Ashraf-ul-Hawashi - At-Tawba : 40
لَیْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْهِمْ اَوْ یُعَذِّبَهُمْ فَاِنَّهُمْ ظٰلِمُوْنَ
لَيْسَ لَكَ : نہیں ٓپ کے لیے مِنَ : سے الْاَمْرِ : کام (دخل) شَيْءٌ : کچھ اَوْ يَتُوْبَ : خواہ توبہ قبول کرے عَلَيْھِمْ : ان کی اَوْ : یا يُعَذِّبَھُمْ : انہیں عذاب دے فَاِنَّھُمْ : کیونکہ وہ ظٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
(اے پیغمبر ﷺ اس کام میں تمہارا کچھ اختیار نہیں (اب دو صورتیں ہیں) یا خدا ان کے حال پر مہربانی کر کے یا انہیں عذاب دے کہ یہ ظالم لوگ ہیں
تمام اختیارات کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے : 128: لَـیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْئٌ اَوْیَتُوْبَ عَلَیْھِمْ اَوْیُعَذِّبَھُمْ فَاِنَّھُمْ ظٰلِمُوْنَ ۔ (آپ کو اس امر کا کوئی اختیار نہیں) نحو : لَیْسَ کا اسم شَیْئٌ ہے اور لَکَ اسکی خبر ہے اور مِنَ الْاَمْرِ یہ شَیْئٌ کا حال ہے کیونکہ وہ صفت ہے جس کو پہلے لا یا گیا ہے۔ اَوْیَتُوْبَ عَلَیْھِمْ (یا ان کی توبہ قبول کرے) : اس کا عطف لِیَقْطَعَ طَرَفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَوْیَکْبِتَہُمْ پر ہے۔ اور لَیْسَ لَکَ جملہ معترضہ ہے۔ جو معطوف علیہ اور معطوف کے درمیان حائل ہوگیا ہے۔ مطلب آیت کا یہ ہے اللہ تعالیٰ ان کے معاملے کا مالک ہے خواہ ان کو ہلاک کر دے یا شکست سے دو چار کرے یا انکی توبہ قبول کرلے کہ وہ اسلام لے آئیں۔ اَوْیُعَذِّبَھُمْ (یا ان کو عذاب دے) اگر وہ کفر پر مصر رہیں اور آپ کو ان کے معاملے کا کچھ اختیار نہیں۔ آپ تو مبعوث بندے ہیں تاکہ ان کو ڈرائیں اور ان سے جہاد کریں۔ نحو : فراء نحوی کے ہاں اوؔ۔ حَتّٰیکے معنی میں ہے۔ اور ابن عیسیٰ کے نزدیک الا ان کے معنی میں ہے۔ جیسا تم کہو : لالزمنک اوتعطینی حَقِّیْ ۔ اب مطلب آیت کا یہ ہوگا۔ آپ کو ان کے معاملے میں کچھ اختیار نہیں مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ انکی توبہ قبول کرلے پس آپ انکی حالت پر خوش ہوں۔ یا پھر ان کو سزا دے تاکہ ان سے پلڑا چھوٹ جائے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے ان کے متعلق بددعا کا ارادہ فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے روک دیا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتے تھے کہ ان میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ایمان لائیں گے۔ فَاِنَّھُمْ ظٰلِمُوْنَ (پس بیشک وہ ظالم ہیں) یعنی مستحق سزا ہیں۔
Top