Anwar-ul-Bayan - Az-Zukhruf : 70
اُدْخُلُوا الْجَنَّةَ اَنْتُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُوْنَ
اُدْخُلُوا الْجَنَّةَ : داخل ہوجاؤ جنت میں اَنْتُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ : تم اور تمہاری بیویاں تُحْبَرُوْنَ : تم خوش رکھے جاؤ گے
(ان سے کہا جائے گا) کہ تم اور تمہاری بیویاں عزت (و احترام) کے ساتھ بہشت میں داخل ہوجاؤ
(43:70) تحبرون مضارع مجہول جمع مذکر حاضر حبر (باب نصر) مصدر جس کے معنی زینت کرنے اور خوشی و مسرت کے آثار ظاہر ہونے کے ہیں حال ہے ضمیر انتم سے۔ دراں حالیکہ تم خوش کر دئیے جاؤ گے۔ تمہیں مزین کردیا جائے گا۔ خوشی اور مسرت کے آثار تمہارے چہروں پر ظاہر و عیاں ہوں گے۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے فاما الذین امنوا وعملوا الصلحت فہم فی روضۃ یحبرون ۔ (30:15) جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ جنت میں اس قدر خوش ہوں گے کہ وہاں کی نعمتوں کی تروتازگی کا اثر ان کے چہروں پر عیاں ہوگا۔ بطور فعل مضارع صرف انہی دو جگہ آیا ہے اور فعل مجہول آیا ہے۔ روشنائی کو بھی حبر کہتے ہیں اسی سے علماء کو بھی احبار کہتے ہیں کہ ان کے نقش لوگوں کے دلوں پر روشنائی کے نقوش کی طرح دیر تک رہتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے اتخذوا احبارھم ورھبانھم اربابا من دون اللّٰہ (9:31) انہوں نے اپنے علماء و مشائخ کو اللہ کے سوا خدا بنا لیا ہے۔ صاحب تفسیر مظہری لکھتے ہیں :۔ تحبرون۔ یعنی اتنی خوشی پاؤ گے کہ اس کا اثر چہروں سے نمودار ہوگا۔ اس مطلب پر تحبرون حبار سے مشتق ہوگا۔ اور حبار کا معنی ہے اثر، نشان یا تحبرون کا معنی ہے تم آراستہ کئے جاؤ گے۔ اس وقت اس کا مادہ حبر ہوگا۔ اور حبر کا معنی ہے زینت، خوبصورتی یا اس کا ترجمہ ہے تمہاری پوری پوری عزت افزائی کی جائے گی۔ آیت میں خطاب عبادی سے ہے۔
Top