہتے ہیں ۔ وَالْعِیَاذُ بَاللّٰہ ۔ اور دوسری طرف یہ ایمان کی اس بےمثل دولت سے محروم ہو رہے ہیں جو کہ دارین کی سعادت و سرخروئی کی کفیل وضامن ہے، اور جس سے محرومی ہر خیر سے محرومی ہے۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم ۔ مگر ان کو اس کا شعور و احساس بھی نہیں کہ کس خسارے اور گھاٹے کا سودا یہ بدبخت لوگ خود اپنے لیے کر رہے ہیں، اور اس کی اصل شکل و صورت کل آخرت کے اس جہاں میں ان سب کے سامنے آجائے گی، جو حیات دنیا کے اس متاع غرور کے فنا و انتہاء کے بعد رونما ہوگا، اور جس کو " عالم مشاہدہ " کہا جاتا ہے کہ وہ اس جہان فانی کے برعکس کشف حقائق کا جہان اور " عالم شہود " ہوگا۔ چناچہ اس ضمن میں میدان حشر میں ان بدبختوں کو جس ذلّت و رسوائی کا سامنا ہوگا اس کا منظر سورة حدید کی آیات 13 تا 15 میں نہایت وضاحت کے ساتھ اور بڑے عبرتناک اور سبق آموز انداز میں پیش فرمایا گیا ہے، سو اللہ پاک نے اس کو اپنی کتاب حکیم میں اتنی وضاحت سے اور اس قدر صراحت کے ساتھ پیشگی بیان فرما دیا، تاکہ جس نے بچنا ہو وہ بچ جائے کہ اس سے بچنے کا اور آخرت کی کمائی کا موقع یہ دنیاوی زندگی اور اس کی یہ فرصت محدود ہی ہے، اور بس۔ ورنہ اس وقت چیخنے چلانے اور کف افسوس ملنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ { لِیَہْلِکَ مَنْ ہَلَکَ عَنْ بَیِّنَۃٍ وَیَحیٰی مَنْ حَیَّ عَنْ بَیِّنَۃ }۔ سو انسان اچھا برا جو بھی کرتا ہے وہ دراصل اپنے ہی لیے کرتا ہے۔ اس کا نفع نقصان جو بھی کچھ ہوگا وہ خود اسی کو پہنچے گا ۔ فَاِیَّاکَ نَسْاَلُ اَللّٰہُمَّ التَّوْفِیْقَ لِمَا تُحِبُّ وَتُرْضٰی مِنَ الْقَوْل وَالْعَمَل بِکُل حَال مِنَ الاَحْوَالِ-
Top