Tafseer-e-Madani - Al-Anfaal : 67
مَا كَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗۤ اَسْرٰى حَتّٰى یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ١ؕ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا١ۖۗ وَ اللّٰهُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَةَ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
مَا كَانَ : نہیں ہے لِنَبِيٍّ : کسی نبی کے لیے اَنْ : کہ يَّكُوْنَ : ہوں لَهٗٓ : اس کے اَسْرٰي : قیدی حَتّٰي : جب تک يُثْخِنَ : خونریزی کرلے فِي : میں الْاَرْضِ : زمین تُرِيْدُوْنَ : تم چاہتے ہو عَرَضَ : مال الدُّنْيَا : دنیا وَاللّٰهُ : اور اللہ يُرِيْدُ : چاہتا ہے الْاٰخِرَةَ : آخرت وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
کسی نبی کی یہ شان نہیں کہ ان کے پاس قیدی رہیں، یہاں تک کہ وہ زور کچل دے زمین میں (کفر اور اس کے علم برداروں کا) تم لوگ چاہتے ہو دنیا کے (عارضی اور فانی) فائدے، جب کہ اللہ چاہتا ہے (تمہارے لئے) آخرت (اور اس کی حقیقی اور ابدی کامیابی) اور اللہ بڑا ہی زبردست، نہایت ہی حکمت والا ہے،
144 جہاد اسلامی کا اصل مقصد کفر کا زور توڑنا : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ جہاد اسلامی کا اصل مقصد تو کفر کا زور توڑنا ہی ہے، تاکہ دین حق کے لئے راہ صاف ہوجائے اور کوئی فتنہ و رکاوٹ باقی نہ رہ جائے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا { وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ کَلُّہُ لِلّٰہِ } الاٰیۃ (الانفال : 39) ۔ غزوئہ بدر کے بعد جب آنحضرت ﷺ نے اساری بدر کے بارے میں صحابہ کرام ؓ سے مشورہ فرمایا تو حضرت صدیق اکبر۔ ؓ ۔ نے رائے دی کہ ان کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے کہ ایک تو اس طرح ان کے لئے قبول اسلام کا موقع باقی رہے گا اور یہ ممنون بھی ہوں گے اور دوسرے اس لئے کہ اس طرح فدیہ لینے سے ہماری مالی پوزیشن بھی اچھی ہوجائے گی، جبکہ حضرت عمر فاروق ۔ ؓ ۔ کی رائے تھی کہ ان کو تہ تیغ کردیا جائے اور اس طور پر کیا جائے کہ ہر شخص اپنے قریبی رشتہ دار قیدی کا سر خود قلم کرے تاکہ دنیا کے سامنے یہ حقیقت پوری طرح آشکارا اور واضح ہوجائے کہ حق کے مقابلے میں ہم کسی قرابت و رشتہ داری کی پرواہ نہیں کرتے۔ آنحضرت ۔ ﷺ ۔ نے پہلی رائے کو اختیار کرتے ہوئے ان قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا تو اس پر یہ آیات کریمہ نازل ہوئیں اور ان میں یہ بتایا گیا کہ فدیہ لے کر قیدیوں کو چھوڑ دینے کا یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ کے یہاں پسندیدہ فیصلہ نہیں۔ مگر اس بارے چونکہ مشورہ اور اجتہاد سے کام لیا گیا تھا اور اجتہادی خطا قابل مواخذہ نہیں ہوتی اس لئے اس بناء پر ان کی کوئی گرفت نہیں فرمائی گئی۔ سو اس سے اہل بدعت کے علم غیب کلی اور اختیارِکلی جیسے خود ساختہ عقائد کی جڑ کٹ جاتی ہے کیونکہ پیغمبر کو اگر اللہ پاک کی رضا اور پسندیدگی کا علم ہوتا تو آپ ایسا کام کبھی کرتے ہی نہ جو اس کی رضا اور پسندیدگی کے خلاف تھا۔ اور اگر آنجناب۔ (علیہ الصلوۃ والسلام) ۔ مختار کل ہوتے تو آپ ﷺ کو ایسا کرلینے پر اس طرح عتاب نہ فرمایا جاتا۔ روایات میں ہے کہ ِاس ارشاد ربانی کے نزول کے بعد آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ دونوں رونے لگے۔ اور پھر آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس فیصلے پر اللہ کا عذاب اس درخت سے بھی زیادہ قریب پہنچ چکا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا۔ آپ ﷺ نے قریب ہی پائے جانے والے ایک درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا۔ نیز فرمایا کہ اگر یہ عذاب نازل ہوجاتا تو عمر اور سعد بن معاذ کے سوا کوئی بھی نہ بچ سکتا۔ (روح المعانی، زاد المسیر، ابن کثیر، مدارک التنزیل، محاسن التاویل اور صفوۃ التفاسیر وغیرہ) ۔ سبحان اللہ ۔ کہاں حضرت نبی معصوم (علیہ الصلوۃ والسلام) کی شان عبدیت کے یہ واضح اور کھلے مظاہر اور کہاں اہل بدعت کے علم غیب کلی اور اختیار کلی کے وہ شرکیہ عقائد جن کیلئے وہ طرح طرح کے پاپڑ بیلتے ہیں۔ یہاں تک کہ صاف وصریح نصوص تک میں طرح طرح کی تاویلات بلکہ تحریفات سے کام لیتے اور نہیں سمجھتے کہ وہ کس قدر ہولناک کام کا ارتکاب کررہے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ تعالیٰ فکر وعمل کی ہر کجی سے محفوظ رکھے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
Top