Tafseer-e-Madani - Al-Ahzaab : 49
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَیْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا١ۚ فَمَتِّعُوْهُنَّ وَ سَرِّحُوْهُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ایمان والو اِذَا : جب نَكَحْتُمُ : تم نکاح کرو الْمُؤْمِنٰتِ : مومن عورتوں ثُمَّ : پھر طَلَّقْتُمُوْهُنَّ : تم انہیں طلاق دو مِنْ قَبْلِ : پہلے اَنْ : کہ تَمَسُّوْهُنَّ : تم انہیں ہاتھ لگاؤ فَمَا لَكُمْ : تو نہیں تمہارے لیے عَلَيْهِنَّ : ان پر مِنْ عِدَّةٍ : کوئی عدت تَعْتَدُّوْنَهَا ۚ : کہ پوری کراؤ تم اس سے فَمَتِّعُوْهُنَّ : پس تم انہیں کچھ متاع دو وَسَرِّحُوْهُنَّ : اور انہیں رخصت کردو سَرَاحًا : رخصت جَمِيْلًا : اچھی طرح
اے وہ لوگو ! جو ایمان لائے ہو جب تم نکاح کرو مسلمان عورتوں سے پھر تم انھیں طلاق دے دو قبل اس سے کہ تم نے ان کو چھوا ہو تو تمہارے لئے ان پر کوئی عدت نہیں ہے جسے تم شمار کرو پھر (اس صورت میں) تم ان کو کچھ (مال و) متاع دے کر انھیں اچھی طرح سے رخصت کردیا کرو
93 نکاح و طلاق کے بارے میں بعض خاص ہدایات کا ذکر : سو اس ارشاد سے ایمان والوں کیلئے نکاح و طلاق کے بارے میں بعض خصوصی ہدایات ارشاد فرمائی گئی ہیں اور اس بارے جو حکم مومن عورتوں کا ہے یہی حکم کتابیہ عورتوں کا بھی ہے مگر مومنہ کی قید لگا کر گویا اس طرف اشارہ فرما دیا گیا کہ مومن کے لئے اصل اور بہتر یہی ہے کہ وہ ایماندار عورت ہی سے نکاح کرے نہ کہ کتابیہ سے ۔ قولہ المؤمنات تحریض علی نکاحہن ۔ (جامع : ج 2 ص 170) ۔ بہرکیف اس ارشاد ربانی میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ تم لوگوں میں سے جو کوئی نکاح کے بعد اپنی بیوی کو قبل ازمسیس یعنی رخصتی اور ملاقات سے پہلے ہی طلاق دے دے تو اس پر عدت کی کوئی پابندی نہیں۔ سو ایسی صورت میں مطلقہ عورت کو حسب استطاعت کچھ دے دلا کر باعزت طور پر رخصت کردیا جائے اور دینے دلانے کی تفصیل سورة بقرہ کی آیات 236، 237 میں گزر چکی ہے۔ 94 طلاق قبل المسیس کا حکم : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " تم انہیں طلاق دے دو قبل اس کے کہ تم نے انکو چھوا ہو "۔ مراد ہے " صحبت کرنا " اور علمائے کرام فرماتے ہیں کہ خلوت صحیحہ بھی صحبت و مباشرت ہی کے حکم میں ہے۔ لہذا مطلقہ پر ایسی صورت میں عدت نہیں ہوگی۔ لیکن متوفی عنہا زوجہا کو عدت وفات گزارنا پڑے گی۔ بہرکیف طلاق قبل الدخول کی صورت میں عورت پر کوئی عدت نہیں جسکو شمار کرنے کی ضرورت ہو۔ اس کو اختیار ہے جہاں چاہے چلی جائے اور جس سے چاہے نکاح کرلے۔ کسی کو اس سے روکنے کا کوئی حق نہیں۔ سو طلاق قبل المسیس کے بارے میں یہ حکم عقل و فطرت کے عین مطابق بھی ہے اور اس میں لوگوں کے لیے بڑی سہولت اور آسانی بھی ہے۔ اور یہ چیز دین حنیف کی خصوصیات اور اس کی امتیازی صفات میں سے ہے ۔ فالحمد للہ رب العالمین الذی شرفنا بہذا الدین الحنیف المبارک المجید ۔ 95 مطلقہ قبل المسیس کے لیے سراح جمیل کا حکم وارشاد : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ایسی عورتوں کو تم کچھ سامان دے کر اچھی طرح رخصت کردیا کرو۔ اگر مہر مقرر ہے تو اس کا نصف، ورنہ کچھ پوشاک وغیرہ دے کر خوشی اور اکرام کے ساتھ رخصت کردیا کرو ۔ سبحان اللہ !۔ کیا پاکیزہ تعلیم ہے کہ طلاق کے بعد بھی مطلقہ سے حسن سلوک کا معاملہ اپنایا جائے۔ بہرکیف ایسی عورت کو متعہ یعنی کچھ عطیہ وغیرہ دے کر اچھی طرح رخصت کردیا جائے جس میں کسی طرح کا ضرر نہ ہو۔ ان آیات کریمہ میں نکاح اور طلاق سے متعلق جو حکم بیان فرمایا گیا ہے اس کا تعلق عام مسلمانوں سے ہے۔ آگے ان احکام کا ذکر ہے جن کا تعلق حضور ﷺ سے ہے۔ سراح جمیل یعنی اچھے طریقے سے اور با عزت طور پر رخصت کرنے کی اس ہدایت سے متعلق ضروری تفصیل اس سے پہلے سورة بقرہ کی آیت نمبر 236 اور نمبر 237 کی تفسیر کے ضمن میں گزر چکی ہے۔ سو اس ہدایت سے مقصود یہ ہے کہ میاں بیوی کے درمیان اگر ناچاقی اور جدائی کی نوبت آجائے تو یہ حتی الامکان ایسے عمدہ طریقے سے ہو کہ فریقین میں سے کسی کے لیے فضیحت کا باعث نہ بنے ۔ سبحان اللہ ۔ کیسی عمدہ اور پاکیزہ تعلیمات سے اس دین حنیف نے دنیا کو نوازا ہے۔
Top