Tafseer-e-Madani - Adh-Dhaariyat : 2
فَالْحٰمِلٰتِ وِقْرًاۙ
فَالْحٰمِلٰتِ : پھر اٹھانے والی وِقْرًا : بوجھ
پھر ان بادلوں کو جو اٹھاتے ہیں ایک (بھاری بھر کم) بوجھ کو
[ 2] پانی کا بوجھ اٹھانے والے بادلوں کی قسم کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ پھر قسم ہے ان بادلوں کی جو اٹھاتے ہیں بھاری بھرکم بوجھ۔ " وقر حمل " کی طرح ہے وزن کے اعتبار سے بھی اور معنی کے اعتبار سے بھی، اور یہ تینوں کلمات [ ذروا، قورایسرا ] ترکیب میں یہاں پر مفعول واقع ہو رہے ہیں، جب کہ امراً مفعول یہ ہے [ جامع البیان وغیرہ ] وقر کا لفظ اگرچہ عام ہے اور ہر طرح کے بوجھ کو شامل ہے، لیکن عام اور دوسرے نظائر کی بنا پر اس سے مراد بارش اور پانی کا وہ بوجھ ہے جو بادلوں کے دوش پر رواں دواں ہوتا ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا { وھوالذی یرسل الریح بشراً م بین یدی رحمتہٖ ط حتی اذا اقلت سحاباً ثقالاً سقنہ لبلدٍ میتٍ فانزلنا بہ المآء فاخرجنا بہٖ من کل الثمرٰت ط کذلک تخرج الموتی لعلکم تذکرون } [ سورة الاعراف : 57 پ 8] سو اگر اس میں ذرہ غور و غوض سے کام لیا جائے، تو اس سے حضرت خالق جل و مجدہ کی قدرت و حکمت کا ایک عظیم الشان مظہر اور نمونہ سامنے آتا ہے کہ کس طرح سمندروں سے لاکھوں کروڑوں گیلن پانی بخارات کی شکل میں اٹھتا ہے، اور وہ بادلوں کی شکل میں فضاؤں میں اڑتا ہوا ہزاروں میل دور جاکر برستا ہے اور ایک دنیا جہاں کو سیراب کرتا ہے۔ سو یہ حکمتوں بھر نظام اپنی زبان حال سے پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ نہ یہ کارخانہ ہست و بود بیکار و بےمقصد ہوسکتا ہے، اور نہ اس کائنات کا مخدوم ومطاع یہ انسان جو ان گوناگوں نعمتوں سے دن رات مستفید و فیض یاب ہو رہا ہے، اور طرح طرح سے ہو رہا ہے، پس عقل و نقل دونوں کا تقاضا ہے کہ ایک ایسا یوم حساب آئے جس میں ان نعمتوں کے بارے میں پوچھ گچھ ہو کہ انسان نے ان کا کیا حق ادا کیا، اور اس کے مطابق ہر کسی کو اس کے زندگی پھر کے کئے کرائے کا صلہ و بدلہ ملے، خیر کا خیر اور شرکا شر اس طرح عدول و انصاف کے تقاضے پورے ہوں اور بدرجہء تمام و کمال پورے ہوں پس حکمتوں بھری یہ کائنات اور اس کی ایک ایک چیز اپنی زبان حال سے پکار پکار کہہ رہی ہے کہ نہ یہ کارخانہء قدرت عبث و بیکار ہوسکتا ہے، اور نہ اس کا مخدوم ومطاع یہ انسان۔ پس لازماً ایک دن ایسا آئے گا جب اس سے اس کے زندگی بھر کے کیے کرائے کا حساب ہوگا، اور اس یوم عظیم نے اپنے وقت پر بہرحال آکر اور واقع ہو کر رہنا ہے، پس عقل و نقل دونوں کا تقاضا ہے کہ اس یوم حساب کو اور اس کے تقاضوں کو ہمیشہ اپنے سامنے نظر رکھا جائے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، بکل حال من الاحوال، وھو الھادی الی سواء السبیل،
Top