Madarik-ut-Tanzil - An-Naml : 32
قَالَتْ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِیْ فِیْۤ اَمْرِیْ١ۚ مَا كُنْتُ قَاطِعَةً اَمْرًا حَتّٰى تَشْهَدُوْنِ
قَالَتْ : وہ بولی يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤُا : اے سردارو ! اَفْتُوْنِيْ : مجھے رائے دو فِيْٓ اَمْرِيْ : میرے معاملے میں مَا كُنْتُ : میں نہیں ہوں قَاطِعَةً : فیصلہ کرنے والی اَمْرًا : کسی معاملہ میں حَتّٰى : جب تک تَشْهَدُوْنِ : تم موجود ہو
(خط سنا کر) کہنے لگی کہ اہل دربار میرے اس معاملہ میں مجھے مشورہ دو جب تک تم حاضر نہ ہو (اور اصلاح نہ دو ) میں کسی کام کو فیصل کرنے والی نہیں
32: قَالَتْ یٰٓاَیُّہَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِیْ فِیْ اَمْرِیْ (اس نے کہا اے سردارو ! میرے معاملہ میں مجھے مشورہ دو ) ۔ یعنی اب پیش آنے والے معاملہ میں مشورہ دو ۔ ملکہ کی مشاورت : الفتوی : حادثے کے جواب کو کہا جاتا ہے۔ یہ الفتاء فی السن سے بطور استعارہ مشتق کیا گیا ہے اور یہاں فتوی سے مراد اپنی رائے سے مشورہ دینا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے تاکہ ان سے مشورہ لے کہ ان کے دل خوشی سے اس کی طرف مائل ہوجائیں اور وہ بھی اس کے شانہ بشانہ کھڑے ہوجائیں۔ مَا کُنْتُ قَاطِعَۃً اَمْرًا (اور میں کسی بات کا قطعی فیصلہ نہیں کرتی) ۔ قاطعۃً کا یہاں معنی فاصلۃ ہے یا حکم دے ڈالنا حَتّٰی تَشْہَدُوْنِ (جب تک کہ تم میرے پاس موجود نہ ہو) ۔ قراءت۔ نون کے کسرہ کے ساتھ فتحہ پڑھنا اس میں لحن ہے کیونکہ نون مفتوح رفع کے مقام پر ہوتی ہے اور یہ مقام نصب ہے۔ یہ اصل میں تَشْہَدُوْنَنِیْ ہے۔ پہلی نون کو نصب کی وجہ سے حذف کیا اور یاء کو اس لئے حذف کیا کہ کسرہ اس پر دلالت کر رہا ہے۔ یعقوب نے وصل ووقف میں یاء کے ساتھ پڑھا ہے۔ معنی آیت کا یہ ہے کہ : یہاں تک کہ تم میرے پاس موجود نہ ہو یا مجھے مشورہ نہ دے دو اور اس بات کی درستی پر گواہ نہ بن جائو۔ مطلب یہ تھا میں تمہاری موجود گی کے بغیر کسی معاملے کو طے نہیں کرتی۔ ایک قول یہ ہے کہ اس کو مشورہ دینے والوں کی تعداد تین سو تیرہ آدمی تھے۔ جن میں سے ہر ایک دس ہزار پر نگران تھا۔
Top