Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Dure-Mansoor - At-Tawba : 40
اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا١ۚ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلَیْهِ وَ اَیَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِیْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰى١ؕ وَ كَلِمَةُ اللّٰهِ هِیَ الْعُلْیَا١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
اِلَّا تَنْصُرُوْهُ
: اگر تم مدد نہ کرو گے اس کی
فَقَدْ نَصَرَهُ
: تو البتہ اس کی مدد کی ہے
اللّٰهُ
: اللہ
اِذْ
: جب
اَخْرَجَهُ
: اس کو نکالا
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ
كَفَرُوْا
: جو کافر ہوئے (کافر)
ثَانِيَ
: دوسرا
اثْنَيْنِ
: دو میں
اِذْ هُمَا
: جب وہ دونوں
فِي
: میں
الْغَارِ
: غار
اِذْ
: جب
يَقُوْلُ
: وہ کہتے تھے
لِصَاحِبِهٖ
: اپنے س ا تھی سے
لَا تَحْزَنْ
: گھبراؤ نہیں
اِنَُّ
: یقیناً
اللّٰهَ
: اللہ
مَعَنَا
: ہمارے ساتھ
فَاَنْزَلَ
: تو نازل کی
اللّٰهُ
: اللہ
سَكِيْنَتَهٗ
: اپنی تسکین
عَلَيْهِ
: اس پر
وَاَيَّدَهٗ
: اس کی مدد کی
بِجُنُوْدٍ
: ایسے لشکروں سے
لَّمْ تَرَوْهَا
: جو تم نے نہیں دیکھے
وَجَعَلَ
: اور کردی
كَلِمَةَ
: بات
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
كَفَرُوا
: انہوں نے کفر کیا (کافر)
السُّفْلٰى
: پست (نیچی)
وَكَلِمَةُ اللّٰهِ
: اللہ کا کلمہ (بول)
ھِىَ
: وہ
الْعُلْيَا
: بالا
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
عَزِيْزٌ
: غالب
حَكِيْمٌ
: حکمت والا
اگر تم اس کے رسول کی مدد نہ کرو تو اللہ نے ان کی مدد کی ہے جبکہ ان کو کافروں نے نکال دیا تھا۔ جبکہ وہ دو آدمیوں میں سے ایک تھے جبکہ وہ دونوں غار میں تھے جبکہ وہ اپنے ساتھی سے فرما رہے تھے کہ غم نہ کرو بلاشبہ اللہ ہمارے ساتھ ہے، پھر اللہ نے آپ پر اپنا سکینہ نازل فرمایا اور ایسے لشکروں کے ذریعہ آپ کی مدد فرمائی جنہیں تم نے نہیں دیکھا اور اللہ نے ان لوگوں کی بات نیچی کردی جو کفر اختیار کئے ہوئے تھے اور اللہ کی بات اونچی ہی ہے اور اللہ عزت والا ہے حکمت والا ہے
1:۔ ابن ابی شیبہ وابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” الا تنصروہ فقد نصرہ اللہ ‘ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی پہلی حالت کو بیان فرمایا کہ یہاں تک کہ پھر آپ کو بھیجا اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں میں خود آپ کو ایسی ہی مدد کروں گا جیسے کہ میں نے اس وقت کی جب آپ دو میں سے دوسرے تھے۔ ہجرت مدینہ کا ذکر : 2:۔ ابن منذر وابن ابی شیبہ واحمد البخاری ومسلم وابن ابی حاتم نے براء عازب ؓ سے روایت کیا کہ ابوبکر ؓ نے عازب سے ایک ٹانگ تیرہ درہم میں خریدی اور عازب سے فرمایا کہ براء سے کہا کہ وہ اس کو میرے گھر تک پہنچا دے اس نے کہا نہیں یہاں تک کہ ہم کو بیان فرمائیں آپ نے کس طرح کیا تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ نکلے (ہجرت کے لئے) اور آپ کے ساتھ ابوبکر ؓ نے فرمایا ہم نکلے ہم نے شروع رات میں سفر کیا ایک رات اور ایک دن ہم نے سواری کو تیز دوڑایا، یہاں تک کہ وہ سفر ہم پر غالب آگیا اور ہم دوپہر گزرنے کے لئے رک گئے میں نے اپنی آنکھ کو دوڑایا تاکہ کوئی سایہ دیکھوں اور اس میں آرام کرلوں میری نظر ایک چٹان پر پڑی تو میں اس کی طرف گیا اچانک اس کا سایہ (تھوڑا سا) باقی تھی میں نے اس جگہ کو رسول اللہ ﷺ کے لئے برابر کیا اور آپ کے لئے میں نے ایک کمبل بچھا دیا میں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ آپ آرام فرمائیں تو آپ لیٹ گئے پھر میں باہر نکلا یہ دیکھنے کے لئے کیا میں کسی کی تلاش کرنے والے کو دیکھتا ہوں اچانک میں نے ایک بکریاں چرانے والے کو دیکھا میں نے اس سے پوچھا اے لڑکے تو کون ہے تو اس نے قریش میں سے ایک آدمی کا نام لیا۔ میں اس کو پہچانتا تھا۔ اور میں نے کہا کیا تیری بکریوں میں کوئی دودھ والی ہے۔ اس نے کہا کیا تو مجھے دودھ دے گا اس نے کہا ہاں میں نے اس کو دودھ کا حکم دیا ان میں سے ایک بکری کو پکڑ لایا۔ پھر میں نے اس کو حکم دیا کہ اس کے تھنوں کو غبار سے جھاڑ دے پھر میں نے اس کو حکم دیا کہ اپنی ہتھیلیوں کو بھی جھاڑ لے اور میرے پاس چمڑے کا ایک برتن تھا کہ اس کے منہ پر کپڑے کا ایک ٹکڑا تھا، اس نے میرے لئے تھوڑا سا دودھ دوھ دیا میں نے اسے پانی کے پیالے میں ڈالا یہاں تک کہ اس کے نیچے کا حصہ ٹھنڈا ہوگیا۔ پھر میں رسول اللہ ﷺ کے پاسآیا اور میں کھڑا رہا یہاں تک کہ آپ جاگ گئے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! پی لیجئے آپ ﷺ نے پی لیا اور مجھے انتہائی رغبت اور خوشی ہوئی پھر میں نے عرض کیا کیا چلنے کا وقت ہوگیا ہے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے بیان فرمایا ہم چل پڑے۔ اور قوم ہم کو تلاش کررہی تھی ہم کو کسی نے نہیں پایا ان میں سے مگر سراقہ نے جو اپنے گھوڑے پر تھا میں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ یہ تلاش کرنے والا ہم کو مل گیا آپ نے فرمایا غم مت کر بیشک اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ یہاں تک کہ جب (یہ تلاش کرنے والا) قریب ہوا۔ ہمارے اور اس کے درمیان ایک یا دو یا تین نیزوں کے بقدر فاصلہ رہ گیا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ تلاش کرنے والا آپہنچا ہے اور میں رونے لگا آپ نے فرمایا کیوں روتے ہو میں نے عرض کیا اللہ کی قسم میں اپنی جان پر نہیں روتا بلکہ میں آپ پر روتا ہوں تو رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی ” اللہم الفنا بما شئت “ (اے اللہ جیسے چاہے اس سے حفاظت فرما) (دعا قبول ہوئی) اور اس کا گھوڑا اس کے پیٹ تک دھنس گیا سخت زمین میں اور وہ (یعنی سوار) اس سے کود پڑا اور کہا اے محمد یہ آپ کا عمل ہے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نجات دیدے اس عذاب سے جس میں میں ہوں اللہ کی قسم میں ضرور بھٹکا دوں گا اپنے پیچھے تلاش میں آنے والے کو اور یہ میرا ترکش ہے اس میں سے تیر لے لیجئے۔ اور آپ عنقریب میرے اونٹوں اور میری بکریوں سے فلاں فلاں جگہ سے گزرو گے آپ اس میں سے اپنی ضرورت کے مطابق لے لیجئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس میں میری کوئی ضرورت نہیں اور رسول اللہ ﷺ نے ( اس کے لئے) دعا فرمائی۔ تو وہ آزاد ہوگیا اور اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گیا۔ رسول اللہ ﷺ روانہ ہوئے تو ہم بھی آپ کے ساتھ سفر کرتے رہے یہاں تک کہ ہم مدینہ منورہ پہنچ گئے لوگوں نے آپ کا استقبال کیا اور وہ لوگ راستوں پر اور مکانوں کی چھتوں پر آئے ہوئے تھے۔ خدام اور بچے راستوں میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہے تھے اللہ تعالیٰ کے رسول تشریف لے آئے قوم (یعنی انصار صحابہ) نے آپس میں جھگڑا کیا کہ جن کے ہاں آپ مہمان بنیں گے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آج بنونجار کے پاس قیام کروں گا (کیونکہ) وہ (دادا) عبدالمطلب کے ننھیال ہیں اس کا اکرام کرتے ہوئے جب کل صبح ہوگئی تو جیسے حکم دیا جائے گا (وہاں قیام کریں گے) سراقہ بن مالک کا واقعہ : 3:۔ بخاری نے سراقہ بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ اور ابوبکر ؓ کو تلاش کرنے کے لئے نکلا یہاں تک کہ جب میں ان دونوں کے قریب ہوا میں اپنے گھوڑے سے ٹھوکر کھا کر گرپڑا میں کھڑا ہوا اور دوبارہ سوار ہوا یہاں تک کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو پڑھتے ہوئے سنا اور آپ ﷺ ادھر ادھر توجہ نہیں فرما رہے تھے اور ابوبکر ؓ کثرت سے توجہ کررہے تھے میرے گھوڑے کے دو پاوں زمین میں دھنس گئے یہاں تک کہ گھٹنوں تک پہنچ گئے۔ میں اس سے گرپڑا پھر میں نے اس کو جھڑکا تو وہ کھڑا ہوگیا مگر اپنے پاوں کو نہ نکال سکا۔ جب وہ کچھ سیدھا کھڑا ہوا تو اس کے آگے والے پاوں پر لگام کے نشان تھا جو چودہویں کی طرح آسمان کی طرف پھیلی ہوئی تھی۔ پس میں نے امان دینے کی درخواست کی وہ دونوں میرے لئے ٹھہرگئے جب میں نے ملاقات کی تو میرے دل میں ایک بات آئی کہ میں اس کو گرفتار نہیں کرسکتا عنقریب رسول اللہ ﷺ کا غلبہ ہوگا۔ 4:۔ ابن مردویہ اور ابو نعیم نے دلائل میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب ان کی آواز کو رسول اللہ ﷺ رات کو نکلے تو غار ثور پر پہنچے اور ان کے پیچھے ابوبکر ؓ بھی آپ کی یہ کیفیت دیکھی تو کھانسنے لگے جب ان کی آواز کو رسول اللہ ﷺ نے سنا تو پہنچان گئے تو ان کے لئے کھڑے ہوگئے یہاں تک کہ وہ پیچھے آگئے پھر یہ دونوں غار میں چلے گئے صبح کو قریش ان کی تلاش میں لگے اور انہوں نے بنومدیح میں ایک کھوجی کو بھیجا وہ قدموں کے نشانات کے پیچھے یہاں تک کہ غار تک پہنچ گیا اور غار کے دروازہ پر ایک درخت تھا اس کھوجی نے اس کی جڑ میں بیٹھ کر پیشاب کیا پھر کہنے لگا تمہارا وہ ساتھی جسے تم اس جگہ تلاش کررہے ہو اس نے اس جگہ کو عبور نہیں کیا۔ راوی نے کہا کہ اس وقت ابوبکر غمگین تھے رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا غم مت کر اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ راوی نے کہا آپ اور ابوبکر غار میں تین دن ٹھہرے عامر نے ان کو کھانا پہنچایا تھا اور حضرت علی ان کے لئے تیاری کرتے تھے انہوں نے بحرین کے اونٹوں سے تین اونٹ خرید لئے اور اس کے لئے ایک رہنمائی کرنے والے کو اجرت پر لیا جب تیسری رات کا کچھ حصہ گزر گیا تو اس کے پاس علی اونٹ کو اور رہنمائی کرنے والے کو لے پہنچے رسول اللہ ﷺ اپنی سواری پر سوار ہوئے اور ابوبکر ؓ دوسری پر اور مدینہ منورہ کی طرف چل پڑے اور قریش نے ان کو طلب میں کئی لوگ بھیج رکھے تھے۔ 5:۔ ابن سعد نے ابن عباس ؓ و علی و عائشہ بنت صدیقہ اور سراقہ بن جعشم ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ ان سب کی روایت ایک دوسرے میں جمع ہیں کہ رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے اور قوم (قریش) ان کے دروازہ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ آپ نے لب بھر کنکریاں لیں اور ان کے سروں پر پھینک دی اور یہ آیات پڑھیں (آیت) ” یسن (1) والقران الحکیم (2) “ اور گزر گئے ایک کہنے والے نے ان سے کہا کس کا تم انتظار کررہے ہو انہوں نے کہ محمد ﷺ کا اس نے کہا اللہ کی قسم وہ تم سے چلے گئے انہوں نے کہا اللہ کی قسم ہم نے ان کو نہیں دیکھا۔ اور وہ لوگ (اس حال میں) کھڑے ہوئے کہ اپنے سروں سے مٹی کو جھاڑ رہے تھے رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر ؓ غار ثور کی طرف نکلے اور اس میں داخل ہوگئے مکڑی نے اس کے منہ پر جالا تن دیا بعض گھونسلوں کو آپس میں ملاتے ہوئے قریش نے شدت کے ساتھ تلاش کیا یہاں تک کہ غار کے منہ پر پہنچ گئے ان کے بعض نے کہا کہ اس (غار) پر تو محمد ﷺ کی پیدائش سے بھی پہلے کا مکڑی کا جالا ہے (اس میں کیسے داخل ہوسکتے ہیں) 6:۔ ابو نعیم نے دلائل میں عائشہ بن قدامہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں کھڑکی سے بھیس بدل کر نکلا سب سے پہلے میری ملاقات ابو جہل سے ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھوں کو مجھ سے اندھا کردیا اور ابوبکر ؓ سے بھی یہاں تک کہ ہم گزر گئے۔ غارثور کا واقعہ : 7:۔ ابونعیم نے اسماء بنت ابنی بکر ؓ سے روایت کیا کہ ابوبکر ؓ نے ایک آدمی کو غار کی طرف منہ کئے ہوئے دیکھا اور عرض کیا یا رسول اللہ کہ اس نے ہم کو دیکھ لیا ہے آپ نے فرمایا ہرگز نہیں کیونکہ فرشتوں نے اپنے پیروں کے ذریعہ اس کو چھپالیا ہے وہ آدمی ان کی طرف منہ کر کے پیشاب کرنے لگ گیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے ابوبکر ؓ اگر وہ تجھ کو دیکھ لیتا تو ایسا نہ کرتا۔ 8:۔ ابونعیم نے محمد بن ابراہیم تیمی ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ جب غار میں داخل ہوئے تو ایک مکڑی نے اس کے منہ پر جالا تن دیا بعض گھونسلوں کو آپس میں ملاتے ہوئے جب یہ لوگ غار کے منہ پر پہنچے تو ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا تم لوگ غار میں داخل ہوجاؤ امیۃ بن خلف نے کہا تم کو غار میں جانے کی کیا ضرورت ہے ؟ اس پر مکڑی کا جالا ہے۔ محمد ﷺ کی پیدائش سے پہلے اس لئے نبی کریم ﷺ نے مکڑی کو مارنے سے منع فرمایا اور فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہے۔ 9:۔ ابونعیم نے حلیہ میں عطا بن ابی میسرہ (رح) سے روایت کیا کہ مکڑی نے دو مرتبہ جالا تنا ایک مرتبہ داود (علیہ السلام) پر جب طالوت ان کو تلاش کررہا تھا اور ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ پر غار میں۔ 10:۔ ابن سعد اور ابو نعیم اور بیہقی نے دلائل میں انس ؓ نے بیان فرمایا کہ جب نبی کریم ﷺ اور ابوبکر ؓ نکلے ابوبکر ؓ نے دیکھا کہ اچانک ایک گھوڑا سوار پیچھے سے ان کی قریب پہنچا ابوبکر نے عرض کیا اے اللہ کے نبی یہ گھوڑا سوار ہم سے مل گیا ہے آپ نے دعا فرمائی اے اللہ ” اللہم احرمہ “ اے اللہ اسے پچھاڑ دے تو وہ اپنے گھوڑے سے گرپڑا اور کہنے لگا اے اللہ کے نبی مجھے حکم فرمائیے جو آپ چاہیں۔ آپ نے فرمایا اپنی جگہ پر ٹھہرجا۔ جو ہم سے آملے گا تو کسی کو نہیں چھوڑے گا پس آپ دن کے پہلے حصہ میں رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کرنے کے بارے میں پوری کوشش کرنے والا تھا اور دن کے آخری حصہ میں آپ کے لئے ہتھیار تھے۔ اور اس بارے میں سراقہ ؓ ابو جہل کو مخاطب کرکے کہتا ہے۔ ابا حکم لو کنت واللہ شاھدا لامرجوادی ان تسیخ قوائمہ ترجمہ : اے ابو (ابو جہل) کی کنیت ہے اللہ کی قسم اگر تو اس طرح دیکھ لیتا کہ اس کے پاوں دھنس گئے ہیں۔ علمت ولم تشکک بان محمد رسول ببرھان فمن ذایقاومہ۔ ترجمہ : تو تو یقین کرلیتا اور شک نہ کرتا کہ (محمد ﷺ رسول ہیں اور یہ دلیل سے ثابت ہے پس کون ہے جو ان کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ 11:۔ بیہقی نے دلائل میں شعبہ بن محصن طبری (رح) سے روایت کیا کہ میں نے عمر سے عرض کیا آپ ابوبکر ؓ سے بہتر ہیں تو وہ رونے لگے اور فرمایا اللہ کی قسم ابوبکر ؓ کی ایک رات اور ایک دن عمر سے بہتر ہے۔ کیا تو چاہتا ہے کہ میں تجھ سے اس ایک رات اور اس ایک دن کا تجھ سے بیان کروں ؟ میں نے عرض کیا اے امیرا لمومنین ضرور بیان کیجئے فرمایا وہ کبھی آپ کے آگے کبھی پیچھے بھاگتے ہوئے نکلے اور رات کو نکلے اور آپ کے ساتھ ابوبکر ؓ بھی تھے وہ کبھی آپ کے آگے اور کبھی پیچھے چلتے اور کبھی دائیں اور کبھی بائیں رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا اے ابوبکر ؓ یہ کیا ہے اس کام کو نہیں جانتا (کہ تم ایسا کیوں کررہے ہو) عرض کیا یا رسول اللہ مجھے گھات لگانے والے یاد آجاتے ہیں۔ تو میں آپ کے آگے ہوجاتا ہوں اور مجھے تلاش میں آنے والا یاد آجاتا ہے اور کبھی آپ کے دائیں طرف اور کبھی بائیں طرف ہوجاتا ہوں میں آپ کے بارے میں پرامن نہیں ہوتا۔ رسول اللہ ﷺ اس رات اپنی انگلیوں کے کناروں پر چلے یہاں تک کہ آپ کے پاوں ننگے ہوگئے جب ابوبکر ؓ نے آپ کو (اس حال میں دیکھا) تو اپنے کندھے پر اٹھالیا اور اوپر چڑھنا شروع کیا، یہاں تک کہ غار کے منہ پر آگئے اور ان کو نیچے اتارا پھر عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا آپ اس غار میں داخل نہ ہوں یہاں تک کہ میں اس میں داخل ہوں گا اگر اس میں کوئی چیز ہوگی تو آپ سے پہلے مجھ پر واقع ہو ابوبکر داخل ہوگئے اور کوئی چیز نہ دیکھی رسول اللہ ﷺ کو اٹھایا اور اس میں داخل کردیا اور غار میں کئی سوارخ تھے اس میں سانپ اور اژدھے تھے ابوبکر ؓ ڈرے کہ اس میں کوئی چیز نکل کر رسول اللہ ﷺ کو تکلیف پہنچائے گی تو انہوں نے اپنا قدم اس میں رکھ دیا ان سانپوں اور اژدھوں نے ان کو ڈسنا اور کاٹنا شروع کیا (تکلیف کی وجہ سے) ان کے آنسو نیچے گرنا شروع ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا اے ابوبکر ! غم نہ کر اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے اللہ تعالیٰ نے راحت اور اطمینان کو ابوبکر ؓ کے لئے نازل فرمایا یہ وہ رات تھی۔ مرتدین کے ساتھ صدیق اکبر ؓ کا سخت رویہ : لیکن اس کا ایک دن وہ تھا جب رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی اور عرب کے لوگ مرتد ہوگئے ان کے بعض لوگوں نے کہا ہم نماز پڑھیں گے لیکن ہم زکوٰۃ نہیں دیں گے۔ اور بعض نے کہا نہ ہم نماز پڑھیں گے اور نہ زکوٰۃ دیں گے۔ (ابوبکر ؓ نے ان سے جہاد کرنے کا ارادہ کیا) تو میں آپ کے پاس آیا میں نے کہا اے رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ لوگوں کے ساتھ نرمی اور الفت کا معاملہ کیجئے ابوبکر نے فرمایا تو جاہلیت میں بہت سخت قہر وغضب کا اظہار کرنے والا اسلام سے بہت کمزور آپ ان کے ساتھ کونسی تالیف کریں گے۔ کسی عجیب شعر کے ذریعہ کسی کے گھڑے ہوئے شعر کے ذریعہ ؟ رسول اللہ ﷺ دنیا سے چلے گئے اور وحی آنا بند ہوگئی اللہ کی قسم اگر ایک رسی بھی مجھ سے روکیں گے ان چیزوں میں سے جو وہ رسول اللہ ﷺ کو یاد کرتے تھے تو میں اس پر بھی ان سے لڑوں گا عمر نے فرمایا کہ ہم نے ان کے ساتھ مل کر قتال کیا اور اللہ کی قسم آپ بہت فہم اور صاف رائے والے تھے یہ وہی دن ہے (جو عمر سے بہتر ہے) 12:۔ ابو نعیم اور بیہقی نے دلائل میں ابن شہاب اور عروہ (رح) سے روایت کیا کہ وہ لوگ (یعنی قریش) ہر جانب سوار ہوئے نبی کریم ﷺ کو تلاش کرتے ہوئے اور انہوں نے پانی کے نواح میں رہنے والوں پر حکم بھیجا (تلاش کرنے کا) اور ان کے لئے بڑی اجرت مقرر کی۔ وہ لوگ ثور پہاڑ پر آئے جس میں غار ہے جس میں نبی کریم ﷺ (موجود تھے) یہاں تک کہ انہوں نے اس کے اوپر سے جھانکا ابوبکر اور نبی کریم ﷺ نے ان کی آوازیں بھی سنی ابوبکر ڈر سے ان پر غم اور خوف سوار ہو اس وقت رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ رسول اللہ ﷺ دعا فرمائی اور ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف اطمینان نازل ہوا۔ اسی کو فرمایا (آیت) ” فانزل اللہ سکینۃ علیہ وایدہ بجنودلم تروھا وجعل کلمۃ الذین کفروا السفلی وکلمۃ اللہھی العلیا، واللہ عزیز حکیم “ 13:۔ ابن شاھین وابن مردویہ وابن عساکر نے حبشی بن جنادہ (رح) سے روایت کیا کہ ابوبکر نے عرض کیا یا رسول اللہ اگر مشرکین میں سے کوئی ایک اپنا قدم اٹھائے تو ہم کو دیکھ لے، آپ نے فرمایا اے ابوبکر ؓ غم نہ کر اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ 14:۔ ابن عساکر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا جو لوگ ان کی تلاش میں تھے وہ پہاڑ پر چڑھ گئے اور کوئی رکاوٹ نہ تھی کہ وہ لوگ غار میں داخل بھی ہوجائیں ابوبکر نے عرض کیا وہ ہم تک پہنچ جائیں گے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا غم نہ کر اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے (پاوں کے) نشانات مٹ گئے تو وہ لوگ دائیں اور بائیں چلے گئے۔ 15:۔ ابن عساکر نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نکلے اور ابوبکر بھی آپ کے ساتھ نکلے وہ آپنے آپ پر کسی غیر سے محفوظ نہیں تھے یہاں تک کہ دونوں غار میں داخل ہوگئے۔ 16:۔ ابن شاہین ودار قطنی وابن مردویہ وابن عساکر نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر ؓ سے فرمایا تو میرا ساتھی ہے غار میں اور تو ہی میرے ساتھ حوض پر ہوگا (قیامت کے دن) 17:۔ ابن عدی وابن عساکر نے امام زہری اور ابن عساکر نے اس کی مثل حدیث حضرت ابن عباس ؓ عن ابوہریرہ ؓ کے طریق سے نقل کی ہے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے حسان ؓ سے فرمایا کیا تو نے ابوبکر ؓ کے بارے میں کچھ کہا ہے عرض کیا ہاں آپ نے فرمایا اسے لے آؤ میں اس کو سنوں گا تو انہوں نے (یہ اشعار کہے) وثانی اثنین فی الغار المنیف وقد طاف العدو بہ اذ صاعد الجبلا ترجمہ :۔ ثانی اثنین بلند غار میں تھے جب وہ پہاڑ سے چڑھے اس حال میں کہ دشمن ان کے اردگرد گھوم رہے تھے۔ وکان حب رسول اللہ قد علموا من البریۃ لم یعدل بہ رجلا ترجمہ : اور مخلوق جانتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو آپ کے ساتھ محبت تھی کہ کوئی بھی ان کے برابر نہ تھا۔ (یہ اشعار سن کر) رسول اللہ ﷺ ہنس پڑے اور آپ کی داڑھ مبارک ظاہر ہوگئی پھر فرمایا اے حسان تو نے سچ کہا وہ ایسا ہی ہے جیسے تو نے کہا۔ 18۔ خثیمہ بن سلیمان طرابلسی نے فضائل الصحابہ میں وابن عساکر نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے سب لوگوں کی مذمت فرمائی اور ابوبکر ؓ کی تصدیق فرمائی جیسے کہ فرمایا (آیت) ” الا تنصروہ فقد نصرہ اللہ اذا اخرجہ الذین کفروا ثانی اثنین اذ ھما فی الغار اذ یقول لصاحبہ لا تحزن ان اللہ معنا “ 19:۔ ابن عساکر نے ابوبکر صدیق ؓ سے روایت کیا کہ مجھ میں کسی چیز کا ڈر داخل نہیں ہوا اور نہ مجھ میں دین کے بارے میں کسی قسم کی وحشت اور خطرہ مجھ میں داخل ہوا غار والی رات کے بعد کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے جب اپنی ذات اور دین کے بارے میں میرے ڈر کو دیکھا تو آپ نے مجھ سے فرمایا اطمینان اور سکون رکھو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کی تکمیل اور اس میں مدد کرنے فیصلہ فرما دیا ہے۔ 20:۔ ابن عساکر نے سفیان بن عیینہ (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے سب مسلمانوں کو عتاب فرمایا اپنے نبی ﷺ کے بارے میں سوائے ابوبکر ؓ کے وہ اکیلے اس عتاب سے خارج ہیں پھر (یہ آیت ) ” الا تنصروہ فقد نصرہ اللہ “ پڑھی۔ 21:۔ حکیم ترمذی نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے سب زمین کے رہنے والوں کو عتاب کرتے ہوئے فرمایا (آیت) ” الا تنصروہ فقد نصرہ اللہ اذا اخرجہ الذین کفروا ثانی اثنین “ 22:۔ ابن عساکر نے محمد بن یحییٰ کے راستے سے محمد بن یحییٰ (رح) سے روایت کیا کہ مجھے اپنے بعض اصحاب نے بتایا کہ صحابہ کرام ؓ نے بیٹوں میں سے ایک نوجوان ایک مجلس میں جن میں قاسم بن محمد ابی بکر صدیق بھی تھے۔ انہوں نے فرمایا اللہ کی قسم رسول اللہ ﷺ کے لئے کوئی وطن نہ تھا مگر میرے جد امجد اس وقت بھی آپ کے ساتھ تھے کسی نے کہا اے میرے بھائی کے بیٹے قسم مت کھا پھر کہا دلیل لاؤ اس نوجوان نے کہا کیوں نہیں ہاں ایسی دلیل ہے جو تو اس کو نہیں کرسکتا اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ثانی اثنین اذھما فی الغار “ 23:۔ ابن سعد وابن ابی شیبہ واحمد والبخاری ومسلم والترمذی وابو عوانہ وابن حبان وابن منذر وابن مردویہ نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ مجھے ابوبکر نے بیان فرمایا کہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ غار میں تھا میں نے مشرکین (کے آجانے) کے آثار دیکھے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ اگر ان میں کوئی ایک اپنے قدم کو اوپر اٹھائے تو وہ ہم کو اپنے قدموں کے نیچے دیکھ لے آپ نے فرمایا اے ابوبکر تیرا کیا خیال ہے، ان دو کے بارے میں جن کے ساتھ تیسرا اللہ ہو۔ 24:۔ ابن ابی شیبہ وابن منذر وابو الشیخ وابوانعیم نے دلائل میں ابوبکر ؓ سے روایت کیا کہ جب ہم غار پر پہنچے اچانک ایک سوراخ تھا ابوبکر ؓ نے اپنے پاوں اس میں ڈال دیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اگر اس میں کاٹنے یا ڈسنے والی کوئی چیز ہے تو اس کا کاٹنا یا ڈسنا مجھ پر واقع ہو۔ غار ثور میں صدیق اکبر ؓ کا پہلے داخل ہونا : 25:۔ ابن مردویہ نے ابن مالک ؓ سے روایت کیا کہ جب غار والی رات تھی تو ابوبکرصدیق نے عرض کیا یارسول اللہ مجھے چھوڑ دیجئے میں آپ سے پہلے ضرور داخل ہوں گا اگر سانپ یا کوئی چیز ہوئی تو آپ سے پہلے مجھے ڈسے گی۔ آپ نے فرمایا داخل ہوجا۔ ابوبکر داخل ہوئے اور انہوں نے اپنا ہاتھ سے جگہ کو صاف کرنے لگے جب بھی کوئی سوراخ دیکھتے تو اپنے کپڑے کو پھاڑ کر اس سوارخ میں ڈال دیتے یہاں تک کہ سارے کپڑے کے ساتھ ایسا ہی ایک سوراخ باقی رہ گیا تو اس میں اپنی ایڑی کو رکھ دیا اور عرض کیا (اب) داخل ہوجائیے جب صبح ہوئی تو نبی کریم ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا تیرا کپڑا کہاں ہے ؟ جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ بتادیا۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر (یہ دعا) فرمائی اے اللہ ابوبکر کو میرے ساتھ میرے درجہ میں قیامت کے دن کردیجئے اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا کو قبول فرما لیا۔ 26:۔ ابن مردویہ نے جندب بن سفیان ؓ سے روایت کیا کہ جب ابوبکر ؓ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غار کی طرف چلے تو ابوبکر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ابھی آپ داخل نہ ہوں یہاں تک کہ میں اس کو صاف کرلوں۔ ابوبکر غار میں داخل ہوئے ان کے ہاتھ کو کوئی چیز لگی اور وہ اپنی انگلی سے خون صاف کرتے ہوئے یہ (شعر) پڑھ رہے تھے۔ ھل انت الا اصبح دمیت وفی سبیل اللہ ما لقیت ترجمہ : تو نے کیا صرف ایک انگلی ہے جو خون آلودہ ہوگئی اور اللہ کی راہ میں تجھ کو یہ تکلیف پہنچی۔ 27:۔ ابن مردویہ نے جعدہ بن ھبیرہ (رح) سے روایت کیا کہ عائشہ نے فرمایا کہ ابوبکر نے (ان سے) فرمایا اگر تو مجھ کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دیکھ لیتی جب ہم غار پر چڑھے اور رسول اللہ ﷺ کے قدم مبارک سے خون نکلنے لگا لیکن میرے قدم تو عادی تھے اور وہ سخت تھے عائشہ ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ ننگے پاوں چلنے کے عادی نہیں تھے۔ 28:۔ ابن سعد وابن مردویہ نے ابن مصعب (رح) سے روایت کیا کہ میں نے انس بن مالک ؓ زیدبن ارقم ؓ ، مغیرہ بن شعبہ ؓ کو پایا میں نے ان سب سے سنا کہ وہ بیان کرتے تھے کہ غار والی رات میں اللہ تعالیٰ نے ایک درخت کو حکم فرمایا کہ وہ نبی کریم ﷺ کے چہرہ مبارک کے سامنے آگیا اور آپ کو ڈھانپ لیا اور اللہ تعالیٰ نے مکڑی کو حکم فرمایا تو اس نے نبی کریم ﷺ کے چہرہ مبارک کے سامنے جالا تن دیا اور ان کو چھپالیا اور اللہ تعالیٰ نے دو جنگلی کبوتروں کو حکم فرمایا تو وہ غار کے منہ پر رہنے لگے قریش کے نوجوان ہر قبیلہ میں اپنی لاٹھیوں اپنی تلواروں اور اپنی چھڑیوں کے ساتھ آگئے یہاں تک کہ جب وہ نبی کریم ﷺ سے چالیس قدم کے بقدر فاصلے پر تھے ان میں سے ایک نیچے اترا اور اس نے غار میں دیکھا اور پھر اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹا انہوں نے کہا تجھے کیا ہوا ؟ غار میں تو نے دیکھا اس نے کہا میں نے دو کبوتروں کو غار کے منہ پر دیکھا میں نے پہچان لیا کہ اس میں کوئی نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے سن لیا جو کچھ اس نے کہا تھا اور جان لیا کہ اللہ تعالیٰ نے انکے ذریعے اسے دور ہٹا دیا تو میں نے نبی کریم ﷺ سے ان کے بارے میں سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کبوتروں کو یہ جزا عطا فرمائی کہ وہ حرم پاک میں رہنے لگے اور اس جوڑے سے حرم پاک کے تمام کبوتر پیدا ہوئے۔ 29:۔ ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں ایک ضعیف سند کے ساتھ ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ابوبکر ؓ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غار میں تھے ان کو پیاس لگی تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا۔ غار کے سامنے والے حصہ کی طرف جاؤ اور پی لو ابوبکر ؓ غار کی طرف گئے اور اس میں پانی پیا جو شہد سے زیادہ میٹھا تھا دودھ سے زیادہ سفید تھا اور کستوری سے زیادہ پاکیزہ خوشبوتھی۔ (پانی پینے کے بعد) پھر وہ لوٹ آئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جنت کے نہروں پر مقرر فرشتے کو حکم فرمایا کہ جنت الفردوس میں سے ایک نہر کو غار کے منہ کی طرف جاری کردو تاکہ تم (اس میں سے) پی لو۔ 30:۔ ابن منذر نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں محمد ﷺ کے اصحاب کو آپ کی نصرت کے بارے میں سرزنش کی گئی سوائے ابوبکر ؓ کے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” الا تنصروہ فقد نصرہ اللہ اذا اخرجہ الذین کفروا ثانی اثنین اذ ھما فی الغار “ اللہ کی قسم ابوبکر ؓ ان سے خارج ہیں جن کی سرزش کی گئی۔ 31:۔ ابن ابی حاتم نے سالم بن عبید ؓ سے روایت کیا کہ اور وہ صفہ والوں میں سے تھے کہ حضرت عمر ؓ ، ابوبکر ؓ کا ہاتھ پکڑا اور کہا کون ہے جس کی یہ تین خصلتیں ہیں (آیت) ” اذیقول لصاحبہ “ میں کون ان کا ساتھی ہے ؟ (آیت) ” اذ ھما فی الغار “ وہ دونوں کون ہیں ؟ (آیت) ” لا تحزن ان اللہ معنا “ (کس کو فرمایا مت غم کر اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے) 32:۔ ابن ابی حاتم نے عمرو بن حارث سے روایت کیا کہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا تم میں سورة توبہ کو کون پڑھ سکتا ہے۔ ایک آدمی نے کہا میں پڑھوں گا۔ جب وہ اس آیت ” اذ یقول لصاحبہ لا تحزن “ پر پہنچا تو ابوبکر ؓ رونے لگے اور فرمایا اللہ کی قسم میں ان کا ساتھی تھا۔ 33:۔ ابوالشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ میں صاحب ابوبکر ہیں اور غار مکہ کا وہ پہاڑ ہے جس کو ثور کہا جاتا ہے۔ 34:۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ابوبکر ؓ میرا بھائی اور غار میں میرا ساتھی ہے۔ پس تم اس سے اسے پہچان لو اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو خلیل بناتا۔ ہر کھڑکی کو اس مسجد میں بند کردوسوائے ابوبکر کی کھڑکی کے۔ یار غار صدیق اکبر ؓ ہیں : 35:۔ ابن مردویہ نے عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اگر میں اپنے رب کے علاوہ کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو خلیل بناتا لیکن وہ میرا بھائی اور میرا ساتھی ہے غار میں۔ 36:۔ عبدالرزاق وابن منذر نے زہری (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” اذ ھما فی الغار “ کے بارے میں فرمایا یہ غار اس پہاڑ میں ہے جس کو ثور کہا جاتا ہے۔ 37:۔ ابن مردویہ نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے ایک قوم کو حرا (پہاڑ) پر چڑھتے ہوئے دیکھا میں نے کہا یہ لوگ حراء میں کسی چیز کو ڈھونڈ رہے ہیں لوگوں نے کہا اس غار کو (ڈھونڈ رہے ہیں) جس میں رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر چھپے تھے۔ عائشہ ؓ نے فرمایا وہ حرا (پہاڑ) میں نہیں چھپے تھے بلکہ وہ ثور (پہاڑ) میں چھپے تھے اور اس نماز کی جگہ کو سوائے عبدالرحمن بن ابی بکر اور اسماء بنت ابی بکر کے کوئی نہیں جانتا کیونکہ یہ دونوں ان کی طرف بار بار جاتے تھے۔ اور ابوبکر کے آزاد کردوہ غلام عامر بن فہیرہ بھی (جانتے ہیں) کہ جب وہ اپنی بکریوں کو چرانے کے لئے نکلتا تو ان دونوں کے پاس سے گزرتے تھے اور ان کے لئے دودھ دوہتے تھے۔ 38:۔ ابن ابی شیبہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ابوبکر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تین دن غار میں ٹھہرے۔ 39:۔ عبدالرزاق احمد وعبد بن حمید والبخاری وابن منذر وابن ابی حاتم نے زہری کے واسطے سے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ فرمایا کہ میں نے اپنے والدین کو کبھی بھی نہیں پایا مگر اس حال میں کہ دونوں دین اسلام کے پیروکار تھے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا کہ صبح شام رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف نہ لاتے ہوں جب مسلمان پر زیادہ تکلیفیں پڑیں تو ابوبکر حبشہ کی طرف ہجرت کے لئے نکلے یہاں تک کہ جب برک الغمار پر پہنچے (وہاں) ابن الدغنہ ملے جو (قبیلہ) القارۃ کے سردار تھے۔ ابن الدغنہ نے کہا اے ابوبکر ؓ کہاں کا ارادہ ہے ؟ ابوبکر ؓ نے فرمایا میری قوم نے مجھے نکال دیا اس لئے میں نے ارادہ کیا کہ ایسی زمین میں سفر کروں جہاں میں اپنے رب کی عبادت کرسکوں ابن الدغنہ نے کہا اے ابوبکر ؓ تیری طرح کا آدمی نہ نکل سکتا ہے اور نہ باہر نکالا جاسکتا ہے۔ تو نادار کے لئے کماتا ہے اور صلہ رحمی کے لئے اور یتیم کا بوجھ اٹھاتا ہے مہمان کی مہمان نوازی کرتا ہے اور حق پر آنے والی مصیبتوں کے خلاف مدد کرتا ہے میں آپ کا پڑوسی ہوں میں تجھ کو پناہ دیتا ہوں۔ قریش نے ابن الدغنہ کی پناہ کو نافذ کردیا اور انہوں نے ابوبکر ؓ کو امان دیدی۔ اور انہوں نے ابن الدغنہ سے کہا کہ وہ ابوبکر ؓ کو حکم کرے کہ وہ اپنے رب کی عبادت اپنے گھر میں کرے اور اس میں جو چاہے نماز پڑھے۔ اور جو چاہے قرات کرے لیکن ہم کو تکلیف نہ دے اور نہ ہی اپنے گھر کے سوا کسی اور جگہ نماز پڑھے۔ اور قرآن مجید کی قرات میں مشغول ہو انہوں نے ایسا ہی کیا ابوبکر ؓ کو یہ بات سمجھ میں نہ آئی انہوں نے اپنے گھر کے صحن میں ایک مسجد بنا لی۔ اس میں وہ نماز پڑھتے تھے اور قرات کرتے تھے۔ ان پر مشرکین کی عورتیں اور ان کے بچے آپ کے پاس جمع ہوجاتے۔ اور اس سے تعجب کرتے تھے اور ان کی طرف دیکھتے تھے۔ اور ابوبکر ؓ رونے والے آدمی تھے وہ اپنے آنسوں پر قابو نہیں رکھ سکتے تھے جب وہ قرآن پڑھتے تھے اس چیز پر قریش کے سرداروں کو بہت زیادہ پریشان کردیا انہوں نے ابن الدغنہ کو بلا بھیجا وہ ان کے پاس آئے قریش نے کہا کہ ہم نے ابوبکر ؓ کو اس بات پر پناہ دی ہے کہ وہ اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کریں۔ لیکن انہوں نے اس بات سے تجاوز کرلیا اور اپنے گھر کے صحن میں مسجد بنا لی اور نماز اور قرات اعلانیہ طور پر شروع کردی۔ ہم کو یہ ڈر ہے کہ ہماری عورتیں اور ہمارے بیٹے کسی فتنے میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی عبادت اپنے گھر کے اندر کریں اگر وہ ایسا کرلیں ( تو ٹھیک) اور اگر وہ انکار کریں کہ وہ اس کو علانیہ طور پر کریں گے تو اسے بتا دیجئے کہ وہ تمہاری ذمہ داری اپنے اوپر ڈال دے گا۔ ہم تیرے ساتھ کئے ہوئے وعدہ کو توڑنا بھی ناپسند کرتے ہیں۔ اور ہم ابوبکر کے اس علانیہ عمل کو قبول بھی نہیں کرسکتے۔ ابن الدغنہ ابوبکر کے پاس آئے اور کہا اے ابوبکر تو جانتا ہے کہ اس نے جس شرط کی بنا پر تمہارے معاہدہ کیا تھا پس تم اس کے پابندرہو تو وہ قائم ہے ورنہ میری پناہ مجھے واپس لوٹا دو ۔ کیوں کہ میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ عرب کے لوگ اس بات کو سنیں میں نے ایک آدمی کے معاہدہ میں ان سے بےوفائی کی۔ ابوبکر ؓ نے فرمایا میں تیری پناہ تیری طرف واپس کرتا ہوں اور میں اللہ اور اس کے رسوک کی پناہ کے ساتھ راضی ہوں ان دنوں رسول اللہ ﷺ مکہ میں ہی تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں سے فرمایا مجھے تمہاری ہجرت کا گھر دکھایا گیا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کھجوروں والی دلدلی زمین جو لابتین کے درمیان میں ہے یہی حرتان کہلاتے ہیں، پس ہجرت کرنے والا مدینہ کی طرف ہجرت کرگیا جب رسول اللہ ﷺ نے اس بات کا ذکر فرمایا اور بعض وہ مسلمان جنہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی وہ بھی مدنیہ منورہ کی طرف لوٹ آئے اور ابوبکر ؓ نے بھی ہجرت کرنے کی تیاری کی تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا ٹھہر جاؤ میں امید کرتا ہوں کہ مجھے بھی اجازت دے دی جائے۔ ابوبکر ؓ نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں کیا آپ کو اپنے لئے بھی اجازت کی امید ہے فرمایا ہاں ابوبکر ؓ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چلنے کی غرض سے رک گئے آپ کے پاس دو اونٹنیاں تھیں آپ نے چار ماہ تک کیکر کے پتوں کا چارہ ڈالتے رہے۔ رسول اللہ ﷺ کا دوپہر کے وقت آنا : ایک روز ہم ابوبکر کے گھر دوپہر کو بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک کہنے والے نے ابوبکر ؓ سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ اس وقت تشریف لارہے ہیں (حالانکہ) اس وقت آپ ہمارے پاس نہیں آتے تھے۔ ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ میرے ماں باپ قربان اس وقت جو آپ آرہے ہیں تو ضرور حکم مل گیا ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے داخل ہونے کی اجازت مانگی۔ ان کو اجازت دی گئی تو آپ اندر تشریف لے آئے جب داخل ہوئے تو ابوبکر ؓ سے فرمایا اپنے پاس سے سب کو ہٹا دو ۔ ابوبکر نے عرض کیا میرا باپ آپ پر قربان ! یا رسول اللہ بس یہی آپ کے گھر والے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے نکلنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ ابوبکر ؓ نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان ! یارسول اللہ کیا صحابہ کرام ؓ کو بھی (اجازت ہے) فرمایا ہاں ! (اجازت ہے) ابوبکر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرے ماں باپ قربان ہوں میری ان دو اونٹنیوں میں سے ایک آپ لے لیجئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیمت کے عوض (لوں گا) حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا ہم نے دونوں کے لئے بہترین زادراہ تیار کیا۔ اور ایک چمڑے کے تھیلے میں رکھ دیا اسماء نے اپنا کمر بند کاٹ کر اس تھیلے کا منہ باندھ دیا اس لئے اس کا لقب ذات النطاقین (یعنی دو کمر بندوں والی) ہوگیا۔ رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر ؓ پہاڑ کی ایک غار میں پہنچے جس کو ثور کہا جاتا ہے۔ اس میں تین رات ٹھہرے۔ ان کے پاس عبداللہ بن ابوبکر ؓ رات کے وقت آتے تھے اور وہ ایک ذہین اور بہت ہوشیار نوجوان تھے سحری کے وقت ان کے پاس سے باہر نکل جاتے اور قریش مکہ کے ساتھ اس طرح صبح کرتے تھے جیسے کہ وہاں رات گزارنے والا کرتا ہے۔ آپ جو بھی بات ان سے متعلق سنتے تھے اسے یاد کرلیتے تھے۔ یہاں تک کہ اس کی خبر ان تک پہنچا دیتے۔ جب اندھیرا چھا جاتا تھا اور ابوبکر کے آزاد کردہ غلام عامر بن فھیرہ ان کے قریب اپنا ریوڑ چراتا تھا تو دودھ والی بکریاں ان کو پیش کرتا تھا۔ جب رات کی تاریکی چھا جاتی۔ وہ دونوں اپنے مقام میں رات گزار رہے ہوتا۔ یہاں تک کہ عامر بن فھیرہ ان کو رونددیتا اندھیرے میں ان تین راتوں میں سے ہر رات وہ ایسا ہی کرتا رہا۔ رسول اللہ ﷺ نے بنوالدیل کا ایک آدمی اجرت پر لیا پھر اس کا تعلق بنوعبد بن عدی سے تھا وہ راستہ دکھانے والا بہت مہارت رکھتا تھا حالانکہ اس نے آل عاص بن وائل میں جھوٹی قسم کھائی تھی۔ اور وہ قریش کفار کے دین پر تھا مگر ان دونوں نے اس کو پناہ دی تو دونوں اونٹنیاں اس کے سپرد کردیں۔ اور اس سے وعدہ لیا کہ تین راتوں کے بعد غار ثور پر وہ دونوں اونٹنیاں لے کر ملے (یہ آدمی) تیسری رات کی صبح کو دونوں اونٹنیاں لے آیا۔ وہاں سے سفر کا آغاز کیا ان کے ساتھ عامر بن فہیرہ ابوبکر کے آزاد کردہ غلام اور راستہ بتانے والا دیلی بھی تھا اس نے ان کے لئے دوسرا راستہ پکڑا اور وہ ساحل سمندر والا راستہ تھا۔ زہری نے فرمایا کہ مجھے عبدالرحمن بن مالک مدلجی نے بتایا کہ وہ سراقہ بن جعشم کا بھتیجا ہے کہ اس کے والد نے اس کو بتایا کہ انہوں نے سراقہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہمارے پاس کفار قریش کے قاصد آئے اور انہوں نے آکر بتایا کہ قریش نے کہا کہ جو کوئی رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر ؓ کو قتل کرے گا یا ان کو قید کر کے لائے گا تو اس کے لئے ان کی دیت سو اونٹ ہوگی۔ اس درمیان کہ میں اپنی قوم بنومدیح کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا۔ ان میں سے ایک آدمی آیا اور کہا اے سراقہ ! میں نے ابھی ابھی ساحل سمندر پر چند لوگوں کو دیکھا ہے۔ اور میرا خیال ہے کہ وہ محمد ﷺ اور آپ کے ساتھی ہیں اس سے سراقہ نے کہ میں نے بھی پہچان لیا کہ یہ وہی ہیں لیکن میں نے (اس آدمی سے جھوٹ موٹ) کہا کہ یہ وہ نہیں ہیں لیکن میں نے فلاں اور فلاں کو دیکھا ہے۔ کہ وہ جارہے تھے پھر میں تھوڑی دیر اس مجلس میں ٹھہرا رہا یہاں تک کہ میں کھڑا ہوگیا اور اپنے گھر میں داخل ہوگیا۔ میں نے اپنی باندی کو حکم دیا کہ میرے لئے میرے گھوڑے کے ٹیلے کو پیچھے کی جانب لے چلے گی، اور وہاں اسے روکے میں نے اپنے نیزہ کو لیا اور میں نے اس کو لے کر اپنے گھر کے پیچھے سے نکلا اپنے نیزے سے زمین کو چھیدتا رہا۔ اور میں نے نیزہ کو اوپر والے حصے کو جھکایا یہاں تک کہ اپنے گھوڑے پر آگیا میں اس پر سوار ہوا اور اس کو دوڑایا اس نے مجھے اتنا قریب پہنچا دیا کہ یہاں تک کہ میں نے ان کا نشان دیکھ لیا۔ جب میں ان کے قریب ہوا جہاں میں ان کی آواز کو سن رہا تھا۔ میرا گھوڑا لڑکھڑایا اور میں اس سے گرپڑا۔ میں کھڑا ہوا اور میں نے اپنے ہاتھ کو اپنی ترکش کی طرف بڑھایا۔ اس میں سے فال کا تیر نکالا اور میں اس کے ذریعہ فال لینے لگا ان کو نقصان پہنچا سکوں گا یا نہیں لیکن اس میں سے ایسا تیر نکلا جو مجھے قطعا پسند نہ تھا۔ کہ میں ان کو نقصان پہنچا سکوں گا۔ میں اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور فال کے خلاف کیا یہاں تک کہ جب میں نے رسول اللہ ﷺ کی قرات کو سنا اور آپ ادھر ادھر توجہ نہیں دے رہے تھے۔ اور ابوبکر ؓ کثرت کے ساتھ ادھر ادھر توجہ دے رہے تھے (یعنی دیکھ رہے تھے) میرے گھوڑے کے اگلے پاوں زمین میں دھنس گئے یہاں تک کہ گھٹنوں تک پہنچ گئے۔ میں اس سے گرپڑا پھر میں نے اس کو کھینچا تو وہ کھڑا ہوگیا مگر اپنے پاوں کو نہ نکال سکا۔ جب اس کی ٹانگیں سیدھی ہوگئیں تو دیکھا کہ اس نے پاوں پر لگام کا نشان ہے جو دھویں کی صورت میں آسمان کی جانب پھیلی ہوئی ہے میں نے پھر تیر نکالا لیکن وہی نکلا جس کو میں نے ناپسند کرتا تھا۔ کہ ان کو نقصان نہ پہنچاسکوں گا میں نے ان کو امان دینے کی آواز دی۔ رسول اللہ ﷺ ٹھہر گئے۔ اور میں اپنے گھوڑے پر سوار ہوا یہاں تک کہ ان کے پاس آگیا میرے دل میں یہ بات واقع ہوئی۔ جب میں ان سے ملا کہ میں ان کو قید نہیں کرسکا۔ کہ عنقریب رسول اللہ ﷺ کا حکم ( یعنی دین) غالب ہوگا میں نے ان سے کہا کہ آپ کی قوم نے آپ کے بارے میں دیت کو مقرر کیا ہے۔ میں نے ان کو سفر کے متعلق کچھ بتایا اور ان کے بارے میں آگاہ کیا جو لوگ ان (کے پکڑنے) کا ارادہ رکھتے تھے میں نے کھانا اور سامان ان پر پیش کیا مگر انہوں نے مجھ سے کوئی چیز نہ لی۔ اور نہ مجھ سے کوئی سوال کیا مگر صرف یہ کہ ان کا معاملہ مخفی رکھوں کسی پر اظہار نہ کروں پھر میں نے عرض کیا کہ ایک تحریر میرے لئے لکھ دیجئے جس میں امان کا وعدہ کیا گیا ہو چناچہ آپ نے عامر بن فھیرہ کو حکم فرمایا تو اس نے میرے لئے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر امان نامہ لکھ کر دے دیا۔ آپ چلے گئے۔ 40ـ:۔ زہری (رح) سے روایت کیا کہ مجھے عروہ بن زبیر (رح) نے خبر دی کہ آپ ﷺ زبیر اور مسلمانوں میں سے کچھ سواروں سے ملے جو شام کی طرف تجارت کرتے ہوئے مکہ آرہے تھے انہوں نے نبی کریم ﷺ اور ابوبکر کو پہچان لیا کہ ان کا لباس سفید تھا اور مدینہ منورہ کے مسلمانوں نے رسول اللہ ﷺ کی ہجرت کے بارے میں سنا اور یہ لوگ ہر صبح کو حرۃ کی طرف آتے تھے اور ان کا انتظار کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ان کو دوپہر کی گرمی تکلیف دیتی تو واپس لوٹ جاتے ایک دن یہ لوگ لمبے انتظار کے بعد واپس لوٹ آئے۔ یونہی یہ لوگ اپنے گھروں میں پہنچے یا وہ ایک یہودی کے گھر میں جو ایک ٹیلہ پر واقع تھا انتظار کے لئے جمع تھے۔ اس نے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب کو دیکھ لیا غبار ہٹ چکا تھا اور ان کے چہرے صاف دکھائی دے رہے تھے اس نے اونچی آواز لگائی اور عرب کی ایک جماعت پر وہ تمہارے بزرگ ہیں جن کا تم انتظار کررہے تھے مسلمان ہتھیاروں کی طرف جوش میں آئے اور وہ رسول اللہ ﷺ سے جا ملے یہاں تک کہ آپ کو ظہر حرۃ کے پاس لے آئے وہاں سے آپ دائیں جانب کو پھرے اور قبا میں بنوعمر وبن عوف ؓ میں نزول فرمایا۔ اور یہ ربیع الاول میں سے پیر کا دن تھا رسول اللہ ﷺ قیام فرما ہوئے اور ابوبکر ؓ نے لوگوں کو نصیحت کی۔ خاموش ہو کر بیٹھ گئے اور انصار میں سے لوگ آنا شروع ہوئے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو نہیں دیکھا اور وہ ابوبکر ؓ (آپ کی جگہ) خیال کرتے رہے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کو دھوپ پہنچ گئی تو ابوبکر ؓ نے آپ پر اپنی چادر کے ساتھ سایہ کیا تو اس وقت لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کو پہچان لیا۔ مسجد قبا کی بنیادی تعمیر : رسول اللہ ﷺ بنو عمر وبن عوف کے ہاں دس سے کچھ اوپر راتیں رہے اور وہ مسجد بنائی جس کی بنیاد تقوی پر رکھی گئی اور آپ نے اس میں نماز پڑھی۔ پھر رسول اللہ ﷺ اپنی سواری پر سوار ہو کر روانہ ہوئے۔ لوگ بھی آپ کے ساتھ چلے یہاں تک کہ مدینہ منورہ میں مسجد کی جگہ آکر اونٹنی بیٹھ گئیی اس دن مسلمان وہاں نماز پڑھ رہے ہیں۔ اور یہ ایک کھجور خشک کرنے کا میدان تھا جو سہل اور سہیل دو یتیم بھائیوں کا تھا (اور یہ دونوں یتیم بچے) ابو امامہ اسعد بن زرارہ کی پرورش میں تھے جو بنو نجار میں سے تھے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں لڑکوں کو بلایا اور ان دونوں سے اس میدان کا سودا کیا اس کو مسجد بنانے کے لئے ان دونوں نے کہا ہم پیسے نہیں لیتے بلکہ یا رسول اللہ ﷺ ہم آپ کے لئے یہ جگہ ہبہ کرتے ہیں لیکن نبی کریم ﷺ نے ان سے یہ جگہ اس طرح قبول کرنے سے انکار فرمایا یہاں تک یہ جگہ ان سے خرید لی وہاں مسجد تعمیر فرمائی رسول اللہ ﷺ نے اس کو بنانے میں لوگوں کے ساتھ اینٹیں اٹھانی شروع کی اور آپ یہ (اشعار) پڑھ رہے تھے۔ ھذا الجمال لا جمال خیبر ھذا ابرربنا واطھر۔ ترجمہ : یہ جمال خیبر کا حسن و جمال نہیں ہے یہ تو ہمارے رب کا احسان اور انتہائی طہارت اور پاکیزگی ہے۔ ان الاجر اجر الاخرۃ فارحم الانصار والمھاجرۃ۔ ترجمہ : بالاشبہ اصل بدلہ تو آخرت کا بدلہ ہے (اے اللہ) انصار اور مہاجرین پر رحم فرما۔ مسلمان میں سے ایک آدمی کے شعر کے جواب میں رسول اللہ ﷺ یہ شعر پڑھتے تھے اس کا نام مجھے معلوم نہیں۔ ابن شہاب نے فرمایا ہم کو احادیث میں یہ بات نہیں پہنچی کہ نبی کریم ﷺ نے ان اشعار کے سوا بھی کوئی مکمل شعر کہا ہو۔ لیکن آپ مسجد بناتے وقت صحابہ کرام ؓ اجمعین کے ساتھ رجز پڑھتے رہے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے کفار قریش سے قتال کیا یہ لڑائی حائل ہوگئی حبشہ کی زمین کی طرف ہجرت کرنے والوں اور رسول اللہ ﷺ کے پاس آنے والوں کے درمیان یہاں تک کہ یہ لوگ غزوہ خندق کے زمانے میں آپ سے آکر ملے۔ اسماء بنت عمیس بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو ذکر فرماتی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم اس طرح نہ کیا کرو اور پہلی آیت جو قتال کے بارے میں نازل ہوئی (وہ یہ ہے) (آیت) ” اذن للذین یقتلون بانہم ظلموا “ (الحج آیت 35) یہاں تک کہ (آیت) ” ان اللہ لقوی عزیز (40) تک پہنچے۔ 41:۔ ابن ابی شیبہ واحمد البخاری انس ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے اور ابوبکر ؓ کو پیچھے بٹھایا ہوا تھا۔ اور وہ شیخ تھے جو پہچانے جاتے تھے اور نبی کریم ﷺ نہیں پہچانے جاتے تھے۔ وہ لوگ کہتے تھے اے ابوبکر ؓ تیرے آگے یہ لڑکا کون ہے۔ وہ یہ کہتے کہ راستہ دکھانے والا ہے جو ہم کو راستہ دکھاتا ہے راوی نے کہا جب ہم مدینہ منورہ سے قریب ہوئے تو ہم حرہ پر اتر گئے اور آپ نے مجھے انصار کی طرف بھیجا وہ لوگ آئے راوی کا بیان ہے میں اس دن حاضر تھا جب آپ مدینہ منورہ میں داخل ہوئے۔ میں نے اس سے حسین کوئی دن نہیں دیکھا اور میں نے سب سے برا اور سب سے اندھیرا دن نہیں دیکھا جس میں نبی کریم ﷺ نے وفات پائی۔ آپ ﷺ کے لئے سواری پیش کرنا : 42:۔ ابن عبدالبر میں کثیر بن فرقد (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب مدنیہ منورہ کی طرف ہجرت کرتے ہوئے نکلے اور آپ کے ساتھ ابوبکر ؓ بھی تھے ابوبکر کی سواری لائی گئی تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے غرض کیا آپ سوار ہوجائیں اور وہ آپ کے پیچھے بیٹھیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (ابوبکر نہیں) بلکہ تو سوار ہوجا اور میں تیرے پیچھے بیٹھوں گا کیونکہ (جس کی سواری ہے) وہ آدمی اپنے جانور کے آگے بیٹھنے کا زیادہ حقدار ہے جب (یہ دونوں حضرات) باہر نکلے تو راستہ میں سراقہ بن جعشم سے ملاقات ہوئی اور ابوبکر جھوٹ نہیں بولتے تھے اس لئے آپ سے پوچھا کہ تم کون آدمی ہو تو ابوبکر ؓ نے عرض کیا یہ بغاوت کرنے والا ہے پھر اس آدمی نے پوچھا تیرے پیچھے کون ہے ؟ ابوبکر نے جواب دیا راہ دکھانے والا پھر اس آدمی نے کہا کیا محمد ﷺ کے بارے میں بتاسکتے ہیں (تو ابوبکر) نے فرمایا کہ وہ میرے پیچھے ہیں۔ 43:۔ ابن ابی حاتم وابوالشیخ ابن مردویہ والبیہقی نے دلائل میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” فانزل اللہ سکینتہ علیہ “ یعنی اللہ تعالیٰ نے ابوبکر ؓ پر سکینہ نازل فرمایا کیونکہ نبی کریم ﷺ سے کبھی بھی سکینہ (یعنی طمانیت) زائل نہیں ہوتی۔ س 44:۔ ابن مردویہ نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ اور ابوبکر ؓ غار حرا میں داخل ہوئے ابوبکر ؓ نبی کریم ﷺ سے عرض کیا۔ اگر ان میں سے کوئی آدمی اپنے قدم کی جگہ کو دیکھ لے تو وہ یقینا مجھے اور آپ کو دیکھ لے گا آپ نے فرمایا تیرا ان دو کے بارے میں کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ تعالیٰ ہے۔ اے ابوبکر اللہ تعالیٰ نے اپنی جانب سے سکینہ کو تجھ پر اتارا ہے اور ایسے لشکر کے ساتھ میری مدد فرمائی ہے کہ جس کو تو نے نہیں دیکھا۔ 45:۔ خطیب نے اپنی تاریخ میں حبیب بن ابی ثابت سے روایت کیا کہ (آیت) ” فانزل اللہ سکینتہ علیہ “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر ؓ پر سکینہ نازل فرمائی اور نبی کریم ﷺ پر تو سکینہ (یعنی طمانیت) ہر وقت تھی۔ 46:۔ ابن منذر وابن ابی حاتم والبیہقی نے الاسماء والصفات میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وجعل کلمۃ الذین کفروا السفلی “ میں کلمہ سے مراد مشرک ہے اور ” وکلمۃ اللہھی العلیا “ سے کلمہ سے مراد لا الہ الا اللہ ہے۔ 47:۔ البخاری ومسلم والبزار اور الترمذی والنسائی وابن مردویہ نے ابو الشیخ (رح) نے ضحاک (رح) نے اس طرح روایت کیا ابوموسی (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ ایک آدمی بہادری کے لئے لڑائی لڑتا تھا اور ایک آدمی غیریت کے لئے لڑتا ہے۔ اور ایک آدمی دکھاوے کے لئے لڑتا ہے اس میں سے کون سا اللہ کے راستہ میں ہے۔ آپ نے فرمایا جو شخص اس لئے لڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہوجائے تو وہ اللہ کے راستہ میں ہے۔
Top