Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 44
تَحِیَّتُهُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَهٗ سَلٰمٌ١ۚۖ وَ اَعَدَّ لَهُمْ اَجْرًا كَرِیْمًا
تَحِيَّتُهُمْ : ان کی دعا يَوْمَ : جس دن يَلْقَوْنَهٗ : وہ ملیں گے اس کو سَلٰمٌ ڻ : سلام وَاَعَدَّ : اور تیار کیا اس نے لَهُمْ : ان کے لیے اَجْرًا : اجر كَرِيْمًا : بڑا اچھا
جس دن یہ لوگ اس سے ملاقات کریں گے ان کا تحیہ سلام ہوگا اور اس نے ان کے لیے اجر کریم تیار فرمایا ہے۔
چوتھی آیت میں فرمایا (تَحِیَّتُھُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَہٗ سَلٰمٌ) (جس دن اللہ سے ملاقات کریں گے ان کا تحیہ سلام ہوگا) یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر سلام بھیجا جائے گا۔ کما قال فی یٰسین (سَلٰمٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ ) اور فرشتے بھی ان پر داخل ہوں گے اور ان پر سلام پیش کریں گے۔ کما فی سورة الرعد (وَالْمَلآءِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْھِمْ مِّنْ کُلِّ بَابٍ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ ) اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے روح قبض ہونے کے وقت کا تحیہ مراد ہے کیونکہ جب فرشتہ مومن بندہ کی روح قبض کرنے کے لیے آتا ہے تو (سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ ) کہہ کر خطاب کرتا ہے۔ (ذکر فی الروح عن ابن مسعود ؓ (وَاَعَدَّلَھُمْ اَجْرًا کَرِیْمًا) (اور اللہ نے ان کے لیے اجر کریم تیار فرمایا ہے) یعنی ان کے لیے عزت والا ثواب تیار فرمایا ہے۔ مفسر ابن کثیر ؓ فرماتے ہیں کہ اجر کریم سے جنت اور وہاں کی نعمتیں اور ہر طرح کی لذتیں مراد ہیں۔ اول تو جنت کا داخلہ ہی بڑا اعزازو اکرام ہے پھر اس میں جو کچھ پیش کیا جائے گا وہ بھی اعزاز کے ساتھ پیش ہوگا وہاں ہمیشہ مکرم اور معزز ہی رہیں گے۔
Top