Tafseer-e-Madani - Al-Hadid : 18
اِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَ الْمُصَّدِّقٰتِ وَ اَقْرَضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَهُمْ وَ لَهُمْ اَجْرٌ كَرِیْمٌ
اِنَّ الْمُصَّدِّقِيْنَ : بیشک صدقہ کرنے والے مرد وَالْمُصَّدِّقٰتِ : اور صدقہ کرنے والی عورتیں وَاَقْرَضُوا اللّٰهَ : اور انہوں نے قرض دیا اللہ کو قَرْضًا حَسَنًا : قرض حسنہ يُّضٰعَفُ : دوگنا کیا جائے گا لَهُمْ : ان کے لیے وَلَهُمْ : اور ان کے لیے اَجْرٌ كَرِيْمٌ : اجر ہے عزت والا
بلاشبہ صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور جنہوں نے قرض دیا اللہ (پاک سبحانہ و تعالٰی) کو اچھا قرض ان کو وہ کئی گنا بڑھا کردیا جائے گا اور ان کے لئے ایک بڑا ہی عمدہ اجر ہے
[ 66] انفاق فی سبیل اللہ سراسر نفع کا سودا : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ انفاق فی سبیل اللہ خسارے کا نہیں سراسر نفعے کا سودا ہے۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے مرد اور عورتیں اور وہ لوگ جو قرض دیں اللہ کو اچھا قرض۔ کہ مال بھی صحیح ہو، اور نیت بھی خالص ہو کہ مقصد صرف اپنے خالق ومالک کی رضا و خوشنودی ہو، دوسری کسی غرض کا اس میں کوئی شائبہ نہ ہو، اور نہ ہی وہ اس کے بعد اس کا کسی پر احسان جتلائے سو ایسا انفاق قرض حسن کہلائے گا، اس آیت کریمہ میں انفاق فی سبیل اللہ کے اس مضمون کو ایک دوسرے سے پہلو سے اجاگر فرمایا گیا ہے، جس کا ذکر اوپر آیت نمبر 11 میں آچکا ہے، اور منافقین کو اس پر ابھارا گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا خسارے کا سودا نہیں، بلکہ یہ ایک نہایت ہی نفع بخش کاروبار ہے، کہ اللہ تعالیٰ ایسوں کے دئیے کو محفوظ رکھتا ہے اور ان کو کئی گنا بڑھا کر اجر وثواب سے نوازتا ہے۔ سو انفاق فی سبیل اللہ ایک عظیم الشان سعادت ہے جس کا فائدہ خود خرچ کرنے والے کو ملتا ہے اور کئی گنا بڑھ کر ملتا ہے۔ اور آخرت کے اس ابدی اور حقیقی جہاں میں ملتا ہے جہاں کہ انسان زیادہ محتاج ہوگا۔ اور اس سے پہلے اس دنیا میں بھی ملتا ہے اور کئی صورتوں میں ملتا ہے کہ اس سے مصیبتیں نہیں ٹلتی ہیں، اور برکتیں ملتی ہیں وغیرہ، والحمدللّٰہ رب العالمین۔ [ 67] کئی گنا زیادہ اجر کی عنایت و بشارت کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ ان کو کئی گنا بڑھ کردیا جائے گا کہ ایک کا دس گنا، سو گنا، سات سو گنا، اور اس سے بھی کہیں زیادہ، اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ یہ بدلہ اس اکرم الاکرمین کی طرف سے ہے جس کے کرم کی کوئی حد و انتہائی نہیں، سبحانہ و تعالیٰ ، سو اس کے باوجود جو اس ذات اقدس و اعلیٰ سبحانہ و تعالیٰ ، کو قرض نہ دے اور اس سے کئی کترائے اور ہچکچائے تو، اس سے بڑھ کر محروم اور بدنصیب اور کون ہوسکتا ہے ؟ والعیاذ باللہ جل وعلا، یہاں پر اس انفاق کیلئے صدق اور قرض کے دو لفظ استعمال فرمائے گئے ہیں، سو اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ صدقہ تو ایسے حضرات کی مستقل اور دائمی صفت ہوتی ہے، اور قرض کا تعلق کسی ہنگامی ضرورت میں تعاون و امداد سے ہے، سو ایسے لوگ یوں بھی ہمیشہ صدقہ خیرات کرتے ہیں اور کسی ہنگامی ضرورت کیلئے بھی وہ فراخ دلی کے ساتھ تعاون امداد کیلئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، جل و علا، [ 68] اجر کریم کے وعدہ و انعام کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان کے لئے ایک بڑا ہی عمدہ اجر بھی ہے۔ یعنی جنت [ فتح القدیر، صفوۃ التفاسیر وغیرہ ] جس کی عمدگی اور عظمت شان کا اس دنیا میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، اور جس میں اس اکرم الاکر میں نے اپنے بندوں کیلئے وہ وہ کچھ تیار کر رکھا ہوگا، جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا، اور نہ کسی دل پر اس کا گزر ہی ہوا جیسا کہ صحیح حدیث میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے، اللہ نصیب فرمائے اور محض اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے، آمین ثم آمین، سو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا خسارے کا سودا نہیں بلکہ بڑا ہی نفع بخس کاروبار ہے اور ایسا عظیم الشان نفع اور بےمثال انعام کہ اسی غنی مطلق وحدہٗ لاشریک کے نام پر اور اس کی رضا و خوشنودی کیلئے دیا بخشا ایک ایک پیسہ محفوظ ہوگا، اور وہ اکرم الاکرمین اس کو بڑھاتا جائے گا اور تنا اور اس قدر کہ وہ اس کو ایک عظیم الشان اور لازوال خزانے کی شکل میں واپس کرے گا، اور اس کے علاوہ وہ اس کو ایک اجر کریم سے بھی نوازے گا۔ سو وہ کرم ہی کرم اور کرم بالائے کرم سے نوازے گا۔ سبحانہ وتعالیٰ ، پس اس کے نام پر اور اس کی رضا کیلئے دینے اور دیتے ہی رہنے کی ضرورت ہے، وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، وھو العزیز الوھاب، جل وعلا۔
Top