Tafseer-e-Haqqani - Al-A'raaf : 70
هُوَ الَّذِیْ یُصَوِّرُكُمْ فِی الْاَرْحَامِ كَیْفَ یَشَآءُ١ؕ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
ھُوَ : وہی ہے الَّذِيْ : جو کہ يُصَوِّرُكُمْ : صورت بناتا ہے تمہاری فِي : میں الْاَرْحَامِ : رحم (جمع) كَيْفَ : جیسے يَشَآءُ : وہ چاہے لَآ اِلٰهَ : نہیں معبود اِلَّا ھُوَ : اس کے سوا الْعَزِيْزُ : زبردست الْحَكِيْمُ : حکمت والا
وہ (وحدہ لاشریک) وہی ہے جو تمہاری صورت گری فرماتا ہے تمہاری ماؤں کے رحموں اندر جیسے چاہتا ہے، کوئی معبود نہیں سوائے اس (وحدہ لاشریک) کے، جو بڑا ہی زبردست، نہایت ہی حکمت والا ہے،
9 انسانوں کی صورت گری حضرت خالق ۔ جل مجدہ ۔ کی قدرت و حکمت کا ایک عظیم الشان اور بےمثل نمونہ و مظہر : سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ وہی ہے جو ماؤں کے رحموں کے اندر انسان کی صورت گری فرماتا ہے جو اس کی قدرت و حکمت اور اس کی رحمت و عنایت کا ایک عظیم الشان و بےمثل اور محیر العقول نمونہ و مظہر ہے۔ اس لئے تمہاری فطرت اور فطرت کے تقاضوں سے جس طرح وہ وحدہ لاشریک واقف و آگاہ ہوسکتا ہے، اس طرح نہ دوسرا کوئی ہوسکتا ہے اور نہ خود تم ہوسکتے ہو، کہ کسی کیلئے بھی ایسی واقفیت و آگہی ممکن نہیں۔ اس لئے اس کی ہدایت و رہنمائی پر اعتماد کئے بغیر تمہارے لئے کوئی چارہ کار نہیں کہ اس کے بغیر راہ حق و صواب میسر آہی نہیں سکتی۔ نیز اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ جس ذات اقدس نے استقرار حمل سے لیکر اس کے بعد کے مختلف مراحل میں تمہاری زیست وبقاء اور جسمانی نشوونما کیلئے اس طرح کا عظیم الشان اور بےمثل انتظام فرمایا ہے، کس طرح ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ تمہاری روحوں کی غذا کا انتظام نہ فرمائے۔ جبکہ جسم کے مقابلے میں اصل اور مقصود روح ہی ہے ؟ نیز اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ جب تمہاری اس تخلیق اور صورت گری میں اس کا کوئی شریک وسہیم نہیں تو پھر اس کی عبادت و بندگی میں کوئی اس کا شریک وسہیم کس طرح ہوسکتا ہے ؟ سو انسان اگر خود اپنی ذات، اپنے آغاز، اور اپنے جسم و جان ہی میں غور کرے تو اس کو حضرت حق کے وجود باجود، اس کی قدرت کاملہ، حکمت بالغہ، اور رحمت و عنایت شاملہ کے ایسے قطعی اور عظیم الشان شواہد ملیں گے کہ یہ دل و جان سے اپنے اس خالق ومالک کے حضور جھک جھک جائے، لیکن مشکلوں کی مشکل یہ ہے کہ انسان اس کی طرف غور کرتا ہی نہیں۔ اس کی ساری تگ و دو اپنے بطن وفرج کی شہوات و خواہشات میں گھر کر اور الجھ کر رہ گئی ہے۔ اور اس حد تک کہ اس نے جو ہر عقل کے اس عظیم الشان اور بےمثال عطیہ خداوندی کو اس کے اصل مقصد کی بجائے بطن و فرج اور اس کے تقاضوں کا غلام بنا کر رکھ دیا ہے ۔ واِلَّا مَا شَائَ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ وتعالیٰ ۔ سو انسان کا وجود اور اس کی شکل وصورت خالق کی قدرت وحکمت کا ایک عظیم الشان مظہر و نمونہ ہے۔
Top