Mualim-ul-Irfan - Al-Anfaal : 67
مَا كَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗۤ اَسْرٰى حَتّٰى یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ١ؕ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا١ۖۗ وَ اللّٰهُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَةَ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
مَا كَانَ : نہیں ہے لِنَبِيٍّ : کسی نبی کے لیے اَنْ : کہ يَّكُوْنَ : ہوں لَهٗٓ : اس کے اَسْرٰي : قیدی حَتّٰي : جب تک يُثْخِنَ : خونریزی کرلے فِي : میں الْاَرْضِ : زمین تُرِيْدُوْنَ : تم چاہتے ہو عَرَضَ : مال الدُّنْيَا : دنیا وَاللّٰهُ : اور اللہ يُرِيْدُ : چاہتا ہے الْاٰخِرَةَ : آخرت وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
نہیں لائق نبی کے لیے کہ ہوں ا س کے لیے قیدی یہاں تک کہ وہ خونریزی کرے زمین میں تم چاہتے ہو دنیا کی زندگی کا سامان اور اللہ چاہتا ہے آخرت اور اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے
ربطِ آیات : گذشتہ آیات میں جہاد کی ترغیب کا ذکر تھا اسلام کے ابتدائی زمانہ میں اہل ایمان کی تعداد بالکل قلیل تھی اور دشمنوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اس وقت اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو اپنے سے دس گنا طاقتور دشمن کے ساتھ مقابلہ کرنے کا حکم دیا۔ پھر جب مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم میں تخفیف کردی اور فرمایا کہ تم اپنے سے دگنے دشمن کی ساتھ بھی ٹکرا جائو اور ان کے مقابلہ سے بھاگنے کی اجازت نہیں ہاں اگر دشمن اس سے زیادہ تعداد مثلا تین چار گنا زیادہ ہو تو پھر مقابلے سے اعراض کرنے پر کوئی مواخذہ نہیں ہوگا۔ اللہ نے دشمن سے مقابلے کے لیے یہ نسبت مقرر فرما دی۔ غزوہ بدر کے مسائل : (1) غنیمت : غزوہ بدر اسلام میں پہلا بڑا جنگی معرکہ تھا۔ اس کے نیتجے میں مسلمانوں کے سامنے بعض مسائل پہلی دفعہ آئے جن کا حل اللہ تعالیٰ کی طرف سے مطلوب تھا۔ ان میں دو بڑے مسائل تھے ، ایک مال غنیمت کا مسئلہ اور دوسرا جنگی قیدیوں کا مسئلہ تھا۔ غنیمت کا مسئلہ جنگ کے فورا بعد پیا ہوا جس کا اجمالی ذکر سورة ہذا کی ابتدائی آیت میں ہوچکا ہے مجاہدین کے مختلف گروہوں نے مال غنیمت پر اپنا حق جتلایا ۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس کا بنیادی قانون نازل فرمایا ا اور پھر آگے چل کر اس کی تقسیم کا اصول بھی تفصیل کے ساتھ بیان فرمادیا۔ یہ بات پہلے دروس میں بھی ذکر کی جا چکی ہے کہ سابقہ امتوں کے لیے مال غنیمت حلال نہیں تھا۔ قرآن پاک میں موسیٰ (علیہ السلام) اور دائود (علیہ السلام) وغیرہ کے جہاد کا ذکر موجود ہے مگر جب جنگ کے نتیجے میں ان کے پاس مال غنیمت جمع ہوتا تھا تو اسے ایک خاص مقام پر رکھ دیا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے آگ نازل ہوتی تھی جو اس مال کو جلا کر راکھ دیتی ہے اگر اللہ کے راستے میں کیا گیا جہاد بارگاہ رب العزت میں مقبول ہوتا تھا تو مال غنیمت جل جاتا تھا اور اگر اس مال کو آگ نہ جلاتی تو سمجھ لیا جاتا ہے کہ جہاد میں کوئی خرابی رہ گئی ہے ، لہٰذا اس کی اسلاح کی جاتی۔ حضور ﷺ کا فرمان بھی ہے کہ مجھ سے پہلے کسی امت کے لیے مال غنیمت حلال نہیں تھا ، پھر اللہ نے ہماری کمزوری کے پیش نظر اس کو ہمارے لیے مباح قرار دے دیا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور ﷺ کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اللہ نے آپ کے لیے اور آپ کی امت کے لیے مال غنیمت کو حلال قراردیا ہے بہرحال غزوہ بدر میں یہ پہلا مسئلہ پیش آیا تھا ، جس کا اللہ نے حل نازل فرمایا جو گذشتہ دورس میں بیان ہوچکا ہے۔ (2) جنگی قیدی : اس جنگ کے سلسلے میں جو دوسرا مسئلہ پیش آتا وہ جنگی قیدیوں کا تھا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ جنگ بدر میں کفار کے ستر سرکردہ آدمی مارے گئے اور تقریبا اتنے ہی قیدی بنا لیے گئے۔ جب یہ مسئلہ پیدا ہوا تو اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو آزمانا چاہا۔ چناچہ جبرائیل (علیہ السلام) نے حضور کی خدمت میں آکر کہا کہ اس معاملہ میں آپ اپنے ساتھیوں کو اختیار دے دیں کہ وہ چاہیں تو ان قیدیوں کو قتل کردیں یا ان سے فدیہ لے کر آزاد کردیں جبرائیل (علیہ السلام) نے واضح کردیا تھا کہ اگر مسلمان فدیہ لینا پسند کریں تو اس کے ساتھ شرط یہ ہوگئی کہ آئندہ معرکہ میں اتنی ہی تعداد میں مسلمان بنی شہید ہوں گے۔ غرضیکہ حضور ﷺ نے صحابہ کرام کو دو مٰن سے کوئی ایک صورت اختیار کر نیکی دعوت دیدی حضرت ابو بکرصدیق ؓ اور صحابہ ؓ کی غالب اکثریت نے یہ رائے ظاہر کی کہ قیدیوں میں سے اکثر ہمارے رشتہ دار ہینی امید ہے کہ یہ لوگ ضرور ایمان لے آئیں گے لہٰذا ان کو قتل کرنے کے بجائے ان سے فدیہ وصول کر کے چھوڑ دیا جائے۔ اس طرح مسلمانوں کی مالی حالت بھی بہتر ہوجائے گی۔ تا ہم حضرت عمر رض ، عبداللہ بن رواحہ رض ، سعد بن معاذ رضی ، اور بعض دیگر صحابہ کا موقف یہ تھا کہ ان لوگوں نے ہم پر برے ظلم کیے ہیں۔ اب اللہ نے ان پر ہمیں تسلط عطا کیا ہے تو ان ختم کردینا ہی بہتر ہے تا کہ ان کا ذور ٹوٹ جائے اور مسلمانوں کا رعب و دبدبہ اطراف عرب میں پھیل جائے۔ ان حضرات نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ کسی موزون وادی میں بہت سی لکڑیاں اکٹھی کر کے ان قیدیوں کو زندہ جلا دیا جائے۔ بہرحال صحابہ ؓ کی غالب اکثریت فدیہ کے حق میں تھی اور خود حضور ﷺ کا جھکائو بھی اسی طرف تھا۔ عتاب اور درگزر : بالآخر کثرت رائے کی بنیاد پر بھی فیصلہ فدیہ لینے کے حق میں ہوگیا۔ چونکہ یہ فیصلہ منشائے ایزدی سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ اس لیے ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عتاب نازل ہوا ہے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ما کان لنبی ان یکون لہ اسری “ نبی کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ اس کے قیدی ہوں (آیت) ” حتی یثخن فی الارض “ یہاں تک کہ وہ زمین میں خونریزی کرے۔ اثخان کا معنی قوت کے ساتھ خونریزی کرنا ہوتا ہے اور مطلب یہی ہے کہ کفار کو قیدی بنانے کی بجائے ان کو قتل کردینا بہتر تھا۔ ان آیات کے نزول پر خود حضور ﷺ ، حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور دوسرے صحابہ بھی پریشان ہوئے کہ انہوں نے غیر بہتر صورت اختیار کی ہے تا ہم ایسا ہونا چونکہ اللہ کی حکمت میں پہلے لکھا جا چکا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس لغزش سے درگزر فرمایا۔ محدثین اور فقہاء کرام بیان کرتے ہیں کہ یہ عتاب حضور ﷺ اور صحابہ کرام کی طرف غیر بہتر صورت کی جاتی تو مذکورہ عتاب نہ آتا اس قسم کے واقعات میں حضور ﷺ کا واقعہ معراج بھی ہے جب آپ کے سامنے دودھ اور شراب کے دو پیالے پیش کیے گئے اور کوئی ایک پیالہ نوش کرنے کا اختیار دیا گیا۔ اس موقع پر حضور ﷺ نے بہتر صورت اختیار کرتے ہوئے دودھ کا پیالہ پسند فرمایا۔ ادھر اللہ کی طرف سے حکم ہوا کہ اگر آپ شراب کا پیالہ پسند فرماتے تو آپ کی امت گمراہ ہوتی۔ اسی طرح قرآن پاک میں امہات المومنین ؓ کے متعلق بھی ذکر موجود ہے کہ اللہ کے حکم سے حضور ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات کو اختیار دے دیا کہ وہ چاہیں تو آپ کے نکاح میں رہیں اور اگر چاہیں تو علیحدگی اختیار کر لین اس موقت پر بھی امہات المومنین ؓ نے حضور ﷺ سے علیحدگی پسند نہیں کی کیونکہ یہ غیر بہتر بات تھی۔ انہوں نے اللہ کی منشاء کے مطابق حضور ﷺ کے نکاح میں رہنا قبول کیا اور یہی بہتر بات تھی۔ غزوہ بدر کے واقعہ میں قیدیوں کے متعلق اگر بہتر صورت اختیار کرلی جاتی تو اچھا تھا ان کو قتل کردینا ہی بہتر تھا تا کہ کفار کا زور ٹوٹ جاتا اور مسلمانوں کی دھاک بیٹھ جاتی مگر بعض مسلمانوں نے مال کے حصول کی خاطر فدیہ لینے کو قبول کیا اور اس وجہ سے اللہ کا عتاب آیا۔ تا ہم بعد میں اللہ تعالیٰ نے اس غیر اولیٰ چیز کو اختیار کرنے کی معافی دے دی۔ البتہ فدیہ لینے کا نتیجہ یہ ضرور نکلا کہ غزوہ احد میں مسلمانوں کے ستر جلیل القدر صحابہ ؓ نے جام شہادت نوش فرمایا ، جن میں حضرت حمزہ ؓ اور عمیررض بھی شامل تھے اگر اس بات کا اشارہ پہلے کیا جا چکا تھا مگر صحابہ کرام ؓ نے اس میں بھی بہتری ہی سمجھی کہ شہداء کے درجات آخرت میں بہت بلند ہوجائیں گے لہٰذا یہ بھی نفع کا سودا ہی ہے بہرحال اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیدیوں کا قتل کیا جانا ہی اولیٰ تھا۔ دنیا یا آخرت : اللہ نے فدیہ کی ناپسندیدگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا (آیت) ” تریدون عرض الدینا “ اے اہل ایمان ! تم دنیا کا سامان چاہتے ہو کیونکہ تم نے فدیہ کو قبول کیا ہے (آیت) ” واللہ یرید الاخرۃ “ جب کہ اللہ تعالیٰ آخرت کو پسند کرتا ہے تا کہ اس میں تمہارے درجات بلند ہوں اور تمہیں بہتری حاصل ہو۔ (آیت) ” واللہ عزیز حکیم “ اللہ تعالیٰ کمال قدرت کا مالک اور حکمت سے خالی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے عتاب کے ذکر کرتے ہوئے حضور ﷺ نے ایک درخت کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ خدا کا عتاب یہاں تک آگیا تھا اگر یہ عذاب نازل ہوجاتا تو حضرت عمر ؓ حضرت عبد اللہ بن رواحہ رض ، حضرت سعد بن معاذرض اور چند دیگر صحابہ کے علاوہ اس سے کوئی نہ بچتا اللہ تعالیٰ نے یہاں تک کردیا تھا مگر پھر درگزر فرما کر اس عذاب کو ہٹا دیا۔ فرمایا (آیت) ” لولا کتٰب من اللہ سبق لمسکم فیما اخذتم عذاب عظیم “ اگر نہ ہوتی اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک بات لکھی ہوئی جو پہلے ہوچکی ہے تو ضرور پہنچتا تم کو اس چیز میں جو تم نے لیا ہے عذاب۔ یعنی اگر خدا کے علم اور نوشتے میں یہ بات نہ ہوتی تو قیدیوں کو قتل کرنا ہی بہتر تھا مگر مسلمانوں نے اپنی غیر بہتر بات کو اختیار کیا جو اللہ کے علم میں لکھی ہوئی تھی کہ رہائی پانے والے قیدیوں کی اکثریت بعد میں اسلام لے آئے گی اس کا اشارہ اگلی آیت میں بھی موجود ہے اور دوسری لکھی ہوئی بات یہ تھی کہ فدیہ لینے کی اجازت بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں طے شدہ بات تھی کہ وہ بھی اس آخری امت کو حاصل ہوگی۔ سورة قتال میں بھی موجود ہے (آیت) ” فاما منا بعد واما فداء “ کہ قیدیوں کو یا ان پر احسان کرتے ہوئے چھوڑ دیں یا فدیہ قبول کرلیں۔ اسی طرح قیدیوں کا تبادلہ بھی ہو سکتا ہے اور ان کو غلام بھی بنایا جاسکتا ہے اسلام میں یہ چاروں صورتیں روا ہیں۔ بہر حال اللہ نے فرمایا کہ جنگی قیدیوں کے فدیہ کے عوض رہا کردینے میں بھی اللہ کے ہاں یہ لکھی ہوئی مصلحت موجود تھی ، لہٰذا اللہ نے غیر بہتر صورت اختیار کرنے پر درگزر فرمایا۔ اگر اللہ کی مصلحت میں ایسا نہ ہوتا تو اس کی طرف سے سخت گرفت آجاتی۔ غنیمت پاکیزہ ترین مال ہے : الغرض ! اللہ تعالیٰ نے مال غنیمت کو حلال قرار دیکر فرمایا (آیت) ” فکلوا مما غنمتم حلٰلا طیبا “ پس کھائو اس میں سے جو تمہیں غنیمت دیا گیا یہ تمہارے لیے حلال اور پاکیزہ ہے یہ پہلی امتوں کے لیے حرام تھا۔ مگر تمہارے لیے پاک ہے بلکہ تمام مالوں میں سب سے پاک مال یہی ہے طبرانی شریف کی روایت میں آتا ہے حضور ﷺ نے فرمایا ” جعلت رزقی تحت ظل رمحی “ اللہ نے میری روزی نیزے کے نیچے رکھی ہے۔ محدثین کرام پاکیز ہ روزی کے متعلق بحث کرتے ہیں کہ پہلے نمبر پر پاکیزہ ترین روزی مال غنیمت ہے اس کے بعد دوسرا نمبر تجارت کے مال کا ہے ایسی تجارت جو صحیح طریقے سے کی جائے۔ پھر تیسرا نمبر کاشتکاری کا ہے کہ اس میں اللہ کی ذات پر توکل کیا جاتا ہے اس کے بعد عام کسب حلال چوتھے نمبر پر آتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے مال غنیمت کے پانچ حصے کرو۔ ان میں سے چار حصے جہاد میں حصہ لینے والے غازیوں میں تقسیم کر دو اور پانچویں حصہ میں نبی ( اگر موجود ہے) اس کے قرابتدار ( نبی کی موجودگی میں ) یتیم ، مسکین اور مسافر شامل ہیں اگر نبی موجود نہیں تو پھر صرف تین مدات رہ اجائیگی ۔ یعنی یتیم ، مسکین اور مسافر۔ فرمایا (آیت) ” واتقو اللہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ یہ بات ہمیشہ پیش نظر رہے کہ کوئی کام اس کی منشاء کے خلاف نہ ہوجائے۔ اس موقع پر مطلب یہ ہے کہ مال غنیمت کی تقسیم میں اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ قانون کی پوری پوری پاسداری کرو اور کسی کے حق میں کمی بیشی نہ کرو ، ورنہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والی بات ہے ایسے موقع پر اگر غیر اولیٰ بات اختیار کرلی گئی تو اللہ تعالیٰ کا عتاب آئیگا۔ اسی لیے فرمایا کہ ہر وقت خدا تعالیٰ سے ڈرتے رہو کہ اس کی نافرمانی نہ ہوجائے اور اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو گے تو یاد رکھو (آیت) ” ان اللہ غفور رحیم “ وہ بخشنے والا اور نہایت مہربان ہے خوفِ خدا ہوگا تو وہ چھوٹی موٹی غلطیوں کو معاف کرتا رہے گا غفور مبالغہ کا صیغہ ہے اور اس کا معنی بہت زیادہ معاف کرنے والا ہے اور رحیم یعنی بہت زیادہ مہربان ہے ۔ وہ دیکھتا ہے کہ کسی دل میں اطاعت کا جذبہ موجود ہے یا نہیں اور یہ بھی کہ کوئی شخص دغابازی تو نہیں کر رہا جو شخص نیت اور عمل میں اخلاص رکھتا ہے تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ نہایت بخشش کرنے والا اور از حد مہربان ہے۔
Top