Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 22
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ١٘ وَ مَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی الَّذِيْنَ : وہ جو کہ حَبِطَتْ : ضائع ہوگئے اَعْمَالُھُمْ : ان کے عمل فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت وَمَا : اور نہیں لَھُمْ : ان کا مِّنْ : کوئی نّٰصِرِيْنَ : مددگار
، یہ وہ لوگ ہیں جن کے اکارت چلے گئے سب عمل، دنیا میں بھی، اور آخرت میں بھی، اور ان کے لئے کوئی مددگار نہیں ہوگا۔
48 انبیاء و صلحاء کے قاتلوں کے سب عمل اکارت : کہ دنیا میں جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی جو نعمت انکو حاصل تھی اس سے یہ لوگ محروم اور مباح الدم ہوگئے، اور ذلت و خواری کے مستحق بن گئے۔ اور آخرت میں دوزخ کی آگ کا ایندھن بن گئے۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہِ ۔ سو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حضرات انبیاء و صلحاء کے قتل کا جرم کس قدر سنگین اور کتنا ہولناک جرم ہے۔ والعیاذ باللہ ۔ ان لوگوں کے عمل دو قسم کے تھے۔ ایک وہ جن کو یہ لوگ اپنے طور پر نیکی اور ثواب کا کام سمجھ کر رہے تھے کہ یہ ان کو آخرت میں کام آئیں گے۔ سو ان کے ایسے کاموں کے آخرت میں ان کے کام آنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ وہاں کام آنے کے لئے اولین شرط ایمان صحیح کی دولت سے سرفرازی ہے جس سے یہ لوگ محروم ہیں۔ اور دوسری قسم ان کے اعمال کی وہ تھی جو یہ لوگ دین حق اسلام کی مخالفت اور اس کا راستہ روکنے کے لئے کرتے تھے۔ وہ بھی ان کے کچھ کام نہیں آئیں گے۔ دین حق بہرحال غالب آ کر رہے گا۔ ان کو اس بارے منہ کی کھانی پڑیگی۔ سو ان کے تمام اعمال اکارت چلے گئے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اور یہ دنیا و آخرت دونوں میں ذلیل و خوار اور مستحق نار ہوگئے۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم - 49 انبیاء و مصلحین کے قاتلوں کیلئے کوئی مددگار نہیں ہوگا : جو ان کو اللہ کی گرفت و پکڑ سے بچا سکے، اور دنیا کی ذلت اور آخرت کے عذاب کو ان سے ٹال سکے، کہ ان کا جرم بڑا سنگین اور نہایت ہولناک جرم ہے۔ لہذا ان کو ہمیشہ کیلئے اس ہولناکی میں رہنا ہوگا ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ العَظِیْمِ ۔ اور یہ اس لئے کہ حقیقی ناصر و مددگار تو سب کا ایک اور صرف ایک ہے۔ یعنی اللہ وحدہ لا شریک۔ اس کے تو یہ لوگ منکر اور باغی ہیں۔ اس لئے اس کی نصرت و امداد سے سرفرازی کی ان کے لئے کوئی صورت ممکن نہ ہوگی اور جن کو ان لوگوں نے از خود اور اپنے طور پر اپنا یا اور مددگار بنا رکھا تھا، اور ان کو یہ دنیا میں اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے پکارا کرتے تھے، ان کی نہ کوئی اصل ہی اور نہ حقیقت۔ اس لئے ان میں سے کسی کے کام آنے کی کوئی صورت ہوگی ہی نہیں کہ وہ سب وہمی اور فرضی سہارے تھے جن کے اندر کسی کے کام آنے کی کوئی اہلیت اور صلاحیت سرے سے تھی ہی نہیں۔ سو ایسے لوگ دنیا و آخرت کی اس ذلت و خواری اور ناکامی و نامرادی سے نہ خود بچ سکیں گے اور نہ ہی ان کو کام آنے والا کوئی یار و مددگار مل سکے گا۔ اور تاریخ اس بات کی گواہ اور شاہدعدل ہے کہ ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن حکیم کی ہر پیشینگوئی حرف بحرف پوری ہوئی کہ اللہ کا عذاب آنے پر ان کے ان خود ساختہ سہاروں میں سے کوئی بھی انکے کام نہ آسکا۔ اور اصل عذاب تو ایسے بدبختوں کو آخرت میں بھگتنا ہے ۔ والعیاذ باللہ -
Top