Tafseer-e-Madani - Al-Hashr : 13
لَاَنْتُمْ اَشَدُّ رَهْبَةً فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنَ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ
لَاَانْتُمْ : یقیناً تم۔ تمہارا اَشَدُّ رَهْبَةً : بہت زیادہ ڈر فِيْ صُدُوْرِهِمْ : ان کے سینوں میں مِّنَ اللّٰهِ ۭ : اللہ سے ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّهُمْ : اس لئے کہ وہ قَوْمٌ : ایسے لوگ لَّا يَفْقَهُوْنَ : کہ وہ سمجھتے نہیں
بیشک ان لوگوں کے دلوں میں تمہارا خوف (اے ایمان والو ! ) اللہ (کے خوف) سے بھی بڑھ کر ہے یہ اس لئے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھتے نہیں
[ 35] جو اللہ سے نہیں ڈرتے وہ اس کی کمزور مخلوق سے ڈرتے ہیں۔ والعیاذ باللّٰہ جل وعلا : سو اس سے یہ اہم حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ یہ لوگ اللہ سے نہیں ڈرتے وہ اس کی مخلوق سے ڈرتے ہیں۔ اور یہ قدرت کی طرف سے ان کو ایک نقد سزا ہے کہ جو اللہ پاک سے نہیں ڈرتا، وہ اس کی ضعیف اور کمزور مخلوق سے ڈرتا ہے اور جس کے دل میں اللہ پاک کی عظمت و خشیت راسخ ہوجاتی ہے، وہ کسی بڑی سے بڑی مخلوق کو بھی خاطر میں نہیں لاتا، اور وہ اللہ کے سوا اور کسی سے نہیں ڈرتا، بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ تمہارے مقابلے میں اپنے ان بھائی بندوں کی نصرت و امداد کیلئے اس لئے نہیں اٹھیں گے کہ ان کے دلوں میں اللہ سے زیادہ تمہاری دہشت چھائی ہوئی ہے، اللہ کی مخالفت اور نافرمانی تو یہ لوگ خفیہ بھی کرتے ہیں اور اعلانیہ بھی، لیکن تمہارے مقابلے میں اٹھنے کا حوصلہ اور ہمت یہ کبھی نہیں کرسکیں گے۔ سو ایمان و یقین کی قوت سے محرومی ہر خیر سے محرومی ہے، اور ایسے لوگ ہر چیز سے ڈرتے ہیں۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم من کل زیغ وضلال وسوئٍ وانحراف، فی کل حین وان، بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، [ 36] منافقوں کی حماقت کے سبب اور باعث کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ اس لیے کہ یہ لوگ سمجھتے نہیں، یعنی یہ سمجھتے نہیں کہ اللہ پاک کی عظمت وقدرت کیسی ہے۔ اور یہ کہ اس کی مشیت ومرضی کے بغیر کوئی بڑی سے بڑی مخلوق بھی نہ کوئی نفع پہنچا سکتی ہے، نہ نقصان، سو انکار یہ رویہ تو بڑا تعجب انگیز ہے کہ یہ لوگ اپنی حماقت اور ڈھیٹ پنے کی بناء پر اللہ تعالیٰ سے تو نڈر اور بےخوف ہیں، لیکن تمہاری دہشت ان کے دل و دماغ میں چھائی ہوئی ہے، اور جن کی مت مار دی جاتی ہے ان کا حال ایسے ہی ہوجاتا ہے، کہ وہ تازیانے سے تو ڈرتے ہیں مگر تازیانے والے سے نہیں ڈرتے، سو یہ منافقوں کی حماقت اور مت ماری کا ایک کھلا ثبوت ہے، اگر ان لوگوں کے اندر عقل اور ایمان کی ذرا بھی رمق ہوتی تو یہ سوچتے کہ جب یہ اپنے خالق ومالک کو ناراض کرے اور اس سے منہ موڑ کر اپنے آپ کو اس کے غضب کا مستحق بنا چکے ہیں، تو پھر یہ اس کے نوکروں اور درباریوں سے چھپ کر کیسے اور کب تک اپنے آپ کو بچا سکیں گے ؟ یہاں یہ امر بھی واضح رہے کہ انسان عقل و فطرت کے بدیہی حقائق کو سمجھنے سے محروم اس وقت ہوتا ہے جبکہ بدیہات کے انکار اور ان کی خلاف ورزیوں کے ارتکاب کی بناء پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے دل پر مہر کردی جاتی ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا، اور منافقین ہی کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ، ان لوگوں کا یہ حال اس لیے ہوا کہ یہ ایمان لائے، پھر انہوں نے کفر کیا، جس کے نتیجے میں ان کے دلوں میں مہر کردی گئی۔ سو اب یہ لوگ کچھ سمجھ نہیں سکتے، [ المنافقون :3] والعیاذ باللّٰہ العظیم من کل زیغ وضلال وسوئٍ وانحراف، فی کل حین وان، بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ،
Top