Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 43
هُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْكُمْ وَ مَلٰٓئِكَتُهٗ لِیُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ١ؕ وَ كَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا
هُوَ الَّذِيْ : وہی جو يُصَلِّيْ : رحمت بھیجتا ہے عَلَيْكُمْ : تم پر وَمَلٰٓئِكَتُهٗ : اور اس کے فرشتے لِيُخْرِجَكُمْ : تاکہ وہ تمہیں نکالے مِّنَ : سے الظُّلُمٰتِ : اندھیروں اِلَى النُّوْرِ ۭ : نور کی طرف وَكَانَ : اور ہے بِالْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں پر رَحِيْمًا : مہربان
وہی ہے جو تم پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تاکہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے آئے۔ اور وہ ایمان والوں پر رحم فرمانے والا ہے۔
مسموع نہیں بجز اس کے کہ عقل و حواس ہی نہ رہیں اور بےہوش ہوجائے۔ تیسری آیت میں یہ فرمایا (ھُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ وَمَلٰٓءِکَتُہٗ ) کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے (تمہارے لیے استغفار کرتے ہیں) اس میں جو لفظ یُصَلِّیْ وارد ہوا ہے اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف بھی ہے اور فرشتوں کی طرف بھی حضرات اکابر علماء نے فرمایا ہے کہ صلوٰۃ کی نسبت جو اللہ تعالیٰ کی طرف ہے اس سے رحمت مراد ہے، یعنی اے مومنو ! اللہ تم پر رحمت بھیجتا ہے۔ اور فرشتوں کی طرف جو صلوٰۃ کی نسبت ہے اس سے استغفار مراد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے فرشتے تمہارے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں (کما فی سورة المومن) (وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا) مزید فرمایا (لِیُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ) کہ تم پر اللہ کی رحمت ہونا اور تمہارے لیے فرشتوں کا استغفار کرنا اس لیے ہے کہ اللہ تمہیں اندھیروں سے روشنیوں کی طرف نکالے یعنی جہالت اور گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر ہدایت اور یقین کے نور سے منور فرمائے۔ (وَکَان بالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا) (اور اللہ مومنین پر رحم فرمانے والا ہے) یعنی وہ اہل ایمان پر دنیا میں بھی رحم فرماتا ہے اور آخرت میں بھی رحم فرمائے گا، دنیا میں ایمان کی دولت سے نوازا، کفر سے اور شرک سے اور بدعت سے بچایا، کھانے پینے اور پہننے اور برتنے کے لیے پاکیزہ چیزیں عطا فرمائیں اور آخرت میں انہیں امن و چین، اطمینان اور نجات عطا فرمائے گا اور جنت میں داخل فرمائے گا اور فرشتے بشارت دیتے ہوئے ان سے ملاقات کریں گے۔
Top