Tafseer-e-Madani - Al-Hadid : 8
وَ مَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ١ۚ وَ الرَّسُوْلُ یَدْعُوْكُمْ لِتُؤْمِنُوْا بِرَبِّكُمْ وَ قَدْ اَخَذَ مِیْثَاقَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
وَمَا لَكُمْ : اور کیا ہے تمہارے لیے لَا تُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ ۚ : نہیں تم ایمان لاتے ہو اللہ پر وَالرَّسُوْلُ : اور رسول يَدْعُوْكُمْ : بلاتا ہے تم کو لِتُؤْمِنُوْا بِرَبِّكُمْ : تاکہ تم ایمان لاؤ اپنے رب پر وَقَدْ اَخَذَ : حالانکہ تحقیق اس نے لیا ہے مِيْثَاقَكُمْ : پختہ عہد تم سے اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ : اگر ہو تم ایمان لانے والے
اور تمہیں کیا ہوا (اے لوگوں ! ) کہ تم ایمان نہیں لاتے اللہ پر جب کہ اس کا رسول تمہیں بلا رہا ہے کہ تم ایمان لاؤ اپنے رب پر اور وہ (وحدہ لاشریک) تم سے پختہ عہد بھی لے چکا ہے اگر تم واقعی ماننے والے ہو
[ 28] ایمان صادق کے لئے تحریض و ترغیب کا ذکر وبیان : چناچہ ارشاد فرمایا گیا اور تحریص و ترغیب کے لئے اسلوب استفہام میں ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگوں کو کیا ہوگیا ؟ اور تمہارے لئے کیا عذر ہوسکتا ہے کہ تم ایمان نہیں لاتے اللہ پر، حالانکہ اللہ پر ایمان تقاضا ہے عقل سلیم، اور فطرت و مستقیم دونوں کا، اور اللہ رسول تمہیں اس کی دعوت سے رہا ہے، سو اس سے کمزور مسلمانوں اور منافق لوگوں کو سچے پکے ایمان کی دعوت وتحریض فرمائی گئی ہے اور استفہام یہاں پر تخصیض و توبیخ کے لئے ہے۔ یعنی تمہیں اس پر ایمان لانا چاہیے کہ اللہ پاک پر ایمان لانے کے دواعی اور اسباب تو تمام موجود ہیں کہ اس نے ایک طرف تمہیں عقل و فکر کی دولت سے نوازا، دوسری طرف دلائل وبراہین بھری کائنات کی یہ کھلی کتاب تمہارے سامنے رکھ دی۔ اور اس پر مزید یہ کہ اس کا رسول بھی تمہیں اس پر ایمان و یقین کی دعوت دے رہا ہے تو پھر تم لوگ اس پر ایمان کیوں نہیں لاتے ؟ سو اس ارشاد میں ایسے کمزور مسلمانوں کے لئے تحریک وتحریض اور ملامت کے انداز میں نصیحت ہے کہ تم لوگ صدق دل سے ایمان لاؤ، اور اللہ اور اس کے رسول کے ہر حکم و ارشاد پر صدق دل سے لبیک کہو، کہ اسی میں تمہارا بھلا ہے اور یہی تمہارے ایمان کا تقاضا ہے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، بکل حال من الاحوال، [ 29] رب پر ایمان اس کی شان ربوبیت کا تقاضا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تمہارے لیے کیا عذر اور مانع ہوسکتا ہے [ اے لوگو !] کہ تم اللہ پر ایمان لاؤ جب کہ اس کا رسول تمہیں بلا رہا ہے کہ تم ایمان لاؤ اپنے رب پر۔ سو اس کی شان ربوبیت کا تقاضا ہے کہ تملوگ اس پر سچے سل سے ایمان لاؤ، اور ظاہر و باطن اور جسم و جان کے رواں دواں سے اس کی حمد و ثنا اور شکر و مدح میں رطب اللسان ہوجاؤ اور ہمیشہ اسی طرح رہو، اور اس طرح تمخود اپنے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی اور فوز و فلاح کا سامان کرو، سو تم لوگ اپنے رب کے ہر حکم و ارشاد پر صدق دل سے لبیک کہو، بہرکیف اس سے سچے ایمان کے لیے تحریض اور تحریک فرمائی گئی ہے اور ایسے اور اس طور پر کہ مختصر ہونے کے باوجود اس ارشاد کے بعد منکرین و مجرمین کے لیے کسی عذر و مانع کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ ایک طرف تو اللہ کا رسول بذات خود تمہاے اندر موجود ہے اور وہ تمہیں تمہارے رب پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے اور دوسرے اس لیے کہ رب کی ربوبیت اور اس کے ان آثار کا یہی تقاضا ہے جو کائنات کی اس کھلی اور عظیم الشان کتاب میں چہار سو پھیلے بکھرے ہیں کہ تم لوگ صدق دل سے اس پر ایمان لے آؤ۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، [ 30] میثاق ربانی کی تذکیر و یاددہانی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ تم سے پختہ عہد بھی لے چکا ہے۔ یعنی عہد الست جبکہ تمہاری روحوں کو آدم کی پشت سے نکال کر تم سے اس رب حقیقی کی ربوبیت و وحدانیت کا عہد لیا گیا تھا، پھر اس عہد و اقرار کو تمہاری فطرتوں میں اس طرح پیوست کردیا گیا کہ اس کا بیان و اظہار رندگی کی مختلف شوؤن و حالات میں برابر ہوتا رہتا ہے، پھر تمہیں عقل و فکر کی قوت بھی عطا فرمائی اور اس کائنات اور خود تمہارے اپنے جسم و جان کے اندر اس نے اپنی توحید وقدرت کے طرح طرح کے دلائل بھی رکھ دئے، جن میں غور وفکر سے تمہیں راہ حق و ہدایت مل سکتی ہے، اور بعض حضرات مفسرین نے اس میثاق سے مراد بیعت رسول لی ہے، اور لفظ میثاق کا عموم ان سب ہی کو عام اور شامل ہے، [ خازن، مراغی، ابو السعود اور جامع البیان، وغیرہ ] بہرکیف اس کے اس عہد و میثاق کا تقاضا بھی یہی ہے کہ تم لوگ صدق دل سے اس کے ہر حکم پر لبیک کہو، وباللّٰہ التوفیق اور اسی طرح اس عہد کا مصداق سمع وطاعت کا وہ عہد بھی ہے جو ہر مسلمان اپنے ایمان لانے کے موقع پر کرتا ہے جس کی تذکیر و یاد دہانی دوسرے موقع پر اس طرح فرمائی گئی ہے۔ { واذکروا نعمۃ اللّٰہِ علیکم ومیثاقہ الذی واثقکم بہ اذ قلتم سمعنا واطعنا واتقوا اللّٰہ ط ان اللّٰہ علیم م بذات الصدور۔ } [ المائدۃ : 7 پ 6] یعنی " یاد کرو تم لوگ اپنے اوپر اللہ کے انعام اور اس کے اس پختہ عہد کو جو اس نے تم سے لیا اور تم نے " " سمعنا واطعنا " کہہ کر اس کا اقرار کیا "۔ سو اس عہد کے تقاضوں کو پورا کرنا بھی، تقاضا ہے عقل اور نقل دونوں کا اللہ توفیق بخشے اور ہمیشہ اپنی رضا کی راہوں پر قائم رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین، ویا ارحم الراحمین، واکرم الاکرمین، یا ذا الجلال والاکرام، [ 31] اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کو ماننا ایمان کا لازمی تقاضا : سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ تملوگ اپنے رب کے ہر حکم کو بجا لاؤ اگر واقعی تم ایماندار ہو۔ کہ ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ اب کسی شک و اشتباہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی، حق و صداقت کے نشان پوری طرح واضح ہوچکے ہیں " قدتبین الرشد من الغی " سو اگر تمہیں واقعی ایمان لانا ہے، اور تم اپنے دعویٰ ایمان میں سچے ہو، تو سیدھے اور صاف طریقے سے ایمان لے آؤ، کہ اب اس راہ میں کسی ہیر پھیر اور ایچ پیچ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی، سو اس ارشاد سے ایک بات تو یہ واضح ہوجاتی ہے کہ ایمان محض زبانی کلامی دعوے کا نام نہیں، بلکہ اس کیلئے عملی ثبوت درکار ہے، کہ ایمان عمل ہی سے متشکل اور وجود پذیر ہوتا ہے، اور دوسری بات یہ کہ عمل میں بھی انفاق فی سبیل اللہ کو ایک خاص درجہ اور مقام حاصل ہے، اسی بناء پر یہاں انفاق کی دعوت کو ایمان کی دعوت سے مقدم ذکر فرمایا گیا ہے، سو انفاق فیسبیل اللہ کو نور ایمان و یقین کی تقویت و تغذیہ میں خاص دخل ہے۔ بہرکیف اس ارشاد سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہا یمان کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ انسان ہر اس چیز پر صدق دل سے ایمان لائے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہو، اور جس کے اس کے رسول نے دعوت دی ہو۔ انمیں سے کسی ایک کا بھی انکار سن کے انکار کے مترادف ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم، من کل زیغ و ضلال وسواء وانحراف، وھو الھادی الیٰ سواء السبیل۔
Top