Madarik-ut-Tanzil - Yunus : 13
وَ لَقَدْ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا١ۙ وَ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ وَ مَا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا١ؕ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْقَوْمَ الْمُجْرِمِیْنَ
وَلَقَدْ اَهْلَكْنَا : اور ہم نے ہلاک کردیں الْقُرُوْنَ : امتیں مِنْ : سے قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَمَّا : جب ظَلَمُوْا : انہوں نے ظلم کیا وَجَآءَتْھُمْ : اور ان کے پاس آئے رُسُلُھُمْ : ان کے رسول بِالْبَيِّنٰتِ : کھلی نشانیوں کے ساتھ وَمَا : اور نہ كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْا : ایمان لاتے تھے كَذٰلِكَ : اسی طرح نَجْزِي : ہم بدلہ دیتے ہیں الْقَوْمَ : قوم الْمُجْرِمِيْنَ : مجرموں کی
اور تم سے پہلے ہم کئی امتوں کو جب انہوں نے ظلم اختیار کیا ہلاک کرچکے ہیں۔ اور ان کے پاس پیغمبر کھلی نشانیاں لے کر آئے مگر وہ ایسے نہ تھے کہ ایمان لاتے۔ ہم گنہگار لوگوں کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں۔
مکذین کا انجام ہلاکت : 13: وَلَقَدْ اَھْلَکْنَا الْقُرُوْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ (بیشک ہم نے تم سے پہلے بہت سے اہل زمانہ کو ہلاک کیا) کم ؔ سے اہل مکہ کو مخاطب فرمایا گیا ہے لَمَّا ظَلَمُوْا (جب انہوں نے ظلم کیا) ظلم سے یہاں شرک مراد ہے یہ اہلکنا کا ظرف ہے۔ وَجَآ ئَ تْھُمْ رُسُلُھُمْ وائوؔ حالیہ ہے (حالانکہ ان کے رسول ان کے پاس) مطلب یہ ہے کہ تکذیب کر کے انہوں نے ظلم کیا حالانکہ ان کے رسول ان کے پاس بِالْبَیِّنٰتِ معجزات لائے وَمَا کَانُوْا لِیُؤْ مِنُوْا ( وہ نہ تھے ایسے کہ مانتے) اگر وہ باقی رہتے اور ہلاک نہ کئے جاتے کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں جانتے تھے کہ وہ کفر پر اصرار کرتے رہیں گے۔ نحو : اس کا عطف ظلموا ؔ پر ہے یا یہ جملہ معترضہ ہے اور اس میں لام نفی تاکید کیلئے ہے مطلب یہ ہوا کہ ان کی ہلاکت کا اصل سبب انکا رسولوں کی تکذیب کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے علم ازلی سے جانتے ہیں کہ ان کو مہلت دینے میں کوئی فائدہ نہیں۔ کیونکہ نبوت کے ذریعہ ان پر اتمام حجت کردی گئی ہے۔ کَذٰلِکَ (اسی طرح) ہلاکت جیسی سزا نَجْزِی الْقَوْمَ الْمُجْرِمِیْنَ (ہم سزا دیا کرتے ہیں مجرمین کو) اس میں اہل مکہ کو رسول اللہ ﷺ کی تکذیب کے جرم پر ڈرایا گیا ہے (کہ باز آئو ورنہ تمہارا انجام ان لوگوں سے مختلف نہ ہوگا) ۔
Top