Tafseer-e-Madani - Az-Zukhruf : 3
اِنَّا جَعَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَۚ
اِنَّا : بیشک ہم نے جَعَلْنٰهُ : بنایا ہم نے اس کو قُرْءٰنًا : قرآن عَرَبِيًّا : عربی لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ : تاکہ تم ، تم سمجھ سکو
ہم ہی نے اس کو بنایا ہے قرآن عربی زبان کا تاکہ تم لوگ سمجھو
2 قرآن حکیم کا عربی زبان میں اتارا جانا عربوں پر ایک مستقل احسان : سو ارشاد فرمایا گیا " اور ہم نے اس کو عربی زبان کا ایک عظیم الشان قرآن بنایا ہے "۔ تاکہ تم لوگ ۔ اے عرب۔ جو کہ اس کے اولین مخاطب ہو اور تمہیں اپنی زبان وبیان پر بھی دنیا ساری کے مقابلے میں ایک غرہ اور ناز تھا اور ہے، تم اس کتاب حکیم کو سمجھ سکو۔ اور پھر اس کے پیغام حق و ہدایت کو تم سارے عالم میں پہنچا سکو۔ اور یوں بھی عربی زبان کے علاوہ دوسری کوئی زبان ایسی تھی ہی نہیں اور ہے ہی نہیں جو قرآنی علوم و معارف کو اپنے دامن میں سمیٹ سکے کہ جن نزاکتوں اور باریکیوں پر یہ زبان حاوی و مشتمل ہے اور جو گہرائی، گیرائی اور وسعت و جامعیت اس زبان میں پائی جاتی ہے وہ دنیا کی دوسری کسی بھی زبان میں نہ تھی نہ ہے اور نہ ہوسکتی ہے۔ اس لئے قرآن حکیم کو اسی زبان یعنی عربی مبین میں نازل فرمایا گیا۔ سو قرآن حکیم کا عربی زبان میں اتارا جانا قدرت کی طرف سے عربوں پر ایک عظیم الشان احسان تھا اور ہے کہ خداوند قدوس نے اپنی آخری اور کامل کتاب کو ان کی زبان میں اتارا تاکہ یہ لوگ بلاواسطہ غیر اس سے فیض حاصل کرسکیں۔ انکو دوسروں کی تعلیم و تلقین کا رہین منت واحسان نہ ہونا پڑے بلکہ دوسرے انکے ممنون احسان بنیں۔ نیز اس کتاب حکیم کے عربی زبان کے قرآن کی شکل میں اتارنے میں عربوں پر اتمام حجت بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہی کی زبان میں اس کتاب حکیم کو اتار کر انکے ہر عذر کو ختم کردیا ہے۔ سو اب یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے یہاں اس طرح کا کوئی عذر نہیں کرسکتے کہ مخاطب عربی اور کلام عجمی وغیرہ۔
Top