Tafseer-e-Madani - Al-Hadid : 9
هُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ عَلٰى عَبْدِهٖۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ لِّیُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ بِكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
هُوَ الَّذِيْ : وہ اللہ وہ ذات ہے يُنَزِّلُ : جو اتارتا ہے عَلٰي عَبْدِهٖٓ : اپنے بندے پر اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ : آیات روشن لِّيُخْرِجَكُمْ : تاکہ وہ نکالے تم کو مِّنَ الظُّلُمٰتِ : اندھیروں سے اِلَى النُّوْرِ ۭ : روشنی کی طرف وَاِنَّ اللّٰهَ : اور بیشک اللہ تعالیٰ بِكُمْ : ساتھ تمہارے لَرَءُوْفٌ : البتہ شفقت کرنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان ہے
وہ (اللہ) وہی ہے جو نازل فرماتا ہے اپنے بندہ خاص پر کھلی کھلی آیتیں تاکہ وہ تمہیں نکالے (اپنے کرم سے) طرح طرح کے اندھیروں سے (حق و ہدایت کے) نور کی طرف اور بیشک اللہ تم سب پر (اے لوگوں ! ) یقنی طور پر بڑا ہی شفیق اور انتہائی مہربان ہے3
[ 32] آیات بینات سے مقصود و مراد ؟ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ وہی ہے جو اپنے بندے پر کھلی آیتیں نازم فرماتا ہے تاکہ وہ تم لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائے۔ یعنی ایسے قطعی دلائل اور نشانیاں جو حق و باطل کو قطعی طور پر نکھار دینے والی ہیں، جن میں سب سے بڑی سب سے اہم اور سب سے واضح وجلی آیت و نشانی معجزہء قرآن کریم ہے جو اپنی زبان وبیان، معانی و احکام، قوت و تاثیر، ہر اعتبار سے معجزہ بلکہ معجزوں کا معجزہ اور معجزہ کبریٰ آیت عظمیٰ اور حق کی برہان خالد ہے، والحمد اللّٰہ الذی شرفنا بھذہ النعمۃ الکبریٰ والنور التام الخالد۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر یہ واضح دلائل اور روشن آیتیں اس لیے نازل فرمائیں کہ وہ تمہیں طرح طرح کی ان تاریکیوں سے نکالے جو خواہشات نفس اور حب دنیا کی تنگنائیوں سے جنم لیتی ہیں، اور ان سے نکال کر وہ تم کو شوق ہدایت کے اس نور عظیم سے مشرف و ہمکنار کرے جو ایمان صادق اور حب آخرت سے پھونٹتی ہیں، تاکہ اس طرح تم لوگ دنیا و آخرت کی سعادت اور حقیقی فوزوفلاح سے سرفراز اور مالا مال ہوسکو۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، وھو الھادی الیٰ سواء السبیل، فعلیہ نتوکل وبہ نستعین، فی کل ان وحین، جل و علا، اللّٰہم زدنا ایمانًا بک ویقنًا، وحبًّا فیک وخشوعًا، وخذنا بنواصنا الی ما فیہ طاعتک ومرضاتک بکل حالٍ من الاحوال، وفی کل حین من الاحیان، بمحض منک وکرمک واحسانک، یا ذا الجلال والاکرام، [ 33] نور وحی و ہدایت رب کی سب سے بڑی رحمت و عنایت : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ نور وحی و ہدایت کی دولت رب کی سب سے بڑی رحمت و عنایت ہے، اور یہ کہ یہ بندوں کے خود اپنے ہی بھلے کے لیے ہے۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ اس وحدہٗ لاشریک نے اپنے بندے پر یہ آیات بینات اس لیے اتاریں کہ تاکہ وہ تمہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لائے۔ یعنی کفر و شرک ضلالت و گمراہی، اور جہالت و معصیت وغیرہ کے گھٹاٹوپ اندھیروں سے نکال کر، ایمان و توحید، اور اطعت و بندگی خداوندی کی اس صرط مستقیم اور راہ مبین کی طرف، جو کہ دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز کرنے والی اور حقیقی فوزوفلاح کی کفیل وضامن واحد راہ ہے اور جو اللہ پاک کا اس کے بندوں پر سب سے بڑا انعام واحسان ہے، فلہٗ الحمد والمنۃ پس تم لوگ کبھی اس طرح کا کوئی گمان نہ کرنا کہ اللہ تم کو نقصانات اور مشقتوں میں ڈالنا چاہتا ہے، وہ تو رؤف و رحیم ہے، اس لئے وہ تم لوگوں کو مشقتوں اور مشکلوں میں ڈالنے کے بجائے اپنی خاص رحمتوں اور عنایتوں سے نوازنا چاہتا ہے، تاکہ اس طرح تم لوگ دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز ہو سکو، سو وہ تمہارے لیے دنیا و آخرت دونوں کی فلاح و بہبود کی راہیں کھولنا چاہتا ہے، اور وہ تمہیں کسی بھی زحمت اور مشقت میں نہیں ڈالنا چاہتا، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا اور صاف وصریح طور پر ارشاد فرمایا گیا۔ { یرید اللّٰہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر } [ الایۃ ] [ البقرۃ : 185] یعنی اللہ تعالیٰ رم لوگوں کے ساتھ نرمی اور آسانی کا معاملہ کرنا چاہتا ہے، وہ تمہارے ساتھ کسی طرح کی سختی کا معاملہ نہیں کرنا چاہتا، سبحانہ وتعالیٰ ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے، آمین ثم آمین [ 34] اللہ تعالیٰ کی صفت رأفت و رحمت کا حوالہ و ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا اور " ان " کے حرف تاکید کے ساتھ مؤکد کرکے ارشاد فرمایا گیا کہ " بیشک اللہ تم پر بڑ ہی شفقی، انتہائی مہربان ہے "۔ سوا تنا مہربان اور اس قدر شفیق کہ اس کی شفقت و مہربانی اور رحمت و عنایت کا کوئی کنارہ نہیں، اور اپنی اسی رحمت و شفقت کی بناء پر اس نے تمہارے لئے ایمان و اطاعت اور حق و صداقت کی اس عظیم الشان اور بےمثال روشنی کا انتظام فرمایا، ورنہ تم تو حیوانات و جمادات سے بھی گئے گزرے لوگ تھے، کہ عقل و فکر کی پونجی رکھنے کے باجود تم راہ حق سے محروم و بےبہرہ ہو کر اپنے سے گھٹیا مخلوق کے پجاری بنے ہوئے تھے، سو تم لوگ سوچو کہ اگر وہ تمہارے لئے ہدایت و راہنمائی کا یہ عظیم الشان اور بےمثال انتظام نہ فرماتا، اور تمہیں اندہیروں میں ہی بھٹکتے ہوئے ہلاکت و تباہی کی راہ پر چھوڑ دیتا تو تمہارا حال کیا ہوتا، پس اس کے اس عظیم الشان اور بےمثال کرم و احسان کا احساس کرکے تم لوگ اس کے آگے جھک جاؤ، اور ہمیشہ جھکے جھکے ہی رہو، کہ اسی میں تمہارے لیے دارین کی صلاح و فلاح ہے، رؤف اور رحیم کی دونوں صفتیں قریب المعنی ہیں، اور جب ان میں سے کوئی ایک صفت علی سبیل الانفراد استعمال ہوتی ہے تو وہ دوسری کے معنی کو بھی متضمن ہوتی ہے لیکن جب یہ دونوں یکجا استعمال ہوں جیسا کہ رحیم میں اثبات خیر کا، سو ان دونوں صفات کریمہ کے حوالہ و ذکر سے یہ امر واضح فرما دیا گیا کہ اللہ نے اپنی صفات رافت و رحمت کے تقاضے کی بنا پر ہی تم لوگوں کو ان تعلیمات مقدسہ سے نوازا ہے اور ان میں سراسر تمہارا ہی بھلا ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، تم ان کو صدق دل سے اپناؤ، وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، بکل حال من الاحوال،
Top