Tafseer-e-Madani - Ash-Shu'araa : 117
قَالَ رَبِّ اِنَّ قَوْمِیْ كَذَّبُوْنِۚۖ
قَالَ : (نوح نے) کہا رَبِّ : اے میرے رب اِنَّ : بیشک قَوْمِيْ : میری قوم كَذَّبُوْنِ : مجھے جھٹلایا
آخرکار نوح نے دعا کی کہ اے میرے رب میری قوم نے مجھے قطعی طور پر جھٹلا دیا
65 حضرت نوح کی دعا اپنے رب کے حضور : سو آخرکار حضرت نوح نے اپنے رب کے حضور فیصلے کی دعا و درخواست کی۔ یعنی یہ مطلب نہیں کہ ان کی دھمکی پر فوراً ہی حضرت نوح نے یہ دعا کردی۔ جیسا کہ ایجاز کلام کی وجہ سے بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے۔ بلکہ یہ دراصل صدیوں پر محیط اس طویل قصے کا اجمال و اختصار ہے۔ جیسا کہ دو سرے مقام پر اس کی تفصیل و تصریح موجود ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان کے درمیان ساڑھے نو سو برس تک تبلیغِ حق فرمائی۔ اور ان لوگوں کو ہر طرح سے سمجھایا۔ اس طویل جدوجہد کے بعد جب یہ امر واضح ہوگیا کہ اب یہ لوگ راہ راست پر آنے والے نہیں اور وحی کے ذریعے آپ کو بتادیا گیا کہ اب ان میں سے کوئی ایمان لانے والا نہیں۔ پس جو ایمان لا چکے وہ لا چکے۔ تب آپ (علیہ السلام) نے یہ دعا فرمائی تاکہ جسد انسانیت سے یہ عضو مسموم ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے اور اللہ پاک کی زمین ایسی بدبخت اور ناہنجار قوم کے بوجھ سے ہمیشہ کیلئے پاک اور صاف ہوجائے۔ کیونکہ اب ان کے اندر خیر کی کوئی رمق باقی نہیں رہی۔ اور اب ان کے باقی رہنے کی صورت میں مزید فاسق اور بدکار لوگ پیدا ہوں گے اور خدا کی دھرتی پر ایسے فسادی عناصر کا مزید بوجھ پڑے گا۔ لہذا اب ان کو مٹا دے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا کہ نوح نے عرض کیا کہ " اے میرے رب اب زمین پر ان کافروں سے کوئی زندہ نہ چھوڑ۔ کیونکہ اب اگر تو نے ان کو زندہ چھوڑ دیا تو ان سے فاجر اور کافر لوگ ہی جنم لیں گے "۔ (نوح :26-27) ۔
Top