Madarik-ut-Tanzil - Al-Anbiyaa : 47
وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًا١ؕ وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَا١ؕ وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ
وَنَضَعُ : اور ہم رکھیں گے (قائم کرینگے) الْمَوَازِيْنَ : ترازو۔ میزان الْقِسْطَ : انصاف لِيَوْمِ : دن الْقِيٰمَةِ : قیامت فَلَا تُظْلَمُ : تو نہ ظلم کیا جائے گا نَفْسٌ : کسی شخص پر شَيْئًا : کچھ بھی وَ اِنْ : اور اگر كَانَ : ہوگا مِثْقَالَ : وزان۔ برابر حَبَّةٍ : ایک دانہ مِّنْ خَرْدَلٍ : رائی سے۔ کا اَتَيْنَا بِهَا : ہم اسے لے آئیں گے وَكَفٰى : اور کافی بِنَا : ہم حٰسِبِيْنَ : حساب لینے والے
اور ہم قیامت کے دن انصاف کی ترازو کھڑی کریں گے تو کسی شخص کی ذرا بھی حق تلفی نہ کی جائے گی اور اگر رائی کے دانے کے برابر بھی (کسی کا عمل) ہوگا تو ہم اس کو لاحاضر کریں گے اور ہم حساب کرنے کو کافی ہیں
میزانِ عدل رکھنا : 47: وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ (اور ہم میزان عدل قائم کریں گے) الموازین جمع میزان ہے۔ ہر وہ آلہ جس سے کسی چیز کا وزن کیا جائے اور اس چیز کی کمیت و مقدار معلوم کی جائے۔ بقول حضرت حسن (رح) وہ ایسا میزان ہے جس کے دو پلڑے ہیں۔ اور ایک لسان ہے اور جمع عظمت شان کی وجہ سے لائے جیسا کہ اس قول میں یا ایھا الرسل میں ہے ] المؤمنون : 51 [ ایک قول کے مطابق وزن صحائف ِاعمال کا کیا جائے گا۔ الْقِسْطَ (انصاف) موازین کی صفت قسط سے کی گئی اور وہ عدل کو کہا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ بات مبالغہ کو ظاہر کرنے کیلئے ہے گویا وہ ترازو خودمجسمہ انصاف ہے۔ نمبر 2۔ مضاف محذوف ہے۔ ای ذوات القسط انصاف والے ترازو۔ لِیَوْمِ الْقِیٰـمَۃِ (قیامت کے دن کی وجہ سے) اہل قیامت کیلئے یعنی لام اجلیہ ہے۔ فَـلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًا (کسی نفس پر ذرا بھر ظلم نہ ہوگا) ذرا سا ظلم بھی نہ ہوگا۔ وَ اِنْ کَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ (اور اگر اس کا عمل رائی کے دانے کے برابر ہوگا) یعنی وہ چیز مقدار میں رائی کے دانہ کے بر ابر چھوٹی ہو۔ قراءت : مدنی نے مثقال کو رفع سے پڑھا ہے اور سورت لقمان میں بھی اس طرح پڑھا اور کانؔ کو تامہ ؔ قرار دیا۔ نحو : من خردل (رائی کا) یہ حبۃ کی صفت ہے۔ اَتَیْنَا بِھَا (ہم اس کو لے آئیں گے) حاضر کردیں گے۔ یہاں ھاؔ ضمیر مثقال کی طرف راجع ہے جو کہ مذکر ہے مگر ضمیر مونث ہے۔ تو اس کی وجہ یہ ہے اس کا مضاف الیہ حبۃٌ مونث ہے۔ جیسا کہ عرب کا قول ہے۔ ذھبت بعض اصابعھم۔ وَکَفٰی بِنَا حَاسِبِیْنَ (اور ہم حساب لینے والے کافی ہیں) علم رکھنے والے اور حفاظت کرنے والے ہیں (کوئی شئی ہمارے علم و حفاظت سے نکل نہیں سکتی) قول ابن عباس ؓ : کیونکہ جو آدمی کسی چیز کا حساب کرتا ہے اور وہ اس کا علم بھی رکھتا ہوتا ہے اور اس کے حفاظت میں بھی وہ چیز محفوظ ہوتی ہے۔
Top