Tafseer-e-Majidi - Ash-Shu'araa : 66
ثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِیْنَؕ
ثُمَّ : پھر اَغْرَقْنَا : ہم نے غرق کردیا الْاٰخَرِيْنَ : دوسروں کو
پھر دوسرے فریق کو غرق کردیا،52۔
52۔ بحر قلزم کے کنارے فرعونیوں کے غرق ہونے پر مفصل حاشیے سورة بقرہ پ 1 میں گزر چکے ،” کالطود العظیم “۔ ابن مسعود اور ابن عباس ؓ صحابیوں، اور متعدد تابعین سے معنی یہی بڑی پہاڑی کے منقول ہیں۔ اے کالجبل الکبیر قالہ ابن مسعود وابن عباس ؓ ومحمد بن کعب وقتادۃ والضحاک وغیرہ (ابن کثیر) (آیت) ” ثم “۔ یعنی وہیں۔ اسی مقام تک، اے ھنالک قال ابن عباس وعطاء الخراسانی وقتادۃ والسدی (ابن کثیر) (آیت) ” الاخرین “۔ یعنی فرعون اور فرعونیوں کو۔ یعنی قوم فرعون (معالم) فرعون و جنودہ (ابن کثیر) (آیت) ” فاوحینا “۔ الخ، صاحب روح المعانی نے لکھا ہے کہ حق تعالیٰ تو بغیر عصائے موسیٰ (علیہ السلام) کی ضرب کے بھی سمندر میں راستہ بنادینے پر قادر تھا، لیکن اس واسطہ کے اختیار کرنے سے موسیٰ (علیہ السلام) کلیم اللہ کی بھی عظمت کا اظہار ہوگیا۔ اور مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ اولیاء اللہ کے ساتھ خوارق کے ظاہر کرنے کی یہی حکمت ہوتی ہے اور اسی لیے اسے کہتے بھی کرامات ہی ہیں۔
Top