Tafseer-e-Madani - Az-Zumar : 75
وَ تَرَى الْمَلٰٓئِكَةَ حَآفِّیْنَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ١ۚ وَ قُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَ قِیْلَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۠   ۧ
وَتَرَى : اور آپ دیکھیں گے الْمَلٰٓئِكَةَ : فرشتے حَآفِّيْنَ : حلقہ باندھے مِنْ : سے حَوْلِ الْعَرْشِ : عرش کے گرد يُسَبِّحُوْنَ : پاکیزگی بیان کرتے ہوئے بِحَمْدِ : تعریف کے ساتھ رَبِّهِمْ ۚ : اپنا رب وَقُضِيَ : اور فیصلہ کردیا جائے گا بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَقِيْلَ : اور کہا جائے گا الْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے رَبِّ : پروردگار الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان (جمع)
اور فرشتوں کو تم وہاں دیکھو گے اس حال میں کہ وہ گھیرا ڈالے ہوں گے عرش کے گرد تسبیح کرتے ہوئے اپنے رب کی حمد (و ثنا) کے ساتھ اور فیصلہ کردیا جائے گا تمام لوگوں کے درمیان بالکل حق (و انصاف) کے ساتھ اور صدا بلند ہوگی کہ سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو کہ پروردگار ہے سب جہانوں کا1
141 جنت سے سرفرازی کا اصل ذریعہ و وسیلہ اپنا عمل : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ جنت سے سرفرازی کا اصل ذریعہ ذریعہ و وسیلہ اپنا عمل ہے نہ کہ دوسرے خود ساختہ مفروضے۔ جس طرح کہ بہت سے زائغین نے سمجھ رکھا ہے۔ سو اہل جنت اپنی سرفرازی کے سلسلے میں مزید کہیں گے کہ " کیا ہی عمدہ بدلہ ہے عمل کرنے والوں کا "۔ یعنی جنت تو بیشک اللہ پاک کا کرم و احسان اور محض اس کا فضل و انعام ہے مگر یہ کرم واحسان ہمیں نصیب اپنے انہی اعمال صالحہ کی بنا پر ہوا ہے جو دنیا میں ہم اس مالک الملک کی توفیق و عنایت سے بجا لاتے رہے۔ سو عمل کرنے والوں کی شان بہت بڑی اور ان کا مقام بہت بلند ہے۔ پس عاملین کے اس لفظ سے واضح فرما دیا گیا کہ جنت کے حصول اور اس کی نعمتوں سے سرفرازی کیلئے اصل چیز جو مطلوب ہے وہ ہے عمل۔ صدق و اخلاص والا عمل نہ کہ محض تمنائیں اور آرزوئیں۔ پس جو لوگ عمل اور اس کی اہمیت سے غافل و لاپروا ہو کر محض فرضی سفارشوں کے بل بوتے پر جنت کے خواب دیکھ رہے ہیں وہ احمقوں کی جنت میں بس رہے ہیں۔ پس جنہوں نے شفاعت و سفارش کے مشرکانہ تصور پر تکیہ کر رکھا ہے اور خود ساختہ سرکاروں اور ہستیوں پر آسرا کر رکھا ہے یا وہ کسی خاندانی انتساب وغیرہ پر مست و مگن ہیں کہ ہم صاحبزادے و سید زادے یا فلاں ہستی کے نام لیواؤں اور اس کے منتسبین میں سے ہیں۔ ہمین یہی انتساب کافی ہے۔ کسی عمل وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں وغیرہ۔ تو یہ لوگ سخت گمراہی میں ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ اللہ تعالیٰ زیغ وضلال کی ہر قسم اور اس کی ہر شکل سے محفوظ اور اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 142 فرشتوں کی تسبیح وتحمید کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " فرشتوں کو تم وہاں دیکھو گے کہ وہ عرش کے گرد گھیرا ڈالے اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر رہے ہوں گے "۔ اس کی تنزیہہ و تقدیس کے لئے اس کے شکر کے طور پر۔ فَسُبْحَان اللّٰہِ وَبِحْمَدِہ وسَبْحَان اللّٰہِ الْعَظِیْمِ ۔ کہ جو ہوا اس کے کرم و احسان سے ہوا۔ اور جو ہوگا وہ بھی اسی کے فضل و کرم سے ہوگا۔ ورنہ ہم کیا ہیں جو ہم سے کچھ ہوگا۔ بہرکیف فرشتوں کی اس تسبیح وتحمید کے ذکر سے واضح فرما دیا گیا کہ عدالت خداوندی کے اس یوم عظیم میں فرشتوں کی شان عبدیت کا عالم یہ ہوگا۔ سو کس قدر احمق ہیں وہ مشرک لوگ جو ان کی سفارش پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں۔ بہرکیف اس ارشاد سے فرشتوں کی شان عبدیت اور ان کی اصل حیثیت کو واضح فرما دیا گیا ہے کہ وہ بھی اس یوم عظیم کے خوف و ہراس کی بنا پر اس روز اپنے رب کے عرش کے پاس سمٹے ہوئے اس کی حمد وثنا اور تسبیح و تقدیس میں مشغول ہوں گے۔ اور جب عرش الہی کے حاملین کی حیثیت رکھنے والے فرشتوں کا حال بھی یہ ہوگا تو پھر ان دوسرے فرشتوں کا کیا حال ہوگا جو کہ اس طرح کی امتیازی شان نہیں رکھتے ہوں گے۔ سو اس روز بڑے سے بڑے فرشتوں کو بھی اپنی ہی پڑی ہوگی۔ 143 قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ہی کی حمد و ثنا کی غلغلے : سو عدل و انصاف اور رحمت و عنایت خداوندی کے کامل ظہور پر اس روز ہر گوشے سے یہی صدا بلند ہوگی کہ " سب تعریف اللہ ہی کیلئے ہے جو پروردگار ہے سب جہانوں کا "۔ پس اس مقام کی عظمت و تقدیس کا تقاضا یہ ہوگا کہ مومن و کافر سب ہی اس روز اس کی حمد و ثنا پکار اٹھیں گے۔ کافر تو مجبوراً اور مومن اس کی ان بےپایاں نعمتوں کی بنا پر خوشی و مسرت کے ساتھ جن سے انکو سرفراز فرمایا گیا ہوگا۔ اور بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ قیل کے قائل فرشتے ہیں یا اہل ایمان۔ (جامع البیان وغیرہ) ۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ہر مجلس کے خاتمے پر ۔ { الحمد للہ رب العالمین } ۔ کہنا چاہیئے ۔ فالحمد للّٰہِ رَبِّ العٰلمین ۔ سُبحانک اللّٰہُمَّ وبحمدک اَشْہَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ اسْغَفِرُکَ وَاَتُوْبُ الیْکَ ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ اس کامل عدل و انصاف اور رحمت و عنایت خداوندی کے ظہور کے بعد ہر گوشہ سے حمد و شکر خداوندی کی صدا بلند ہوگی۔ سو اس روز حمد و ثنا اسی وحدہ لا شریک کی ہوگی جو کہ اس کا اصل اہل اور مستحق ہے کہ ہر نقص و عیب سے پاک اور ہر خوبی و کمال کا مالک وہی وحدہ لا شریک ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ -
Top