Tafseer-e-Madani - Yaseen : 82
اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ
اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اَمْرُهٗٓ : اس کا کام اِذَآ : جب اَرَادَ شَيْئًا : وہ ارادہ کرے کسی شے کا اَنْ : کہ يَّقُوْلَ : وہ کہتا ہے لَهٗ : اس کو كُنْ : ہوجا فَيَكُوْنُ : تو وہ ہوجاتی ہے
اس (قادر مطلق) کا معاملہ تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ جب وہ کسی چیز کو (وجود میں لانا) چاہتا ہے تو اسے صرف اتنا کہنا ہوتا ہے کہ ہوجا پس وہ کام ہوچکا ہوتا ہے
84 اللہ تعالیٰ کی شان کن فیکون کا ذکر : سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی شان کن فیکون کی شان ہے۔ یعنی اس کو تخلیق و پیدائش کے لئے کسی تیاری کی یا نقشہ بنانے اور میٹیریل جمع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ بلکہ وہاں تو معاملہ کُنْ فَیَکُوْنُ کا ہے۔ اور وہاں محض ارادئہ واشارہ کی دیر ہوتی ہے۔ ادھر ارادہ ہوا ادھر وہ چیز تیار ہوگئی۔ لہذا تم لوگ اس کی بےپایاں قدرت و حکمت وغیرہ کو اپنی محدود قدرت و قوت پر قیاس نہ کرنا کہ یہی بات دراصل جڑ بنیاد ہے بہت سی خرابیوں اور مفاسد کی ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو حضرت خالق ۔ جل مجدہ ۔ کو مخلوق پر قیاس کرکے اس کے بارے میں وہی تصورات قائم کرنا جو مخلوق کے لائق اور اسی کی شان کے شایان ہوتے ہیں بہت سی گمراہیوں کی جڑ بنیاد ہے۔ اسی لیے قرآن حکیم میں صاف اور صریح طور پر اللہ تعالیٰ کیلئے مثالیں گھڑنے سے منع فرمایا گیا کہ انسان اپنے طور پر جو بھی کوئی مثال پیش کریگا وہ مخلوق ہی کے دائرے میں اور مخلوق ہی کے مناسب حال ہوگی کہ انسان خود مخلوق اور اس کی کھوپڑی بھی محدود و مخلوق ہے۔ مخلوق کے دائرے سے نکلنا اس کیلئے کسی بھی طرح ممکن نہیں۔ اس لیے لوگوں کو حضرت خالق کیلئے ایسی مثالیں پیش کرنے سے صاف اور صریح طور پر منع فرمایا گیا ہے۔ (النحل : 74) ۔ پس اللہ تعالیٰ کو ویسے ہی مانا جائے جیسا کہ وہ اپنے بارے میں خود بتائے یا اس کا رسول بتائے اور بس۔
Top