Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 53
اَمْ لَهُمْ نَصِیْبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَاِذًا لَّا یُؤْتُوْنَ النَّاسَ نَقِیْرًاۙ
اَمْ : کیا لَھُمْ : ان کا نَصِيْبٌ : کوئی حصہ مِّنَ : سے الْمُلْكِ : سلطنت فَاِذًا : پھر اس وقت لَّا يُؤْتُوْنَ : نہ دیں النَّاسَ : لوگ نَقِيْرًا : تل برابر
کیا ان کے لئے کوئی حصہ ہے (اللہ کی) بادشاہی میں سے ؟ کہ ایسی صورت میں یہ لوگوں کو (اس میں سے) تل بھر میں کچھ نہ دینگے ؟
128 یہود کے ضرب المثل بخل کا تقاضا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ کیا ان کے لیے کوئی حصہ ہے بادشاہی میں سے ؟ اگر ایسا ہوتا تو یہ لوگ اس میں سے لوگوں کو تل بھر بھی کچھ نہ دیتے۔ جیسا کہ ان کے ضرب المثل بخل کا تقاضا تھا اور ہے۔ مگر اللہ پاک کا یہ کرم ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو ان کی ضروریات میں دوسروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا، بلکہ ضروریات کی ایسی تمام چیزوں کو اس وحدہ لاشریک نے اپنے ہی قبضہ قدرت و اختیار میں رکھا ہے، ورنہ مخلوق میں سے اگر کسی کو اس پر اختیار مل جاتا اور خاص کر یہودیوں جیسی کسی حاسدانہ اور بخیلانہ ذہنیت رکھنے والے شخص کو تو وہ دنیا کو ترسا ترسا کر مار دیتا ۔ فللہ الحمد رب العالمین ۔ سو جب ان کا خدا وند قدوس کی اس حکومت و بادشاہی میں کوئی حصہ نہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی عطا و بخشش پر اس طرح جلتے کیوں ہیں ؟ اور اس طرح کے اعتراضات کیوں کرتے ہیں ؟ انکو اس کا کیا حق ہوسکتا ہے ؟
Top