Tafseer-e-Madani - At-Tur : 48
وَ اصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَاِنَّكَ بِاَعْیُنِنَا وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِیْنَ تَقُوْمُۙ
وَاصْبِرْ : اور صبر کیجیے لِحُكْمِ رَبِّكَ : اپنے رب کے فیصلے کے لیے فَاِنَّكَ بِاَعْيُنِنَا : پس بیشک آپ ہماری نگاہوں میں ہیں وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ : اور تسبیح کیجیئے اپنے رب کی حمد کے ساتھ حِيْنَ : جس وقت تَقُوْمُ : آپ کھڑے ہوتے ہیں
اور آپ صبر (و برداشت) ہی سے کام لیتے رہیں اپنے رب کے حکم (و فیصلہ) تک کہ یقینا آپ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں اور تسبیح کرتے رہیں اپنے رب کی حمد کے ساتھ جب آپ اٹھیں
[ 62] صبر و سیلہئِ نظر۔ وباللّٰہ التوفیق : سو ارشاد فرمایا گیا اور پیغمبر کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا گیا کہ آپ ﷺ صبر ہی سے کام لیتے رہیں۔ جیسا کہ اس سے پہلے لیتے رہے ہیں، کہ راہ حق بہرحال وہی ہے جس پر آپ گامزن ہیں۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا اور تاکید مزید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا۔ { انک لمن المرسلین۔ علیٰ صراطٍ مستقیم } [ یٰسین : 3-4] یعنی " آپ یقینی طور پر رسولوں میں سے ہیں اور سیدھی راہ پر ہیں " نیز ایک اور مقام پر اسی تاکید در تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا۔ { انک لعلی الحق المبین } یعنی یقینی طور پر آپ کھلے اور واضح حق پر ہیں۔ اور حق میں صبر و استقامت ذریعہء ِ فوز و فلاح اور وسیلہئِ ظفر و نجاح ہے۔ لہٰذا آپ ان منکرین و مکذبین کی ایذاء رسانیوں کی پرواہ کیے بغیر اپنے فرائض رسالت کی ادائیگی میں لگے رہیں واضح رہے کہ صبر کے بعد جب لام کا صلہ آجاتا ہے جیسا کہ یہاں پر ہے [ لحکم ربک ] تو یہ اس بات کا قرینہ ہوتا ہے کہ یہاں پر لفظ صبر انتظار کے معنی کو متضمن ہے۔ سو اب اس ارشاد کا معنی یہ ہوگا کہ آپ اپنے رب کے حکم و ارشاد کے انتظار میں ان لوگوں کے بارے میں صبر ہی سے کام لینا کے بارے میں جلد بازی سے کام نہیں لینا، سو راہ حق میں صبر و استقامت ایک اہم مطلب، اور اولوالعزم رسولوں کا شیوہ و طریقہ ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ { فاصبر کما صبر اولوا العزم من الرسل ولا تستعجل لہم ط کانھم یوم یرون مایوعدون لا لم یلبثوآ الا ساعۃ من نھار ط بلغ ج فہل یہلک الا القوم الفسقون } [ الاحقاف : 35 پ 26] یعنی جب حقیقت امر یہ ہے تو آپ صبر ہی سے کام لیتے رہیں جیسا کہ دوسرے اولعزم رسولوں نے کام لیا، اور ان لوگوں کے بارے میں جلد بازی سے کام نہیں لینا۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، بکل حال من الاحوال، وھو العزیز الوھاب، [ 63] پیغمبر ( علیہ السلام) براہ راست اللہ تعالیٰ کی حفاظت و نگہبانی میں : سو ارشاد فرمایا گیا اور حرف تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ آپ ﷺ یقینا ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ اور جب ایسا ہے اور ہماری حفاظت و نگرانی آپ کو حاصل ہے، تو پھر آپ کو کسی کی پرواہ ہی کیا ہوسکتی ہے ؟ پس ان لوگوں کے داؤ پیچ آپ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں گے۔ سبحان اللّٰہ !۔ کیسی عظیم اور کس قدر منفرد و بےمثال شان ہے ہمارے پیغمبر کی کہ حضرت حق جل مجدہ کی طرف سے آپ ﷺ کو اس صدائے دلنواز سے نوازا جا رہا ہے، اور آپ ﷺ کو ایسے تاکیدی الفاظ کے ساتھ اس بڑی اور اتنی عظیم الشان بشارت و خوشخبری سے نوازا جا رہا ہے کہ آپ ﷺ ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں اور ہماری نگرانی میں ہیں، سو ایسے میں آپ ﷺ کسی اور کو کیا پرواہ ہوسکتی ہے ؟ صلوات اللّٰہ وسلامہٗ علیہ وعلی الہٖ وصحبہ اجمعین، [ 64] حصول صبر کی تدبیر، تسبیح و تہمید رب : سو ارشاد فرمایا گیا اور حصول صبر کی تدبیر کی تعلیم کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ آپ تسبیح کرتے رہیں اپنے رب کی حمد کے ساتھ جب آپ ﷺ اٹھیں۔ عام ہے کہ آپ ﷺ جب بھی اور جس حال سے بھی اٹھیں۔ مجلس سے، یا نیند سے، اور نماز کے لئے، یا جہاد کے لئے، یا کسی بھی غرض کے لئے، کہ لفظ کا عموم ان سب ہی احوال کو شامل ہے۔ اور مجاہد وغیرہ کا یہی کہنا ہے۔ اور ترمذی (رح) وغیرہ کی روایت کے مطابق آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو بھی کوئی شخص مجلس سے اٹھتے وقت یہ دعا پڑھ لیا کرے۔ اس کی اس مجلس کی سب خطائیں معاف ہوجائیں گے اور دوسری روایت کے مطابق اگر وہ مجلس نیکی والی ہوگی تو اس دعا کی برکت سے اس نیکی پر مہرگ جائے گی جس پر وہ نیکی ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو جائیگی، دعا یہ ہے۔ سبحانک اللّٰہم وبحمدک اشھد ان لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک، اور مسند امام احمد (رح) میں حضرت عبادۃ بن الصامت ؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو کوئی رات کو بیدار ہونے پر یہ دعا پڑھے لا الہ الا اللّٰہ وحدہٗ لاشریک لہٗ ، لہٗ الملک ولہٗ الحمد یحی ویمیت وھو علی کل شی قدیر، اور کہے رب اغفرلی یا کوئی اور دعاء مانگے تو وہ قبول ہوگی، پھر اگر وضو کرکے نماز پڑھے تو وہ قبول ہوگی اور اس کی بخاری اور دوسرے اصحاب سنن نے بھی روایت کیا ہے، [ بخاری کتاب التہجد ] [ ابن کثیر، ابن جریر، قرطبی، مراغی، محاسن وغیرہ ] بہرکیف اس سے حصول صبر کی تدبیر کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے اور وہ ہے اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرنا " فسبحان اللّٰہِ وبحمدہٖ و سبحان اللّٰہِ العظیم " عدد خلقہٖ ، ورضا نفسہٖ ، وزنۃ عرشہٖ ومداد کلماتہٖ ، ما تبقیٰ ھذہ الاسطرو الکلمات۔ سبحانہ وتعالیٰ جل شانہ۔
Top