Tafseer-e-Madani - Al-Hadid : 7
اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْهِ١ؕ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ اَنْفَقُوْا لَهُمْ اَجْرٌ كَبِیْرٌ
اٰمِنُوْا : ایمان لاؤ بِاللّٰهِ : اللہ پر وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کے رسول پر وَاَنْفِقُوْا مِمَّا : اور خرچ کرو اس میں سے جو جَعَلَكُمْ : اس نے بنایا تم کو مُّسْتَخْلَفِيْنَ : پیچھے رہ جانے والے۔ خلیفہ۔ جانشین فِيْهِ ۭ : اس میں فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : تو وہ لوگ جو ایمان لائے مِنْكُمْ : تم میں سے وَاَنْفَقُوْا : اور انہوں نے خرچ کیا لَهُمْ اَجْرٌ : ان کے لیے اجر ہے كَبِيْرٌ : بڑا
ایمان لاؤ تم لوگ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور خرچ کرو اس مال میں سے جس میں اللہ نے تم کو جانشین بنایا ہے (اپنے فضل و کرم سے) پھر جو لوگ تم میں سے ایمان لے آئے اور انہوں نے خرچ بھی کیا تو ان کے لئے ایک بہت بڑا اجر ہے2
[ 25] سچے اور صحیح ایمان کے حکم و ارشاد کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ صدق دل سے ایمان لاؤ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول پر " آمنوا " کا خطاب اگرچہ بظاہر عام ہے لیکن قرائن سے واضح ہوتا ہے کہ روئے سخن دراصل خام قسم کے مسلمانوں اور ان منافقوں کی طرف ہے جو زبانی کلامی طور پر ایمان تو لے آئے تھے لیکن اس ایمان کے تقاضوں سے کئی کتراتے تھے۔ سو ان سے فرمایا گیا کہ تم لوگ صدق دل سے ایمان لے آؤ اللہ اور اس کے رسول پر، کہ اللہ پاک وحدہٗ لاشریک ہے، اور اس کا رسول سچا ہے، ان تمام امور میں جو اس نے اللہ پاک کی طرف سے اس کے بندوں تک پہنچائے ہیں، اور یہ کہ فوز و فلاح اللہ پاک اور اس کے رسول پر سچے پکے ایمان اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری ہی پر موقوف ہے۔ سو " آمنوا " کا خطاب اگرچہ عام ہے لیکن آگے کے قرآئن ست پتہ چلتا ہے کہ روئے سخن دراصل ان خام مسلمانوں اور منافقوں کی طرف ہت، جو زبانی کلامی ایمان کا دعویٰ تو کرتے اور اس کا دم بھرتے تھے، لیکن جب ان سے انفاق اور جہاد فی سبیل اللہ کا مطالبہ کیا گیا تو وہ جھوٹے ثابت ہوئے اور وہ ان سے کترانے اور منہ چھپانے لگے، سو ایسے لوگوں سے کہا جارہا ہے کہ تم لوگ سچے دل سے ایمان لاؤ، اور اپنے ایمان و عقیدے کے تقاضے پورے کرو تاکہ اس تمہارا بھلا ہو کہ ایمان و یقین کے تقاضے پورے کرنے کا فائدہ بہرحال ایمان والوں ہی کو پہنچتا ہے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، [ 26] انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب ایک خاص پہلو سے : سو ارشاد فرمایا گیا اور انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ اور خرچ کرو تم لوگ اس مال میں سے جس میں تم کو اللہ نے جانشین بنایا ہے۔ یعنی اپنا، کہ اس نے تمہیں اپنا خلیفہ اور نائب بنا کر اس دنیا میں بھیجا، اور تمہیں اس مال دولت میں تصرف و تملک کا حق و اختیار دیا نیز اس نے تمہیں ان لوگوں کا جانشین بنایا جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں، کہ یہ مال و دولت وغیرہ اس سے پہلے ان ہی لوگوں، کے پاس تھا پھر ان کے انتقال کے بعد یہ تمہیں ملا، اسی طرح تمہارے بعد یہ دوسروں کے ہاتھوں میں چلا جائے گا، پس اس فرصت تملک و اختیار کو غنیمت سمجتے ہوئے تم اس کو راہ حق و صواب میں خرچ کرو، تاکہ خود تمہارا بھلا ہو، [ روح، ابن جریر، التسہیل لعلوم التنزیل، محاسن التاویل، خازن، ابو السعود، وغیرہ ] کہنے والے نے کیا خون کہا۔ وما المال والاہل الا ودائع۔ ولا بدیوما ان تردالودائع یعنی " یہ مال و دولت تو محض امانتیں ہیں اور ان امانتوں کا ایک دن بہرحال واپس لوٹانا ہے "۔ اور ایک اعرابی سے جب کہ وہ اپنے اونٹوں کو چرا رہا تھا پوچھا گیا کہ یہ اونٹ کس کے ہیں ؟ [ لمن ھذہ الابل ] تو اس نے فوراً جواب دیا کہ یہ اللہ کا مال ہے جو بطور امانت عارضی طور پر میرے پاس ہے۔ " ہی للہ عندی امانۃ " [ حاشیہ مع البیان ] سبحان اللّٰہ ! فطرت صحیح و سلیم ہو تو انسان کے منہ سے حق بات کس صحت و صفائی کے ساتھ فوری طور پر نکلتی ہے اگرچہ وہ ایک عامی اور ان پڑھ شخص ہی کیوں نہ ہو، لیکن جب فطرت مسخ ہوجاتی ہے اور مت ماری جاتی ہے۔ والعیاذ باللہ، تو پھر انسان کو سیدھی بات بھی الٹی نظر آنے لگتی ہے، اور وہ الٹا اس غلط بات کو حو بجانب ثابت کرنے کے لئے طرح طرح کے شرکیہ فلسفے بگھارنے لگتا ہے، یہاں تک کہ وہ صاف وصریح نصوص کریمہ میں بھی تاویل و تحریف سے کام لینے لگتا ہے، والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ بہرکیف اس ارشاد سے ایک طرف تو اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ انفاق فی سبیل اللہ ایمان و یقین کا بدیہی اور لازمی تقاضا ہے، اور دوسری طرف اس سے اس اہم اور بنایدی حقیقت سے بھی آگہی بخش دی گئی کہ انسان کے پاس جو بھی کچھ مال و دولت ہے وہ سب کا سب اللہ تعالیٰ کا دیا بخشا اور اس کے پاس محض ایک امانت ودیعت ہے جس نے آخر کار بہرحال اس کے قبضہ و تصرف سے نکل جانا ہے۔ پس عقل وخرد کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اس کو اللہ کی راہ میں اور اس کی رضا کے لیے خرچ کر دے قبل اس سے کہ یہ اس کے ہاتھ سے نکل جائے وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر قائم رکھے۔ آمین ثم آمین [ 27] انفاق فی سبیل اللہ پر اجر کبیر کا وعدہ : سو ارشاد سے راہ حق میں خرچ کرنے والوں کے لئے اجر کبیر کا وعدہ فرمایا گیا ہے چانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اللہ کی راہ میں اور اس کی رضا کے لئے خرچ کیا تو ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ یعنی جنت اور اس کی بےمثال و لازوال اور لامتناہی و سدا بہار نعمتیں، پس ایمان اور انفاق فی سبیل اللہ کا اصل فائدہ خود تم ہی لوگوں کو پہنچنے والا ہے، نہ کہ کسی اور کو، لہٰذا تم اپنے ان عارضی اور فانی اموال کو اس واہب مطلق جل جلالہ کی راہ میں اور اس کی رضا کے لئے خرچ کرکے خود اپنے لئے سعادت دارین سے سرفرازی اور دائمی آرام و راحت کا سامان کرو قبل اس سے کہ تم کو اس دنیا سے کوچ کرنا پڑے اور یہ سب کچھ دوسروں کے ہاتھوں میں چلا جائے، یہاں پر ایمان کے بعد انفاق کا ذکر تصدیق اور شہادت کے طور پر آیا ہے۔ یعنی یہ بشارت ان لوگوں کے لئے ہے جو ایمان کے اقرار و اظہار کے بعد انفاق فی سبیل اللہ سے اپنے اس ایمان کی تصدیق کریں گے، سو ایسے خوش نصیب لوگ مطمئن رہیں کہ ان کا یہ سودا خسارے کا نہیں بڑے نفع کا سودا ہے، وہ ایک کے دس پائیں گے بلکہ اس سے بھی کئی گنا زیادہ اور ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے، تو پھر ان کیلئے ایسے نفع بخش کاروبار میں سرمایہ لگانے سے گھبرانے کا کیا سوال ؟ پس عقل و نقل دونوں کا تقاضا یہی ہے کہ مومن صادق اپنے مال کو دنیاوی بینکوں کی بجائے اللہ کے بینک میں جمع کرائے جس میں کسی خسارہ و نقصان کا کوئی سوال اور کسی طرح کا کوئی خوف و خدشہ نہیں ؟ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، سبحانہ وتعالیٰ ۔
Top