Tafseer-e-Madani - Al-Ahzaab : 66
قَدْ كَانَ لَكُمْ اٰیَةٌ فِیْ فِئَتَیْنِ الْتَقَتَا١ؕ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ اُخْرٰى كَافِرَةٌ یَّرَوْنَهُمْ مِّثْلَیْهِمْ رَاْیَ الْعَیْنِ١ؕ وَ اللّٰهُ یُؤَیِّدُ بِنَصْرِهٖ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّاُولِی الْاَبْصَارِ
قَدْ : البتہ كَانَ : ہے لَكُمْ : تمہارے لیے اٰيَةٌ : ایک نشانی فِيْ : میں فِئَتَيْنِ : دو گروہ الْتَقَتَا : وہ باہم مقابل ہوئے فِئَةٌ : ایک گروہ تُقَاتِلُ : لڑتا تھا فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ وَ : اور اُخْرٰى : دوسرا كَافِرَةٌ : کافر يَّرَوْنَھُمْ : وہ انہیں دکھائی دیتے مِّثْلَيْهِمْ : ان کے دو چند رَاْيَ الْعَيْنِ : کھلی آنکھیں وَ : اور اللّٰهُ : اللہ يُؤَيِّدُ : تائید کرتا ہے بِنَصْرِهٖ : اپنی مدد مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَعِبْرَةً : ایک عبرت لِّاُولِي الْاَبْصَارِ : دیکھنے والوں کے لیے
وہ بیشک تمہارے لئے (حق و باطل کی پہچان کے لئے) بڑی نشانی تھی ان دو گروہوں (کی مڈ بھیڑ) میں، جن کا (بدر کے مقام پر) باہم مقابلہ ہوا جن میں سے ایک گروہ تو اللہ کی راہ میں (اور اس کی رضا کے لئے) لڑ رہا تھا، اور دوسرا گروہ جو کہ کافروں کا تھا، وہ (عین معرکہ کے وقت) مسلمانوں کو اپنے سے دوگنا دیکھ رہا تھا آنکھوں کے اعتبار سے اور اللہ تائید فرماتا اپنی مدد سے (اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کی بناء پر) جس کو چاہتا ہے، بیشک اس میں بڑا سامان عبرت ہے چشم بینا رکھنے والوں کے لئے۔2
25 معرکہ حق و باطل میں سامان عبرت و بصیرت : سو ارشاد فرمایا گیا تمہارے لئے اے لوگو حق اور باطل کے ان دونوں گروہوں کے ٹکراؤ میں بڑا سامان عبرت و بصیرت تھا کہ کس طرح ایک چھوٹی سی جماعت، اپنی قلت تعداد اور قلت وسائل و اَسباب کے باوجود محض اپنی ایمانی قوت کی بناء پر، اور اپنے خالق ومالک کی تائید و حمایت اور اس کی نصرت و امداد کے آسرے اور سہارے پر، اپنے سے کئی گنا بڑی اور ایک ایسی جماعت کا مقابلہ کر رہی تھی، جو کہ آلات حرب و ضرب سے لیس اور تعداد و سامان وغیرہ کے اعتبار سے ان سے کئی گنا بڑھ کر تھی۔ اور پھر اس معرکہ آرائی میں بالآخر فتح و غلبہ بھی اسی چھوٹی جماعت کو نصیب ہوتا ہے، جو ایمانی قوت سے سرشار تھی۔ پس اصل قوت ایمان و یقین کی قوت ہے، اور اصل سہارا و اعتماد اللہ پاک کی مدد و عنایت کا سہارا ہے، جس کے مقابلے میں کوئی قوت بھی غالب نہیں آسکتی جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا { اِنْ یَّنْصُرْکُمُ اللّٰہُ فَلا غالِبَ لَکُمْ وَاِنْ یَّخْذُلْکُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِیْ یَنْصُرُکُمْ مِنْ بَعْدِہ وَ عَلَی اللّٰہ فَلْیَتَوَکَّل الْمُؤْمِنُوْنَ } (آل عمران۔ 160) سو معرکہ بدر میں اس کا ایک عملی اور عمدہ نمونہ تمہارے سامنے موجود تھا، اور سبق لینے اور عبرت پکڑنے والوں کیلئے اس میں بڑا سامان عبرت و بصیرت تھا مگر غفلت اور ہٹ دھرمی کا کیا کیا جائے کہ وہ محرومیوں کی محرومی ہے۔ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ - 26 معرکہ بدر کی ایک خاص عنایت خداوندی کا ذکر وبیان : سو اس سے معرکہ بدر میں اہل ایمان کیلئے ایک خاص رحمت و عنایت خداوندی کا ذکر وبیان فرمایا گیا ہے کہ دشمن ان کو عین معرکہ کے دوران اپنے سے دوگنا دیکھ رہا تھا تاکہ اس طرح ان کی ہمتیں ٹوٹیں، اور مسلمانوں کا رعب ان پر چھا جائے اور وہ شکست کھا جائیں۔ سو یہ بھی اللہ پاک ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ کی اسی غیبی امداد کا ایک حصہ ہے جس سے وہ اپنے بندوں کو نوازتا اور ان کی تائید و نصرت فرماتا ہے ۔ جَلّ وَعَلَا ۔ { وَمَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ اِلَّا ہُوَ } واضح رہے کہ جیسا کہ ہم نے ترجمہ میں بھی بین القوسین اشارہ کیا ہے یہ عین معرکے کی حالت کا بیان ہے، جبکہ لڑائی شروع ہونے سے قبل کفار مسلمانوں کو اپنے سے کم دیکھ رہے تھے جیسا کہ وہ واقع میں تھے بھی کم۔ اسی لئے سورة انفال میں ارشاد فرمایا گیا { وَیُقَلِّلُکُمْ فِیْ اَعْیُنِہِمْ } الایۃ (الانفال۔ 44) (روح، قرطبی، مراغی، اور معارف وغیرہ) ۔ اس کے علاوہ اس میں کچھ دوسرے اقوال بھی ہیں، جو کہ انشاء اللہ ہم اپنی مفصل تفسیر کے موقع پر ذکر کریں گے۔ بہرکیف جب انسان کا ایمان و یقین درست ہوتا ہے اور اس کے دل کا بھروسہ اللہ تعالیٰ ہی پر ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی عنایات سے طرح طرح سے نوازتا ہے اور ہمیشہ نوازتا ہے۔ سبحانہ تعالیٰ - 27 چشم بینا رکھنے والوں کیلئے سامان عبرت و بصیرت : سو ارشاد فرمایا گیا اور حرف تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بیشک اس میں بڑا سامان عبرت ہے دیدہ بینا رکھنی والوں کے لیے کہ قوت اصل میں ایمانی قوت ہی ہے۔ اور مدد دراصل خدائی مدد ہی ہے۔ پس جو لوگ ایمانی قوت سے سرشار اور خداوندی تائید و نصرت سے سرفراز ہوتے ہیں، غلبہ بہرحال انہی کا ہوتا ہے، خواہ وہ تعداد اور سامان حرب و ضرب کے اعتبار سے کتنے ہی تھوڑے اور کمزور کیوں نہ ہوں۔ سو ایمان و یقین سے محرومی ہر خیر سے محرومی ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور اس سے اور اس کی قوت سے سرفرازی دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی ہے۔ وباللہ التوفیق و ھو الہادی الی سواء السبیل ۔ " عبرت " کا لفظ دراصل " عبور " سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہوتا ہے " عبور کرنا "، " پار ہونا " وغیرہ۔ اس لئے عبرت کے معنی ہوتے ہیں ایک حقیقت سے عبور کر کے دوسری تک پہنچ جانا۔ سو صاحب بصیرت شخص ایک حقیقت سے دوسری کی طرف عبور کر کے بڑے اہم درس لیتا ہے اور یہی فرق ہوتا ہے ایک صاحب بصیرت اور ایک بلید شخص میں، کہ ایک اپنی ناک سے آگے نہیں دیکھتا جب کہ دوسرے کے لئے ایک معمولی سی نشانی ایک ادنیٰ سی تنبیہ، اور ایک سرسری سا اشارہ حقائق کے دفتر کھولنے کے لئے کلید بن جاتا ہے۔ سو ایسے ہی لوگ قرآن پاک کے نزدیک " اولوا الابصار " کہلاتے ہیں کہ ان کی آنکھوں میں بصارت کے ساتھ بصیرت کا نور بھی ہوتا ہے جو ان کو جزء میں کل اور قطرہ میں دجلہ دیکھنے کا اہل بنا دیتا ہے۔ وَبِاللّٰہ التَّوْفِیْق لِمَا یُحِبُّ وَیُرِیْدُ وَہُوَ الْہَادِیْ اِلٰی سَوَائ السَّبِیْل ۔ وَھُوَ عَلٰی کُلّ شَیْئٍ قَدِیْرِ-
Top