Tafseer-e-Madani - Al-Hadid : 16
اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ١ۙ وَ لَا یَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ
اَلَمْ يَاْنِ : کیا نہیں وقت آیا لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے اٰمَنُوْٓا : جو ایمان لائے ہیں اَنْ تَخْشَعَ : کہ جھک جائیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل لِذِكْرِ اللّٰهِ : اللہ کے ذکر کے لیے وَمَا نَزَلَ : اور جو کچھ اترا مِنَ الْحَقِّ ۙ : حق میں سے وَلَا يَكُوْنُوْا : اور نہ وہ ہوں كَالَّذِيْنَ : ان لوگوں کی طرح اُوْتُوا الْكِتٰبَ : جو دیئے گئے کتاب مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل فَطَالَ : تو لمبی ہوگئی عَلَيْهِمُ الْاَمَدُ : ان پر مدت فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ ۭ : تو سخت ہوگئے ان کے دل وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ : اور بہت سے ان میں سے فٰسِقُوْنَ : نافرمان ہیں
کیا وقت نہیں آیا ان لوگوں کے لئے جو (زبانی کلامی) ایمان لائے اس بات کا کہ جھک جائیں ان کے دل اللہ کے ذکر کے آگے ؟ اور اس حق (کی عظمت) کے سامنے جو نازل ہوچکا (ان کی ہدایت و راہنمائی کے لئے اللہ کی طرف سے ؟ ) اور یہ کہ وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی پھر ان پر ایک لمبی مدت گزر گئی تو سخت ہوگئے ان کے دل اور ان میں زیادہ تر لوگ فاسق ہیں۔
[ 59] ایمان کے تقاضوں کی تذکیر و یاددہانی : سو اس ارزاد سے ایمان کے تقاضوں کی تذکیر و یاد دہانی اور ایمان کے دعویداروں سے ایمان کے تقاضے پورے کرنے کے لیے تحریک وتحریض فرمائی گئی ہے " یان "، " انا " سے مشتق ہے جس کے معنی وقت کے آتے ہیں باب اس کا ضرب آتا ہے۔ انیٰ یانی واناء وانائً اذا جاء اناہ ۔ یعنی اس کا وقت آگیا۔ [ قرطبی، مراغی، صفوۃ اور محاسن وغیرہ ] سو اس میں ان لوگوں کے قلوب و ضمائر کو جھنجھوڑا جا رہا ہے جو زبانی کلامی ایمان کے دعوے کرتے ہیں کہ اب تم اپنے ایمان کے تقاضے پورے کرو، کہ اسکا وقت آگیا ہے، یہاں پر قرآن حکیم کی صفت و شان یعنی ذکر اللہ سے مراد اس کی وہ تنبیہات ہیں جو ان مخاطرہ مہالک سے آگاہ کرنے کیلئے نازل فرمائی گئی ہیں، جن سے ان لوگوں کو دنیا و آخرت دونوں میں لازماً دو چار ہونا پڑے گا، جو حق سے اعراض و روگردانی کیلئے بہانے ڈھونڈتے ہیں، اور حق سے وہ اصول اور کلیات مراد ہیں جن کو قرآن نے ازسر نو باطل سے الگ کر کے اجاگر کیا ہے، والحمدللّٰہ جل وعلا۔ بہرکیف [ الم یان ] کا استفہام تقریر و تحضیض کیلئے ہے یعنی ان کے دلوں کو حق اور اس کے تقاضوں کے آگے جھک جانا چاہیے کہ یہی حق کا تقاضا ہے اور اسی میں خود ان کا بھلا ہے، دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی میں بھی، اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہان میں بھی جو کہ اس دنیا کے بعد آنے والا ہے اور جو ابدی اور دائمی ہے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، [ 60] دلوں کا حق کے آگے جھک جانا تقاضائے عقل و نقل : سو ارشاد فرمایا گیا کہ کیا وقت نہیں آیا کہ جھک جائیں ان کے دل اللہ کے ذکر کے آگے۔ تاکہ اس کی یاد دلشاد اور اس کے نام پاک کی عظمت و خشیت سے ان کے دلوں کی دنیا معمور و آباد ہو سکے، کہ دلوں کی زندگی اسی کی یاد دلشاد سے ہے، سبحانہ وتعالیٰ ، ذکر اللہ سے یہاں پر مراد، قرؤن حکیم ہے جو کہ اللہ پاک کے ذکر اور اس کی یاددلشاد کا سب سے بڑا اور سب سے عمدہ اور موثر ذریعہ ہے، پس ایمان والوں کو چاہیے کہ ان کے دل اس کے آگے جھک جھک جائیں، یہی تقاضا ہے عقل اور نقل کا اور اسی میں بھلا ہے انسان کا ادنیا کی اس عارضی اور نافی زندگی میں بھی اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں بھیجو اس کے بعد آنے والا ہے ورنہ محرومی ہی محرومی ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین [ 61] حق وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہو : سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ جھک جائیں اس حق کے سامنے جو کہ نازل ہوچکا ان کے رب کی طرف سے۔ یعنی قرآن حکیم کے سامنے جو کہ اگر کسی بڑے سے بڑے پہاڑ پر بھی اتارا جاتا تو وہ بھی پھٹ پڑتا، اور اس کے آگے جھکنے کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کی باگیں اس کے ہاتھ میں دے کر اس کے اوامر نواہی کے عین مطابق چلیں، اور صرف ظاہری طور پر نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے ہو، عقیدہ و ایمان کی پختگی و مضبوطی کے ساتھ، اور یہی راہ ہے رادین کی سعادت و سرخروئی کی، یہ استفہام انتہاء درجہ کی تحضیض و ترغیب کے طور پر ہے، ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ نزول قرآن کے تیرہ سال بعد اس آیت کریمہ سے اہل ایمان کو عتاب فرمایا گیا [ جامع و خازن وغیرہ ] تو پھر اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آج پندرہ صدی بعد کے مسلمان کس درجہ اس کے مورد و مصداق اور مستحق ہیں ؟ [ تفسیر المراغی وغیرہ ] بہرکیف اس سے یہ حقیقت پوری طرح واضح اور آشکار ہوجاتی ہے کہ حق وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا اور یہ اب صرف اور صرف قرآن پاک کی صورت ہی میں دنیا میں موجود ہے۔ کیونکہ وحی الٰہی اب صرف قرآن پاک کی صورت ہی میں مل سکتی ہے، اور قرآن حکیم کی شرح اور اس کی اولین تفسیر حدیث رسول ہے، اور قرآن و حدیث کے انہی دو عظیم الشان اور بےمثال ومقدس ذخیروں کا مجموعہ اسلام کہلاتا ہے۔ پس دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی اب صرف قرآن پاک اور احادیث رسول کی تعلیمات مقدسہ کی اتباع و پیروی سے نصیب ہوسکتی ہے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، بکل حال من الاحوال، اللہ تعالیٰ نفس و شیطان کے ہر مکرو فریب سے ہمیشہ محفوظ اور اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین [ 62] گمراہوں کی پیروی باعث ہلاکت و تباہی۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم : ارشاد فرمایا گیا اور گمراہوں کے طور طریقوں سے بچنے کی تعلیم و تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ یہ ان لوگوں کی طرف نہ جائیں جن کو ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ یعنی یہود و نصاری۔ پس تم ان کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اپنے انبیاء کرام کی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر اپنی اہواء اغراض اور خواہشات نفس کی پیروی کو اپنا لیا، سو اس ارشاد سے گمراہوں اور خواہشات نفس کے پجاریوں کے طور طریقوں سے بچنے کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے، کہ ایسے گمراہوں اور اتباع ہو و ہوس کے مریضوں کی پیروی باعث ہلاکت و تباہی ہے۔ جیسا کہ پہلوں کے ساتھ ہوا۔ کہ اللہ تعالیٰ کا قانون سب کیلئے یکساں اور بےلاگ ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ۔ [ 63] قسوت قلب محرومیوں کی محرومی۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم : سو ارشاد فرمایا گیا کہ پھر ان پر ایک لمبی مدت گزر گئی ان کے اور ان کے انبیاء کے درمیان، جس سے یہ غفلت کا شکار ہوگئے، اور اس کے نتیجے میں وہ راہ حق و صواب سے بھٹک گئے، اور اپنے اس مرتبہ و مقام سے محروم ہوگئے، جو حامل کتاب اور دین سماوی کے حامی اور علمبردار ہونے کے اعتبار سے ان کو حاصل تھا، اور اس طرح یہ لوگ دنیاو آخرت کے خسارے میں مبتلا ہوگئے، والعیاذ باللّٰہ، سو تم لوگ اے مسلمانو ! کہیں ان محروم اور بدبخت لوگوں کی طرح نہیں ہوجانا، ورنہ وہی انجام تمہارا بھی ہوگا جو ان لوگوں کا ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قانون سب کے لیے ایک اور سب یکساں لاگو ہوتا ہے۔ سو قسوت قلب محرومیوں کی محرومی ہے۔ اور یہ ایک مستقل سزا ہے جو حضرت حق۔ جل مجدہ۔ کے قانون مجازات کے مطابق ماضی کے ان بدبختوں کو دی گئی جس کا ذکر دوسرے مقام پر اس طرح فرمایا گیا ہے۔ { فبما نقضہم میثاقھم لعنھم وجعلنا قلوبھم قسیۃً } [ الایۃ ] [ المائدۃ : 13 پ 6] ۔ یعنی " ایسوں کے دلوں کو ہم نے سخت کردیا "۔ یعنی ہمارا قانون و دستور اور ہماری سنت اور طریقہ یہی ہے کہ ہم ایسے لوگوں کے دلوں پر مہر کردیتے ہیں اور ان پر ٹھپ لگا ریتے ہیں جس سے وہ ہر خیر سے محروم ہوجاتے ہیں۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے راہ حق پر ثابت قدم، اور اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین، [ 64] غفلت و لاپرواہی کا نتیجہ قسوت قلب۔ والعیاذ باللّٰہ : سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ ان لوگوں پر ایک لمبا زنامہ گزر گیا اور وہاسی غفلت و لاپرواہی میں پڑے رہے۔ یہاں تک کہ ان کے دل سخت ہوگئے، اور قسوت قلوب کی بیماری ان کے دلوں کی دنیا پر چھا گئی، اور اس کے نتیجے میں یہ لوگ قبول حق و ہدایت کی اہلیت اور صلاحیت کی محروم ہوگئے، والعیاذ باللّٰہ العظیم، قسوت قلب کا نتیجہ و انجام محرومی و ہلاکت اور بڑا ہی ہولناک خسارہ ہے، چناچہ یہ لوگ عیش و عشرت اور غفلت و لاپرواہی میں پڑے رہے، اور ان پر ایک لمبی مدت اسی طرح گزرگئی جس کے نتیجے میں انکے دل سخت ہوگئے۔ اور یہ قبولیت حق کی اہلیت ہی سے محروم ہوگئے، اور اس کے نتیجے میں وہ لوگ اپنی کتابوں اور اپنے دین کی تعلیمات مقدسہ کو پس پشت ڈال کر دنیا کے پیچھے لگ گئے، والعیاذ باللّٰہ۔ ان کے دل ایسے سخت ہوگئے کہ حق بات اب کے دلوں میں اترتی ہی نہیں تھی، اور وہ اس کو ماننے اور قبول کرنے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتے تھے، یہاں تک کہ وہ خواہشات نفس کے ایسے پیرو اور پرستار بن گئے کہ انہوں نے اللہ کی کتاب کو بھی اپنی خواہشات کے مطابق بدل کر کچھ کا کچھ کردیا، اور اس طرح انہوں نے نور حق و ہدایت سے خود محروم ہونے اور دوسروں کو محروم کرنے کے دوہرے جرم کا ارتکاب کیا، اور اس کے نتیجے میں وہ " خسر الدنیا والاخرۃ " کا مصداق بن گئے، جو کہ سب سے بڑا اور حقیقی خسارہ ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ سو اس ارشاد سے یہ اہم اور بنیادی حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ کسی امر حق کے بارے میں کسی شبہ اور ترد کا پیدا ہوجانا کوئی تعجب اور اچنبھے کی بات نہیں، اور کچھ عرصے تک ایسی حالت کا باقی رہنا بھی کوئی قابل ملامت چیز نہیں۔ یہ چیز ایک نیک اور صحیح العقیدہ انسان کے اندر بھی پیدا ہوسکتی ہے، لیکن اصل خرابی اس میں ہے کہ کوئی شخص ایسے شبہادت کو اپنے دل میں پکا کرلے اور ان ہی کی آڑ لے کر اپنے اندر حق کی آواز کو دبانا شروع کر دے اور برابر دباتاہی جائے اور باطل سے چمٹے رہنے کیلئے بہانہ جوئی سے کام لینے لگے، تو سنت الٰہی کے مطابق ایسا شخص قبول حق کی صلاحیت ہی سے محروم اور حق تعالیٰ شانہ کی طرف سے مہر جباریت کا حق دار بن جاتا ہے۔ کیونکہ حق تعالیٰ نعمت حق کی ناقدری کو زیادہ عرصہ برداشت نہیں کرتا۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم من کل شائبۃ من شوائب الکقران والخذلان۔
Top