Tafseer-al-Kitaab - Al-Anfaal : 67
مَا كَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗۤ اَسْرٰى حَتّٰى یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ١ؕ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا١ۖۗ وَ اللّٰهُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَةَ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
مَا كَانَ : نہیں ہے لِنَبِيٍّ : کسی نبی کے لیے اَنْ : کہ يَّكُوْنَ : ہوں لَهٗٓ : اس کے اَسْرٰي : قیدی حَتّٰي : جب تک يُثْخِنَ : خونریزی کرلے فِي : میں الْاَرْضِ : زمین تُرِيْدُوْنَ : تم چاہتے ہو عَرَضَ : مال الدُّنْيَا : دنیا وَاللّٰهُ : اور اللہ يُرِيْدُ : چاہتا ہے الْاٰخِرَةَ : آخرت وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
نبی کے لئے سزاوار نہیں کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ ملک میں غلبہ حاصل نہ کرے۔ (مسلمانو ' ) تم تو دنیا کی متاع چاہتے ہو اور اللہ (تمہیں) آخرت (کی نعمتیں) دینا چاہتا ہے اور اللہ زبردست (اور) حکمت والا ہے۔
[23] اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ معرکہ بدر کے بعد دشمن کے ستر آدمی گرفتار ہوئے تو سوال پیدا ہوا کہ ان کے ساتھ کیا کیا جائے کیونکہ اس وقت مسلمان بڑی تنگی اور افلاس کی حالت میں تھے اس لئے عام رائے یہ تھی کہ قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے لیکن بعض لوگوں کی رائے یہ تھی کہ انہیں قتل کردینا چاہئے۔ عمر ؓ بھی انہی میں تھے لیکن نبی اکرم ﷺ نے عام رائے کے مطابق فیصلہ فرمایا اور قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا گیا۔
Top