Tafseer-e-Madani - Al-Ghaafir : 77
فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ١ۚ فَاِمَّا نُرِیَنَّكَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّكَ فَاِلَیْنَا یُرْجَعُوْنَ
فَاصْبِرْ : پس آپ صبر کریں اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ : بیشک اللہ کا وعدہ حَقٌّ ۚ : سچا فَاِمَّا : پس اگر نُرِيَنَّكَ : ہم آپ کو دکھادیں بَعْضَ : بعض (کچھ حصہ) الَّذِيْ : وہ جو نَعِدُهُمْ : ہم ان سے وعدہ کرتے تھے اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ : یا ہم آپ کو وفات دیدیں فَاِلَيْنَا : پس ہماری طرف يُرْجَعُوْنَ : وہ لوٹائے جائیں گے
پس آپ صبر ہی سے کام لیتے رہیں یقینا اللہ کا وعدہ سچا ہے پھر اگر ہم دکھا دیں آپ کو (اے پیغمبر ! ) کچھ حصہ اس عذاب کا جس سے ہم ان لوگوں کو ڈرا رہے ہیں یا آپ کو اس سے پہلے ہی دنیا سے اٹھا لیں تو (اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ) ان سب نے تو بہرحال ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے
142 صبر وسیلہ ظفر۔ وباللہ التوفیق : سو پیغمبر کو خطاب کر کے صبر و ثبات کی تعلیم و تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا " پس آپ ﷺ صبر ہی سے کام لیتے رہیں "۔ ان تکلیفوں اور ایذا رسانیوں پر جو آپ ﷺ کو ان ناہنجاروں کی طرف سے پہنچ رہی ہیں کہ اس سے آپ ﷺ کے اجر وثواب اور مرتبہ و مقام میں اضافہ ہی ہوتا جائے گا اور یہ لوگ اپنے کیفر کردار کو خود پہنچ کر رہیں گے۔ اگر یہ باز نہ آئے اپنے کفر و انکار سے کہ کفر و انکار اور حق سے اعراض و روگردانی کا نتیجہ و انجام بہرحال دائمی عذاب ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اس میں پیغمبر کے لیے تسلی ہے کہ آپ ان لوگوں کی حرکتوں پر صبر ہی سے کام لیں۔ یہ لوگ وقت آنے پر اپنے انجام کو بہرحال پہنچ کر رہیں گے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر گامزن رکھے ۔ آمین۔ 143 اللہ کا وعدہ بہرحال ہو کر رہنے والا ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " یقینا اللہ کا وعدہ قطعی طور پر سچا ہے "۔ جو اس نے آپ ﷺ کی حفاظت اور آپ ﷺ کے پیش فرمودہ دین حق کی سربلندی کے لئے آپ ﷺ سے فرما رکھا ہے۔ یہ بدبخت اپنی شر انگزیوں سے نہ آپ کا کچھ بگاڑ سکیں گے اور نہ اس دین حق کی راہ کو روک سکیں گے۔ پس آپ ﷺ اللہ کے وعدے کے اعتماد اور بھروسے پر ہمیشہ اور ہر حال میں راہ حق پر ثابت قدم رہیں کہ آپ ﷺ کیلئے آئندہ آنے والی ہر حالت بہتر ہے۔ (الاضحی : 4) اور آپ ﷺ بہرحال حق و ہدایت کی سیدھی راہ پر ہیں۔ (الذخرف :3) اور انجام کار کامیابی بہرحال حق اور تقویٰ ہی کی ہے۔ (طہٓ: 132) ۔ سو ایمان وتقویٰ کیلئے ناکامی ہے ہی نہیں بلکہ ہر حالت میں خیر ہی خیر ہے۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں فرمایا گیا کہ مومن کی ہر حالت خیر ہی خیر ہے۔ اور یہ شان مومن کے سوا اور کسی کو بھی نصیب نہیں۔ سو ایمان و یقین کی دولت دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ ہے اور اس سے محرومی ہر خیر سے محرومی اور نہایت ہی ہولناک خسارے کا باعث ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ 144 سب کا رجوع اللہ ہی کی طرف : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " ان سب نے لوٹ کر بہرحال ہمارے ہی پاس آنا ہے "۔ اور اس طرح انہوں نے اپنے کئے کرائے کا بدلہ بہرحال پا کر رہنا ہے خواہ سب کا سب آخرت میں ہو یا اس کا کچھ حصہ اس دنیا میں بھی ہم ان کو چکھا دیں۔ بچنا انہوں نے بہرحال نہیں۔ پس کچھ عرصہ کے لئے یہ جو آزادی اور اطمینان سے چلتے پھرتے ہیں تو یہ نہ تو ان کے لئے دھوکے کا باعث ہونا چاہیئے اور نہ آپ ﷺ کے لئے تعجب و افسوس کا سبب۔ (المومن : 4) ۔ انہوں نے اپنے انجام کو بہرحال پہنچ کر رہنا ہے اگر یہ باز نہ آئے اپنے کفر و انکار سے۔ واضح رہے کہ حضرات انبیاء و رسل نے اپنی قوموں کو دو قسم کے عذابوں سے ڈرایا اور خبردار کیا ہے۔ ایک وہ عذاب جو ان پر انکار اور تکذیبِ حق کی پاداش میں اسی دنیا میں آتا ہے۔ اور دوسرا وہ عذاب جس سے ان کو آخرت کے اس حقیقی جہاں میں سابقہ پیش آئے گا جو کہ جزا و سزا اور بدلے کا دن ہے۔ یہاں پر۔ { بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُہُمْ } ۔ سے اسی دنیاوی عذاب کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ یہ عذاب اپنی اصل اور حقیقت کے اعتبار سے اسی عذاب آخرت کا ایک حصہ ہے جس سے کفار و منکرین کو آخرت کے اس جہاں میں بہرحال سابقہ پیش آئے گا۔ آنحضرت ۔ ﷺ ۔ کی امت کی اکثریت چونکہ آپ پر ایمان لے آئی تھی اس لیے وہ اس طرح کے کسی دنیاوی عذاب سے محفوظ رہی تھی۔ البتہ اس امت کے اشرار کو آخرت کا وہ عذاب بہرحال بھگتنا ہے جو کفار و مشرکین کے لیے طے و مقدر ہے۔ سو ۔ { فَاِلَیْنَا یُرْجَعُوْنَ } ۔ سے اسی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی عذاب سے ہمیشہ اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔
Top