Tafseer-e-Mazhari - At-Tawba : 40
اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا١ۚ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلَیْهِ وَ اَیَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِیْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰى١ؕ وَ كَلِمَةُ اللّٰهِ هِیَ الْعُلْیَا١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
اِلَّا تَنْصُرُوْهُ : اگر تم مدد نہ کرو گے اس کی فَقَدْ نَصَرَهُ : تو البتہ اس کی مدد کی ہے اللّٰهُ : اللہ اِذْ : جب اَخْرَجَهُ : اس کو نکالا الَّذِيْنَ : وہ لوگ كَفَرُوْا : جو کافر ہوئے (کافر) ثَانِيَ : دوسرا اثْنَيْنِ : دو میں اِذْ هُمَا : جب وہ دونوں فِي : میں الْغَارِ : غار اِذْ : جب يَقُوْلُ : وہ کہتے تھے لِصَاحِبِهٖ : اپنے س ا تھی سے لَا تَحْزَنْ : گھبراؤ نہیں اِنَُّ : یقیناً اللّٰهَ : اللہ مَعَنَا : ہمارے ساتھ فَاَنْزَلَ : تو نازل کی اللّٰهُ : اللہ سَكِيْنَتَهٗ : اپنی تسکین عَلَيْهِ : اس پر وَاَيَّدَهٗ : اس کی مدد کی بِجُنُوْدٍ : ایسے لشکروں سے لَّمْ تَرَوْهَا : جو تم نے نہیں دیکھے وَجَعَلَ : اور کردی كَلِمَةَ : بات الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوا : انہوں نے کفر کیا (کافر) السُّفْلٰى : پست (نیچی) وَكَلِمَةُ اللّٰهِ : اللہ کا کلمہ (بول) ھِىَ : وہ الْعُلْيَا : بالا وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اگر تم پیغمبر کی مدد نہ کرو گے تو خدا اُن کا مددگار ہے (وہ وقت تم کو یاد ہوگا) جب ان کو کافروں نے گھر سے نکال دیا۔ (اس وقت) دو (ہی ایسے شخص تھے جن) میں (ایک ابوبکرؓ تھے) اور دوسرے (خود رسول الله) جب وہ دونوں غار (ثور) میں تھے اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو خدا ہمارے ساتھ ہے۔ تو خدا نے ان پر تسکین نازل فرمائی اور ان کو ایسے لشکروں سے مدد دی جو تم کو نظر نہیں آتے تھے اور کافروں کی بات کو پست کر دیا۔ اور بات تو خدا ہی کی بلند ہے۔ اور خدا زبردست (اور) حکمت والا ہے
الا تنصروہ فقد نصرہ اللہ اگر تم اس کی مدد نہ کرو گے (نہ کرو ‘ اللہ ان کی ضرور مدد کرے گا جیسے) اللہ نے اس وقت ان کی مدد کی۔ اذ اخرجہ الذین کفروا جبکہ کافروں نے ان کو نکال دیا تھا ‘ یعنی مکہ سے نکال دیا تھا۔ ثانی اثنین ایسی حالت میں کہ وہ دو میں سے دوسرے تھے ‘ یعنی صرف دو آدمی تھے۔ ایک وہ تھے اور ان کے ساتھ ایک اور شخص تھا۔ مراد یہ ہے کہ حضرت ابوبکر ان کے ساتھ تھے (کوئی اور ان کا ساتھی بھی نہ تھا) یا یہ مطلب ہے کہ اگر تم لوگ ان کی مدد نہ کرو گے (نہ کرو) اللہ نے ان کی نصرت لازم کردی ہے ‘ یہاں تک کہ اس وقت بھی ان کی نصرت کی جب ایک کے سوا ان کا کوئی ساتھی نہ تھا ‘ لہٰذا آئندہ بھی کسی وقت اللہ ان کو بےمدد نہ چھوڑے گا۔ کافروں نے رسول اللہ ﷺ کو مکہ سے اگرچہ نکالا نہ تھا لیکن دارالندوہ میں جمع ہو کر چونکہ آپ کو قتل کرنے یا گرفتار کرلینے یا نکال دینے کا مشورہ کیا تھا اور خفیہ تدبیریں کی تھیں ‘ اسلئے نکال دینے کی نسبت کافروں کی طرف کردی ‘ کیونکہ اللہ کی طرف سے مکہ سے نکل جانے کا حکم اسی مشورہ کی وجہ سے ہوا تھا۔ سورت انفال میں یہ قصہ گذر چکا ہے۔ اذ ھما فی الغار جبکہ وہ دونوں غار میں تھے۔ الغار سے مراد وہ پہاڑی غار ہے جو مکہ سے نشیبی جانب تھا۔ اذ یقول لصاحبہ جبکہ وہ پیغمبر اپنے ساتھی (حضرت ابوبکر) سے کہہ رہے تھے۔ اِذْ اَخْرَجَہُ سے اِذْ ہُمَا فِی الْغَار ادل بدل اور اِذْ یَقُوْلُدوسرا بدل ہے۔ ترمذی اور بغوی نے حضرت ابن عمر کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر سے فرمایا : تم میرے غار کے ساتھی ہو اور حوض پر میرے ساتھی ہو گے۔ مسلم نے حضرت ابن مسعود کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر میں (ا اللہ کے سوا) کسی کو خلیل بنانے والا ہوتا تو ابوبکر کو خلیل بنا لیتا ‘ مگر (اب) وہ میرے بھائی اور ساتھی ہیں اور اللہ نے تمہارے ساتھی کو (یعنی مجھے اپنا) خلیل بنا لیا ہے۔ حسن بن فضل کا قول ہے : اگر کوئی حضرت ابوبکر کو رسول اللہ ﷺ کا صحابی نہ کہے تو وہ کافر ہے ‘ قرآنی صراحت کا انکار کرتا ہے۔ باقی صحابہ میں سے اگر وہ کسی کو صاحب رسول اللہ ﷺ نہ کہے تو بدعتی (فاسق) ہوگا ‘ کافر نہ ہوگا۔ لا تحزن ان اللہ معنا غم نہ کر ‘ بلاشبہ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اللہ کی معیت بےکیف ہے۔ حضرت شیخ شہید مرزا مظہر جان جاناں (رح) نے فرمایا : حضرت ابوبکر کی یہی فضلیت بہت بڑی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر کو اپنے ساتھ ملا کر اللہ کی معیت کی دونوں کیلئے یکجائی ثابت کی۔ اللہ کی جو معیت اپنے لئے ثابت کی ‘ وہی معیت حضرت ابوبکر کیلئے بھی ثابت کی۔ جو حضرت ابوبکر کی فضیلت کا انکار کرتا ہے ‘ وہ اس آیت کا انکار کرتا ہے اور جو آیت کا منکر ہے ‘ وہ کافر ہے۔ رہا حضرت ابوبکر کے دل میں فکر پیدا ہونا تو ایسا بزدلی کی وجہ سے نہ تھا ‘ جیسے رافضی تہمت لگاتے ہیں ‘ بلکہ رسول اللہ ﷺ کی ذات مبارک کے متعلق آپ کو اندیشہ ہوا اور انہوں نے (اپنے دل میں) کہا : اگر میں مارا جاؤں تو (کوئی حرج نہیں) ایک آدمی کا قتل ہوگا اور اگر رسول اللہ ﷺ شہید ہوگئے تو امت ہلاک ہوجائے گی۔ ہم غار والی حدیث میں ذکر کریں گے کہ حضرت ابوبکر کو غم رسول اللہ ﷺ کی ذات مبارک کا تھا ‘ اپنی جان کا اندیشہ نہ تھا۔ فصل : ہجرت موسیٰ بن عقبہ اور ابن اسحاق اور امام احمد اور بخاری اور ابن حبان نے حضرت عائشہ کی روایت سے اور ابن اسحاق و طبرانی نے حضرت عائشہ کی بہن حضرت اسماء کی روایت سے بیان کیا ہے۔ حسب بیان بخاری ‘ حضرت عائشہ نے فرمایا : مجھے شعور ہوا تو میں نے اپنے ماں باپ کو ایک (نئے) دین پر چلتے دیکھا۔ کوئی دن ایسا نہ گذرتا تھا کہ صبح و شام رسول اللہ ﷺ ہماے گھر تشریف نہ لاتے ہوں۔ جب مسلمانوں پر زیادہ تکلیفیں پڑیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے خواب میں تمہارا مقام ہجرت دیکھ لیا جہاں بکثرت کھجوروں کے درخت ہیں اور دو سنگلاخ زمینوں کے وسط میں واقع ہے۔ چناچہ مہاجرین مدینہ کو ہجرت کر گئے اور جو لوگ مکہ چھوڑ کر حبشہ کو چلے گئے تھے ‘ وہ بھی عموماً (حبشہ سے) مدینہ کو پہنچ گئے۔ حضرت ابوبکر بھی مدینہ جانے کی تیاری کرنے لگے ‘ لیکن رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : ذرا توقف کرو (ابھی مجھے اجازت نہیں ملی) امید ہے کہ مجھے بھی اجازت مل جائے گی۔ حضرت ابوبکر نے کہا : میرے ماں باپ قربان ! کیا آپ کو اپنے لئے بھی اجازت کی امید ہے ؟ فرمایا : ہاں۔ حضرت ابوبکر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چلنے کی غرض سے رک گئے۔ آپ نے دو اونٹنیاں کیکر کے پتے کھلا کھلا کر چار ماہ تک پالیں۔ ایک روز ہم حضرت ابوبکر کے گھر ٹھیک دوپہر کو بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت اسماء نے کہا : ابا ! رسول اللہ ﷺ تشریف لا رہے ہیں۔ آپ اس روز سر پر کپڑا ڈالے ایسے وقت آ رہے تھے جو خلاف معمول تھا۔ حضرت ابوبکر نے کہا : میرے ماں باپ قربان ! اس وقت جو آ رہے ہیں تو ضرور حکم مل گیا ہے (اسی لئے دوپہر کو آ رہے ہیں) رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے ‘ داخلہ کی اجازت لی اور اندر آگئے اور حضرت ابوبکر سے فرمایا : جو لوگ تمہارے پاس ہوں ‘ ان کو یہاں سے ہٹا دو ۔ حضرت ابوبکر نے عرض کیا : کوئی مخبر نہیں ‘ بس یہی میری دونوں لڑکیاں ہیں۔ دوسری روایت میں آیا ہے : بس یہی آپ کے گھر والے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے یہاں سے نکلنے کی اجازت مل گئی ہے۔ حضرت ابوبکر نے عرض کیا : مجھے ساتھ چلنے کی اجازت دیجئے۔ فرمایا : ہاں (تم میرے ساتھ چلو گے) حضرت ابوبکر رونے لگے ‘ خوشی سے روتے ہوئے میں نے اس سے پہلے کسی کو نہیں دیکھا تھا۔ حضرت ابوبکر نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ‘ میری یہ دو اونٹنیاں ہیں ‘ ان میں سے ایک آپ لے لیجئے۔ فرمایا : قیمت سے (لوں گا) جو اونٹ میرا نہ ہو ‘ اس پر میں سوار نہیں ہوں گا۔ حضرت ابوبکر نے عرض کیا : یہ آپ کی ہے۔ فرمایا : لیکن جس قیمت پر تم نے خریدی ہے۔ حضرت ابوبکر نے عرض کیا : اتنی قیمت پر میں نے خریدی تھی۔ فرمایا : میں اتنی قیمت پر لیتا ہوں۔ حضرت ابوبکر نے کہا : یہ آپ کی ہوگئی۔ بخاری نے غزوۂ رجیع کے بیان میں لکھا ہے کہ یہ اونٹنی جدعاء تھی۔ واقدی نے اس کی قیمت آٹھ سو (درہم) بتائی ہے۔ حضرت عائشہ کا بیان ہے : ہم نے دونوں کیلئے بہترین زادراہ تیار کیا اور ایک تھیلے میں کھانے کا سامان رکھ دیا۔ واقدی نے لکھا ہے کہ کھانے میں بکری کا پکا ہوا گوشت بھی تھا۔ حضرت اسماء نے اپنا کمر بند کاٹ کر اس سے تھیلے کا منہ باندھ دیا ‘ اسی لئے ان کا لقب ذات النطاقین (دو کمربندوں والی) ہوگیا۔ دوسری روایت میں آپ کا لقب ذات النطاق (کمر بند والی) آیا ہے۔ محمد بن یوسف صالحی کا بیان ہے کہ حضرت اسماء نے اپنا کمر بند چیر کر اس کے دو ٹکڑے کر کے ایک سے زاد راہ باندھ دیا اور دوسرے کو خود باندھے رہیں ‘ اسی لئے ان کو ذات النطاق اور ذات النطاقین کہا گیا ‘ ایک کمر بند والی اور دو کمر بند والی آپ کا لقب اسی مناسبت سے ہوگیا۔ حضرت ابن سعد کے نزدیک دو کمر بند والی کہنے کی وجہ یہ ہوئی کہ انہوں نے اپنا کمر بند چیر کر ‘ دو ٹکڑے کر کے ایک سے کھانے کے تھیلے کا منہ باندھ دیا تھا اور دوسرے سے (پانی کے) مشکیزے کا منہ جکڑ دیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر نے قبیلۂ بنی وئل کا ایک آدمی جو اس وقت کافر تھا اور بعد کے زمانہ میں مسلمان ہوا ‘ اجرت پر لے لیا تھا۔ یہ شخص راہ شناس اور ماہر راہنما تھا۔ دونوں حضرات نے اس کو امین بنا کر دونوں اونٹنیاں اس کے سپرد کردیں اور اس سے وعدہ لے لیا کہ تین روز کے بعد غار ثور پر وہ دونوں اونٹنیاں لے کر ملے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی کو اپنے جانے کی اطلاع دے دی اور حکم دے دیا کہ میری جگہ تم یہاں رہ کر لوگوں کی جو امانتیں میرے پاس موجود ہیں ‘ وہ ادا کردینا (پھر چلے آنا) مکہ کے اندر جس شخص کو اپنی کسی چیز کی حفاظت مقصود ہوتی ‘ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس لا کر بطور امانت رکھ دیتا تھا کیونکہ آپ کی سچائی اور امانت پر اس کو بھروسہ ہوتا تھا (گویا سب کی نظر میں آپ صادق و امین تھے) حضرت عائشہ کا بیان ہے : پھر رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر کوہ ثور کے غار پر جا پہنچے۔ بیہقی کا بروایت حضرت عمر بیان ہے کہ رات میں روانہ ہوئے تھے۔ ابن اسحاق اور واقدی کا قول ہے کہ اس دریچے سے نکلے تھے جو حضرت ابوبکر کے گھر کی پشت میں تھا۔ ابو نعیم نے عائشہ بنت قدامہ کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں کھڑکی سے بھیس بدلے ہوئے نکلا۔ سب سے پہلے میرے سامنے ابوجہل آیا مگر اللہ نے اس کو نابینا کردیا ‘ وہ نہ مجھے دیکھ سکا نہ ابوبکر کو۔ ہم دونوں (اس کے سامنے سے) گذر گئے۔ حضرت اسماء کا بیان ہے کہ حضرت ابوبکر اپنا سارا مال یعنی پانچ ہزار درہم لے گئے تھے۔ بلاذری کا بیان ہے کہ اسلام لانے کے وقت حضرت ابوبکر کے پاس چالیس ہزار درہم تھے مگر مدینہ کو ہجرت کرتے وقت ان کے پاس صرف پانچ یا چار ہزار درہم رہ گئے تھے ‘ وہ بھی حضرت ابوبکر نے اپنے بیٹے عبد اللہ کو دے کر بھیج دیا اور انہوں نے لے جا کر غار تک پہنچا دئیے۔ حضرت عائشہ کا بیان ہے : میرے دادا ابو قحافہ جن کی نظر جاتی رہی تھی ‘ آئے اور بولے : خدا کی قسم ! میرا خیال ہے وہ ساری رقم اپنے ساتھ لے گیا۔ میں نے کہا : ابا ! ایسا نہیں ‘ وہ تو ہمارے لئے بہت رقم چھوڑ گئے ہیں۔ یہ کہنے کے بعد میں نے کچھ پتھریاں لے کر اس طاقچہ میں رکھ دیں جہاں میرے باپ رقم رکھا کرتے تھے اور ان پر ایک کپڑا ڈال کر دادا کا ہاتھ پکڑ کر وہاں لے گئی اور ان سے کہا : ابا ! آپ اپنا ہاتھ رکھ کر دیکھ لیجئے کہ یہ رقم رکھی ہے۔ بڑے میاں نے ہاتھ رکھ کر دیکھا اور کہنے لگے : اگر وہ یہ رقم تمہارے لئے چھوڑ گیا ہے تب تو کوئی حرج نہیں۔ اس نے یہ اچھا کیا ‘ اس سے تمہارا کام چل جائے گا۔ خدا کی قسم ! حضرت ابوبکر ہمارے لئے کچھ چھوڑ کر نہیں گئے تھے ‘ مگر میں نے بڑے میاں کو تسلی دینے کیلئے ایسا کیا تھا۔ بیہقی کا بیان ہے کہ جب حضرت ابوبکر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غار کی طرف روانہ ہوگئے تو راستہ میں کبھی رسول اللہ ﷺ کے آگے چلتے تھے ‘ کبھی دائیں ‘ کبھی بائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی وجہ پوچھی تو عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں کوئی آگے گھات میں نہ بیٹھا ہو تو آپ کے آگے ہوجاتا ہوں ‘ پھر اندیشہ ہوتا ہے کہ پیچھے سے کوئی جستجو میں نہ آجائے تو پیچھے ہوجاتا ہوں ‘ اسی طرح دائیں بائیں چلنے لگتا ہوں۔ جب غار کے دہانہ پر پہنچے تو حضرت ابوبکر نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! آپ کو اس خدا کی قسم جس نے آپ کو نبی برحق بنا کر بھیجا ہے ‘ آپ اس کے اندر نہ جائیں۔ آپ سے پہلے میں اندر جا کر دیکھ لوں۔ اگر اندر کوئی (موذی کیڑا) ہوگا تو آپ سے پہلے مجھ پر اس کا وار ہوگا۔ چناچہ آپ پہلے داخل ہوگئے اور ہاتھ سے ٹٹول کر دیکھنے لگے۔ جو سوراخ نظر آتا ‘ اپنا کپڑا پھاڑ کر اس میں ٹھونس دیتے تھے۔ اس طرح سب سوراخ بند کر دئیے ‘ صرف ایک سوراخ رہ گیا جس کو بند کرنے کیلئے کپڑا نہ رہا تو آپ نے اس کے منہ پر اپنی ایڑی لگا دی ‘ پھر رسول اللہ ﷺ غار میں داخل ہوگئے۔ سوراخ کے اندر سے سانپ حضرت ابوبکر کو ڈسنے لگے اور آپ کے آنسو بہنے لگے (مگر آپ نے ایڑی نہ ہٹائی) ابن ابی شیبہ اور ابن منذر کی خود حضرت ابوبکر سے روایت ہے کہ جب ہم دونوں غار پر پہنچے تو ایک سوراخ نظر آیا۔ میں نے اس سوراخ پر اپنی دونوں ٹانگیں اڑا دیں اور عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! اگر کوئی سانپ بچھو ہوگا تو پہلے مجھے ڈسے گا (آپ محفوظ رہیں گے) ابن مردویہ نے جندب بن سفیان کی روایت سے بیان کیا ہے کہ جب حضرت ابوبکر رسول اللہ ﷺ کے ہمرکاب غار پر پہنچے تو عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! آپ پہلے غار میں نہ جائیں ‘ اوّل میں اس کو صاف کرلوں۔ چناچہ آپ پہلے غار میں داخل ہوگئے اور صفائی کرنے میں کوئی چیز آپ کے ہاتھ میں لگ گئی ‘ آپ ہاتھ سے خون پونچھنے لگے اور کہنے لگے : تو صرف ایک انگلی ہے جو زخمی ہوگئی ہے۔ جو کچھ تجھے دکھ پہنچا ہے ‘ وہ اللہ کی راہ میں پہنچا ہے۔ ابونعیم نے حضرت انس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر سے دریافت کیا : تمہارا کپڑا کہاں گیا ؟ حضرت ابوبکر نے وہ واقعہ عرض کردیا جس میں کپڑے کو کام میں لائے تھے۔ حضور ﷺ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی اور فرمایا : اے اللہ ! ابوبکر کو جنت کے اندر میرے درجہ میں میرے ساتھ کردینا۔ اللہ نے وحی بھیجی کہ آپ کی دعا قبول ہوگئی۔ زرین کا بیان ہے کہ حضرت عمر کے سامنے حضرت ابوبکر کا تذکر آیا تو آپ رونے لگے اور فرمایا : مجھے دل سے یہ بات پسند ہے کہ میری زندگی کے سارے اعمال کا مجموعہ حضرت ابوبکر کے ایک دن اور ایک رات کے عمل کے برابر (درجہ میں) ہوجائے۔ رات تو وہ جس میں حضرت ابوبکر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غار کی طرف چلے تھے اور غار پر پہنچ کر عرض کیا تھا : آپ کو خدا کی قسم ‘ آپ پہلے اس کے اندر نہ جائیں ‘ میں اوّل داخل ہوجاؤں۔ اگر کچھ ہوگا تو مجھے دکھ پہنچ جائے گا ‘ آپ محفوظ رہیں گے۔ چناچہ آپ نے اندر جا کر غار کو صاف کیا۔ ایک جانب ایک سوراخ نظر آیا تو اپنا تہبند پھاڑ کر اس سوراخ کو بند کردیا ‘ مگر دو سوراخ اور رہ گئے تو آپ نے دونوں پاؤں ان دونوں کے منہ کے اندر اڑا دئیے ‘ پھر رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : اب آپ ﷺ اندر آ جائیے۔ حضور ﷺ اندر پہنچ گئے اور حضرت ابوبکر کی گود میں سر رکھ کر سو گئے۔ ایک سوراخ کے اندر سے کسی کیڑے نے حضرت ابوبکر کے پاؤں میں کاٹ لیا مگر اس خیال سے کہ رسول اللہ ﷺ بیدار نہ ہوجائیں ‘ آپ نے حرکت بھی نہیں کی۔ شدت تکلیف کی وجہ سے آپ کے آنسو بہہ کر رسول اللہ ﷺ کے چہرۂ مبارک پر گرے تو آنکھ کھل گئی اور پوچھا : ابوبکر ! کیا بات ہے ؟ حضرت ابوبکر نے کہا : میرے ماں باپ قربان ! کسی کیڑے نے مجھے ڈس لیا۔ حضور ﷺ نے اس پر فوراً تھتکار دیا اور تکلیف جاتی رہی (مگر آخری عمر میں) پھر اس زہر کا حملہ ہوا اور یہی آپ کی وفات کا سبب بنا اور دن وہ کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی تو عرب مرتد ہوگئے اور کہنے لگے : ہم زکوٰۃ نہیں دیں گے۔ حضرت ابوبکر نے کہا : اگر یہ لوگ اونٹ کی ٹانگ میں باندھنے والی ایک رسی دینے سے بھی (جو رسول ان ﷺ کے زمانہ میں دیا کرتے تھے) انکار کریں گے تو میں رسی کیلئے ان سے جہاد کروں گا۔ میں نے عرض کیا : اے خلیفۂ رسول ﷺ ! لوگوں کو ملائے رکھئے اور ان سے نرمی کا سلوک کیجئے۔ فرمایا : کیا تم جاہلیت میں تو بڑے قوی تھے اور اسلام میں آکر بزدل ہوگئے ؟ وحی بند ہوگئی ‘ دین کامل ہوگیا۔ کیا میرے جیتے جی دین میں کمی ہوسکتی ہے ؟ ابن سعد ‘ ابو نعیم ‘ بیہقی اور ابن عساکر نے ابو مصعب مکی کی روایت سے بیان کیا ‘ ابو مصعب نے کہا : میں نے حضرت انس بن مالک ‘ حضرت زید بن ارقم اور حضرت مغیرہ بن شعبہ کو پایا اور ان سب کو یہ بیان کرتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ جب غار کے اندر داخل ہوگئے تو غار کے منہ پر اللہ نے درخت راہ اگا دیا (جس نے غار کا منہ چھپالیا) اور بحکم خدا مکڑی نے غار کے منہ پر جالا بھی تن دیا اور دو جنگلی کبوتروں نے غار کے منہ میں بسیرا بھی کرلیا۔ جب قریشی جوان ہر طرف سے ڈنڈے ‘ لاٹھیاں اور تلواریں لئے آپہنچے اور رسول اللہ ﷺ سے ان کا فاصلہ چالیس گز رہ گیا تو ایک شخص نے غار میں دیکھا تو اس کو دو جنگلی کبوتر نظر آئے ‘ وہ سمجھا کہ غار کے اندر کوئی نہیں۔ اس کی بات رسول اللہ ﷺ نے سن لی جس سے آپ نے یقین کرلیا کہ اللہ نے آئی ہوئی مصیبت ٹال دی اور دونوں کبوتروں کو دعا دی اور ان کی بھلائی کا بدلہ مقرر فرما دیا۔ چناچہ وہ جوڑا حرم میں پہنچا ‘ وہاں ان کے بچے ہوئے اور حرم کے سارے کبوتر انہی کی نسل سے ہوئے۔ امام احمد نے حسن سند کے ساتھ حضرت ابن عباس کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے قدموں کے نشان پر مشرک پہاڑ تک آگئے ‘ پہاڑی پر پہنچ کر قدموں کے نشانات گڑبڑ ہوگئے مگر وہ پہاڑی پر چڑھ کر غار کی طرف سے گذر گئے اور غار کے منہ پر مکڑی کا جالا تنا ہوا دیکھ کر کہنے لگے : اگر اس میں کوئی اندر گیا ہوتا تو جالا منہ پر تنا ہوا نہ ہوتا۔ غرض رسول اللہ ﷺ وہاں تین رات ٹھہرے رہے۔ قاضی حافظ ابوبکر بن سعید شیخ نسائی نے مسند الصدیق میں حسن بصری کا بیان نقل کیا ہے کہ جب قریش رسول اللہ ﷺ کی تلاش میں آئے اور غار کے منہ پر پہنچے اور مکڑی کا جالا تنا ہوا دیکھا تو کہنے لگے : اگر کوئی اس میں داخل ہوا ہوتا تو جالا منہ پر نہ ہوتا۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے اور حضرت ابوبکر نگرانی کر رہے تھے۔ حضرت ابوبکر نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! یہ آپ کی قوم والے آپ کی تلاش میں آپہنچے۔ خدا کی قسم ! مجھے اپنی ذات کے خیال سے تو رونا نہیں آ رہا ہے ‘ رونا اس اندیشہ کی وجہ سے ہے کہ کہیں حضور ﷺ پر کوئی ناگوار حادثہ نہ ہوجائے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابوبکر ! کچھ اندیشہ نہ کرو ‘ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ صحیحین میں مذکور ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! ہم غار میں ہیں (اور قریش اوپر ہیں) اگر ان میں سے کسی نے اپنے قدموں کی طرف دیکھ لیا تو نیچے ہم کو دیکھ لے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابوبکر ! تمہارا ان دو شخصوں کے متعلق کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ ہے (یعنی اللہ ان کے ساتھ ہے) ۔ ابو نعیم نے حلیہ میں عطاء بن میسرہ کی روایت سے لکھا ہے کہ مکڑی نے (ا اللہ کے پیغمبروں کی حفاظت کیلئے) دو بار جالا بنا ‘ ایک بار حضرت داؤد کی حفاظت کیلئے جب کہ طالوت ان کی جستجو کر رہا تھا اور ایک بار رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کیلئے جبکہ حضور ﷺ غار میں تھے۔ بلاذری نے تاریخ میں اور ابو سعید نے بیان کیا کہ مشرکوں نے ایک شخص کو جس کا نام علقمہ بن کرز بن ہلال خزاعی تھا ‘ مزدوری پر لے لیا تھا۔ علقمہ فتح مکہ کے سال مسلمان ہوگئے تھے (لیکن ہجرت کے وقت کافر تھے) علقمہ قدموں کے نشانات کے پیچھے پیچھے سب کو لے کر گیا۔ مکہ کے نشیب میں جب غار ثور پر پہنچا تو کہنے لگا : یہاں قدموں کے نشانات کٹ گئے۔ میں نہیں سمجھتا دائیں کو گئے یا بائیں جانب۔ پھر پہاڑ پر چڑھ گیا اور غار کے دہانے پر پہنچ گیا۔ امیہ بن خلف نے کہا : یہاں تو محمد کی پیدائش سے بھی پہلے سے مکڑی کا جالا ہے۔ پھر امیہ نے غار کے (منہ پر) پیشاب کردیا۔ بیہقی نے حضرت عروہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ مشرکوں کو نہ ملے تو وہ سوار ہو کر آپ کی تلاش میں ہر طرف کو چل دئیے اور چشموں والوں کے پاس بھی انہوں نے آدمی بھیج دئیے۔ ان کیلئے بڑا معاوضہ بھی مقرر کردیا (کہ اگر وہ پتہ نشان بتادیں گے تو ان کو مقررہ معاوضہ دیا جائے گا) اور اس پہاڑ پر چڑھ گئے جس کے اندر وہ غار تھا جس میں رسول اللہ ﷺ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر نے ان کی آوازیں سن لیں۔ حضرت ابوبکر ڈر کر رونے لگے ‘ غم واندوہ اور خوف ان پر مسلط ہوگیا۔ حضور ﷺ نے اس وقت ان سے کہا : ابوبکر ! غم نہ کرو ‘ یقیناً اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اسی کے متعلق اللہ نے نازل فرمایا : فانزل اللہ سکینتہ علیہ یعنی اللہ نے اپنی طرف سے اطمینان رسول اللہ ﷺ پر نازل فرمایا کہ آپ نے حضرت ابوبکر سے فرمایا : غم نہ کرو ‘ بلاشبہ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ کذا ذکر البلاذری ابن ابی حاتم ‘ ابو الشیخ ‘ ابن مردویہ ‘ بیہقی اور ابن عساکر نے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ (عَلَیْہِ کی ضمیر حضرت ابوبکر کی طرف راجع ہے ‘ یعنی) اللہ نے اپنا اطمینان حضرت ابوبکر پر نازل فرما دیا ‘ جس کی صورت یہ ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : غم نہ کرو ‘ بلاشبہ اللہ ہمارے ساتھ ہے (اس قول سے حضرت ابوبکر کے دل میں اطمینان پیدا ہوگیا) رسول اللہ ﷺ کو تو پہلے سے ہی اطمینان حاصل تھا۔ یہ مطلب زیادہ صحیح ہے۔ فاء (حرف تعقیب) اس پر دلالت کر رہا ہے ‘ پھر قریب ترین مرجع کی طرف ضمیر کو لوٹانا بھی زیادہ مناسب ہے۔ وایدہ بجنود لم تروھا اور اللہ نے ان کی مدد اس لشکر سے کی جو تم کو دکھائی نہیں دیا۔ یعنی ملائکہ کی فوج بھیج دی جس نے کفار کے چہرے اور نظریں مار مار کر پھیر دئیے تاکہ وہ دیکھ نہ سکیں۔ ابو نعیم نے حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق کی روایت سے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر نے ایک شخص کو غار کی طرف منہ کئے دیکھا تو عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! یہ ہم کو دیکھ لے گا۔ فرمایا : ہرگز نہیں ‘ فرشتے اپنے پروں سے اس کے سامنے آڑ کرلیں گے۔ کچھ دیر گذرنے نہ پائی تھی کہ وہ شخص سامنے بیٹھ کر رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر کی طرف منہ کر کے پیشاب کرنے لگا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر سے فرمایا : ابوبکر ! اگر یہ ہم کو دیکھ لیتا تو ایسا نہ کرتا۔ بعض علماء نے کہا کہ فرشتوں نے کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دیا کہ وہ لوٹ گئے۔ مجاہد اور کلبی نے کہا : بدر کے دن فرشتوں نے آپ کی مدد کی تھی۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ جب رسول اللہ ﷺ غار کے اندر تھے ‘ اس وقت اللہ نے دشمنوں کے فریب کو ان کی طرف سے پھیر دیا اور ان کو ناکام کردیا ‘ پھر بدر کے دن بھی ملائکہ کو بھیج کر اپنی نصرت کا اظہار کیا۔ ابن عدی اور ابن عساکر نے حضرت انس کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسان سے فرمایا : کیا ابوبکر کے متعلق بھی تم نے کچھ کہا ہے ؟ حضرت حسان نے عرض کیا : جی ہاں۔ فرمایا : تو کہو ‘ میں سنوں گا۔ حضرت حسان نے کہا : وہ اونچے غار کے اندر دو میں کے دوسرے تھے جبکہ دشمن پہاڑ پر چڑھا ہوا چکر کاٹ رہا تھا۔ صحابہ جانتے تھے کہ ابوبکر سارے انسانوں میں سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کے محبوب تھے ‘ آپ نے ان کے برابر کسی کو نہیں قرار دیا۔ یہ شعر سن کر رسول اللہ ﷺ ہنس دئیے کہ داڑھیں (یعنی وہ دانت جو آخری داڑھوں اور سامنے کے دانتوں کے درمیان ہوتے ہیں) نمودار ہوگئیں۔ پھر فرمایا : حسان ! جیسا تم نے کہا ‘ وہ ایسے ہی ہیں۔ حضرت عائشہ کا بیان ہے : پھر تین رات دونوں غار میں چھپے رہے ‘ اس عرصے عبد اللہ بن ابی بکر بھی انہی کے پاس رات کو رہتے تھے۔ حضرت عبد اللہ ہوشیار اور بات کو جلد سمجھنے والے نوجوان تھے۔ سحر کو اندھیرے ہی میں واپس آجاتے تھے اور صبح کو قریش کے ساتھ اس طرح ہوجاتے تھے جیسے رات کو انہی کے پاس رہے ہوں (دن میں) جو بات سنتے اس کو یاد رکھتے اور جب تاریکی ہوجاتی تو جا کر دن بھر کی خبروں کی اطلاع دیتے۔ ابو اسحاق کا بیان ہے کہ حضرت اسماء بنت ابوبکر کھانا بنا کر شام کو پہنچا دیتی تھیں۔ عامر بن فہیرہ جو قریش کے چرواہوں کے ساتھ حضرت ابوبکر کی بکریاں چرایا کرتا تھا ‘ شام کو ایک گھنٹہ رات گئے (جانوروں کو لے کر) غار پر پہنچ جاتا تھا ‘ اس طرح تازہ دودھ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر کو رات کو مل جاتا تھا۔ ہر رات وہ ایسا ہی کرتا تھا۔ جب تین راتیں گذر گئیں اور تلاش کرنے والے لوگوں کو سکون ہوگیا تو وہ شخص جس کو رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر نے سواریاں پہنچانے کیلئے مزدوری پر ٹھہرایا تھا ‘ دونوں کے اونٹ لے کر آپہنچا۔ دونوں حضرات سوار ہوگئے۔ عامر بن فہیرہ بھی راستہ میں خدمت کرنے کیلئے ساتھ ہوگیا۔ عامر بن فہیرہ ‘ عبد اللہ بن طفیل کا غلام تھا اور عبد اللہ بن طفیل بن سنجرہ حضرت عائشہ کا اخیافی بھائی تھا۔ راہنما دونوں حضرات کو عسفان سے نشیب کی جانب ساحل کے راستہ سے لے چلا ‘ پھر امج پر پہنچ کر اس نے راستہ کاٹا۔ امام احمد اور شیخین نے بیان کیا ہے کہ حضرت براء بن عازب نے حضرت ابوبکر سے دریافت کیا : جس رات کو آپ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چلے تھے ‘ اس کی تفصیل بتائیے کہ آپ دونوں حضرات نے کیا کیا تھا ؟ آپ نے فرمایا : رات بھر اور آدھے دن چلتے رہے۔ جب ٹھیک دوپہر ہوگئی اور راستہ خالی ہوگیا ‘ کوئی راہ گیر راستہ میں نظر نہ آتا تھا اور ایک لمبی سایہ دار چٹان سامنے نظر آئی۔ اس کے نیچے دھوپ کا اثر نہیں پہنچا تھا ‘ ہم وہیں اتر پڑے اور چٹان کے پاس پہنچ کر میں نے اپنے ہاتھ سے وہاں ایک جگہ رسول اللہ ﷺ کے سونے کیلئے ٹھیک کی ‘ پھر اپنے ساتھ کی پوستین اس جگہ بچھا دی اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا : آپ یہاں سو جائیے ‘ میں چاروں طرف کا چوکیدارا کرتا رہوں گا۔ حضور ﷺ سو گئے اور میں باہر آکر ماحول کی نگرانی کرنے لگا۔ مجھے ایک چرواہا نظر آیا جو اپنی بکریاں لئے چٹان کی طرف اسی غرض سے آ رہا تھا جس غرض سے ہم وہاں اترے تھے۔ میں (آگے بڑھ کر) اس سے ملا اور پوچھا : تو کس کا غلام ہے ؟ اس نے مکہ والوں میں سے ایک آدمی کا نام لیا۔ میں اس کو پہچان گیا اور پوچھا : تیری بکریوں کے پاس کچھ دودھ بھی ہے ؟ اس نے کہا : جی ہاں۔ میں نے کہا : تو کیا میں دودھ دوہ لوں ؟ اس نے کہا : جی ہاں۔ چناچہ اس نے ایک بکری کو پکڑا ‘ میں نے کہا : اس کے تھن جھاڑ کر خاک دھول صاف کر دے۔ اس نے مشکل سے ایک بڑا پیالہ دودھ کا دوہ کر مجھے دیا۔ میرے پاس ایک لوٹا تھا جس میں رسول اللہ ﷺ کے پینے اور وضو کرنے کیلئے میں پانی رکھتا تھا اور اس کے منہ پر کپڑے کا ایک ٹکڑا پڑا ہوا تھا۔ میں دودھ لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا مگر بیدار کرنا مناسب نہ سمجھا اور بیدار کرنے کی نیت سے کھڑے کھڑے دودھ کے برتن میں پانی ڈالنے لگا ‘ برتن کا نچلا حصہ ٹھنڈا ہوگیا۔ اتنے میں حضور ﷺ بیدار ہوگئے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! کچھ دودھ پی لیجئے۔ آپ نے دودھ پی لیا اور میں خوش ہوگیا۔ پھر فرمایا : کیا ابھی روانگی کا وقت نہیں آیا ؟ میں نے عرض کیا : آگیا۔ چناچہ دھوپ ڈھلنے کے بعد ہم روانہ ہوگئے۔ طبرانی ‘ حاکم ‘ ابو نعیم اور ابوبکر شافعی نے حضرت سلیط بن عمرو انصاری کی روایت سے بیان کیا اور حاکم نے اس کو صحیح بھی کہا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر اور عامر بن فہیرہ اور راہنما مدینے کو جانے کے ارادے سے نکلے تو ان کا گذر ام معبد خزاعی کے خیمہ کی طرف سے ہوا۔ ام معبد رسول اللہ ﷺ کو پہچانتی نہ تھی۔ ادھیڑ عمر کی عورت تھی ‘ پردہ نہ کرتی تھی ‘ پاکدامن تھی ‘ خیمہ کے صحن میں بیٹھا کرتی تھی اور مسافروں کو کھلاتی پلاتی تھی۔ ان حضرات نے اس سے گوشت اور چھوارے مول لینے کی غرض سے طلب کئے مگر چونکہ اس زمانہ میں وہ لوگ نادار اور کال میں مبتلا تھے ‘ اسلئے ام معبد کے پاس کچھ نہ تھا۔ کہنے لگی : خدا کی قسم ! اگر ہمارے پاس کچھ ہوتا تو ہم تم کو دکھ میں نہ رکھتے۔ رسول اللہ ﷺ کو خیمہ کے ایک کونے میں ایک بکری دکھائی دی۔ فرمایا : ام معبد ! یہ بکری کیسی ہے ؟ ام معبد نے کہا : کمزوری کی وجہ سے بکریوں کے ساتھ (جنگل کو) نہیں جاسکی ہے۔ فرمایا : کیا اس کے پاس دودھ ہے ؟ ام معبد نے عرض کیا : وہ تو بہت ہی کمزور ہے۔ فرمایا : کیا تمہاری اجازت ہے کہ میں اس کو دوہ لوں ؟ ام معبد نے عرض کیا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ! اس کے پاس تو کبھی نر نہیں آیا۔ اگر آپ کو اس کے پاس دودھ معلوم ہوتا ہے تو آپ کو اختیار ہے۔ حضور ﷺ نے اس کو بلوا کر اس کے تھنوں کو اور پشت کو سہلایا اور بسم اللہ کہی اور ام معبد کیلئے بکری کے سلسلے میں کچھ دعا کی۔ بکری نے فوراً ٹانگیں چیر دیں اور دودھ جاری ہوگیا۔ حضور ﷺ نے ایک برتن منگوایا ‘ برتن اتنا بڑا تھا کہ وہ سب لوگ اس میں دودھ پی کر سیر ہوجایا کرتے تھے ‘ آپ نے اسی برتین میں دودھ دوہا۔ دودھ کے جھاگ منہ تک آگئے اور دودھ اوپر تک بھر گیا۔ حضور ﷺ نے ام معبد کو (اوّل) دودھ پلایا ‘ وہ سیر ہوگئی تو اپنے ساتھیوں کو پلایا ‘ وہ بھی سیر ہوگئے تو خود پیا اور فرمایا : پلانے والے کو سب سے آخر میں پینا چاہئے۔ پھر دوبارہ دوہا ‘ پھر بھی برتن بھر گیا اور بھرا برتن اس کے پاس چھوڑ کر سب روانہ ہوگئے۔ ابن سعد اور ابو نعیم نے ام معبد کا بیان نقل کیا ہے کہ جس بکری پر رسول اللہ ﷺ نے ہاتھ پھیرا تھا ‘ وہ میرے پاس 18 ھ ؁ میں بھی تھی جو حضرت عمر کی خلافت کا زمانہ تھا۔ یہ سال انتہائی کال کا تھا ‘ روئے زمین پر (سبزی نام کی) کوئی چیز باقی نہ رہی تھی مگر ہم صبح شام اس بکری کا دودھ دوہا کرتے تھے (یعنی وہ برابر دودھ دیتی تھی ‘ اس کا دودھ خشک نہ ہوا تھا) ۔ بیہقی نے دوسرے طریقۂ سند سے کچھ کمی بیشی کے ساتھ ام معبد کا قصہ نقل کیا ہے کہ شام کو ام معبد کا بیٹا اپنی بکریاں لے کر واپس آیا تو ام معبد نے اس سے کہا : یہ باکھر بکری اور چھری ان دونوں آدمیوں کے پاس لے جا اور ان سے جا کر کہہ دے کہ میرے باپ نے کہا ہے کہ آپ لوگ اس بکری کو ذبح کر کے (بھون کر) کھا لیں اور کھلا دیں۔ حضور ﷺ نے اس لڑکے سے فرمایا : تو چھری لے جا اور ایک بڑا پیالہ لے آ۔ اس نے کہا : یہ تو باکھر ہے ‘ اس کے پاس دودھ نہیں ہے ___ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اس کے تھنوں پر ہاتھ پھیرا اور پیالہ بھر کر دودھ دوہا۔ اس روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکر نے فرمایا : ہم دو رات وہاں ٹھہرے رہے ‘ پھر روانہ ہوگئے۔ ام معبد رسول اللہ ﷺ کو مبارک کہنے لگی۔ اس کی بکریاں بہت ہوگئیں یہاں تک کہ (کچھ مدت کے بعد) وہ بکریاں لے کر مدینہ کو آئی۔ اس کی طرف سے حضرت ابوبکر کا گذر ہوا۔ ام معبد کے بیٹے نے آپ کو دیکھ لیا اور پہچان لیا اور اپنی ماں سے کہا : اماں ! یہ آدمی وہی ہے جو مبارک کے ساتھ تھا۔ ام معبد اٹھ کر حضرت ابوبکر کے پاس آئی اور بولی : اے عبدا اللہ ! وہ آدمی جو تمہارے ساتھ تھا ‘ کون شخص ہے ؟ حضرت ابوبکر نے فرمایا : وہ اللہ کے نبی ہیں۔ کہنے لگی : مجھے ان کے پاس لے چلو (حضرت ابوبکر اس کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے گئے) رسول اللہ ﷺ نے اس کو کھانا کھلایا اور کپڑے دئیے اور وہ مسلمان ہوگئی۔ ہشام بن حبش کا بیان ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد معبد کا باپ ‘ دبلی حاملہ بکریاں ہنکاتا گھر واپس آیا اور دودھ کو دیکھ کر تعجب سے پوچھا : معبد کی ماں ! یہ دودھ تمہارے پاس کہاں سے آیا ؟ بکریاں تو دور (جنگل میں) تھیں اور گھر میں کوئی دودھیاری بکری نہ تھی۔ معبد کی ماں نے کہا : یہ ایک بابرکت آدمی کی برکت ہے جس کا واقعہ اس اس طرح ہوا۔ معبد کے باپ نے کہا : ام معبد ! اس کے کچھ حالات بیان کرو۔ ام معبد نے کہا : ایک چمکدار چہرے والا ‘ روش رو ‘ شاندار ‘ حسین ‘ خوش اخلاق آدمی تھا۔ نہ توند نکلنے کی وجہ سے وہ بدہیئت تھا نہ سر چھوٹا ہونے کے سبب حقیر معلوم ہوتا تھا (یعنی نہ توندیلا ہونے کا اس میں عیب تھا نہ سر چھوٹا ہونے سے پیدا ہونے والی حقارت) سیاہ کشادہ چشم اور گھنی پلکوں والا تھا ‘ اس کی آواز میں گرج یا تیزی تھی ‘ داڑھی گھنی ‘ بھنویں پتلی لمبی اور ملی ہوئی تھیں۔ خاموشی کے وقت باوقار اور کلام کرنے کے وقت پررونق ‘ دور سے بہت ہی حسین اور روسن چہرہ نظر آتا تھا اور قریب سے بڑا شیریں اور خوش (گفتار) اس کا کلام بلیغ ‘ مناسب ‘ ممتاز تھا ‘ نہ کم ‘ ناقص ‘ نہ زیادہ بکواس۔ گفتگو پروئے ہوئے موتیوں کی طرح تھی۔ اس کا قد میانہ تھا ‘ نہ زیادہ طویل عیب دار نہ اتنا چھوٹا کہ آنکھوں کو حقیر معلوم ہو۔ اس کا قد دو ٹہنیوں کے درمیان کی ٹہنی تھی ‘ نہایت خوش منظر اور عالی قدر۔ اس کے ساتھی اس کو گھیرے رہتے تھے۔ اگر وہ کہتا کہ سنو تو کان لگا کر خاموشی کے ساتھ اس کی بات سنتے تھے اور اگر وہ کوئی حکم دیتا تو تعمیل حکم کیلئے ایک دوسرے سے پیش قدمی کرتا تھا۔ وہ مخدوم ‘ مطاع تھا ‘ بدخلق نہ تھا۔ ابو معبد نے کہا : خدا کی قسم ! یہ تو وہی قریشی ہے جس کے مکہ میں ظہور کا ہم سے ذکر کیا گیا تھا۔ میرا ارادہ تو اس کے پاس رہنے کا تھا اور اگر مجھے کوئی راہ ملی تو آئندہ ضرور ایسا کروں گا۔ حضرت اسماء کا بیان ہے : جب رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر نکل کر چلے گئے تو ہمارے پاس کچھ قریشی آئے جن میں ابوجہل بھی تھا ‘ آکر دروازہ پر کھڑے ہوگئے۔ میں باہر نکل کرگئی تو ان لوگوں نے مجھ سے پوچھا : تیرا باپ کہاں ہے ؟ میں نے کہا : خدا کی قسم ! مجھے نہیں معلوم کہ میرے باپ کہاں ہیں۔ ابوجہل بڑا بدکلام ‘ خبیث تھا ‘ اس نے میرے رخسار پر ایک طمانچہ مارا جس سے میری بالی گر پڑی۔ پھر سب لوٹ گئے۔ ہم تین روز اسی حالت میں رہے ‘ ہم کو معلوم نہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کدھر گئے۔ تین روز کے بعد مکہ کے نشیبی جانب سے ایک جن عرب کے گانے کی طرح کچھ اشعار گاتا ہوا آیا۔ لوگ اس کے پیچھے لگے ہوئے تھے مگر وہ کسی کو دکھائی نہ دیتا تھا۔ اشعار کا ترجمہ : مالک عرش ! جزائے خیردے ان دو ساتھیوں کو جنہوں نے ام معبد کے خیمہ میں دوپہر کو قیام کیا۔ دونوں اس خیمہ میں ہدایت کے ساتھ اترے جس سے مجھے ہدایت مل گئی اور جو محمد کا ساتھی ہوگیا ‘ وہ کامیاب ہوگیا۔ اے بنی قصی ! اللہ نے محمد کی وجہ سے تمہاری طرف سے ناقابل مقابلہ فضائل اور سرداری کو نہیں روکا۔ بنی کعب کو مبارک ہو کہ ایک عورت مسلمانوں کے گھات کے راستہ میں مقیم تھی اور وہیں وہ رہتی تھی۔ اپنی بہن سے اس کی بکری اور برتن کے متعلق دریافت کرو۔ اگر تم بکری سے پوچھو گے تو وہ شہادت دے گی۔ ایک گابھن بکری اس نے منگوائی اور اس نے اپنے تھنوں کی جڑوں سے خالص جھاگ دار دودھ دیا۔ مْحمد وہ بکری اسی عورت کے پاس چھوڑ گئے تاکہ دودھ دوہنے والا اس کو پانی پر اتارتے اور پانی سے نکالتے وقت دو ہے (یعنی ام معبد کا شوہر اس بکری کو دوہا کرے اور جنگل کو لے جائے اور پانی پلانے کیلئے چشمے پر اتارے اور پھر پانی پلا کر وہاں سے واپس لائے) ۔ بیہقی کی روایت میں حسن سند کے ساتھ ام معبد کے قصہ کے ذیل میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو تلاش کرتے کرتے قریش ام معبد کے پاس پہنچے اور حضور ﷺ کے متعلق اس سے دریافت کیا اور حلیہ بیان کیا۔ ام معبد نے جواب دیا : تم کیا کہتے ہو ‘ ایک مہمان ہمارے پاس ٹھہرا تھا اور گابھن بکری کا اس نے دودھ دوہا تھا۔ قریش نے کہا : ہمارا مقصد اسی شخص کو دریافت کرنا تھا۔ بیہقی نے کہا : ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیمہ کے گوشہ میں بکری کو دیکھا ہو ‘ پھر اس کا بیٹا بکریاں لے کر واپس آیا ہو ‘ پھر اس کا شوہر آیا ہو اور رسول اللہ ﷺ کے اوصاف شوہر سے ام معبد نے بیان کئے ہوں۔ میں کہتا ہوں : شاید یہی بات قریش کو رسول اللہ ﷺ کی تلاش میں یہاں تک لائی ہو۔ سُراقہ کا قصّہ شیخین نے صحیحین میں نیز امام احمد نے سراقہ کی روایت سے اور امام احمد و یعقوب بن سفیان نے حضرت ابوبکر کے حوالے سے بیان کیا۔ سراقہ کا بیان ہے : کفار قریش کے قاصد ہمارے پاس آئے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر کے قتل یا گرفتار کرنے والے کیلئے ایک انعام مقرر کیا اور کہا کہ دونوں میں جس کسی کو کوئی قتل یا گرفتار کرے گا ‘ اس کو سو اونٹنیاں دی جائیں گی۔ میں اپنی قوم بنی مدلج کے ساتھ ایک جلسہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی آکر کھڑا ہوا اور اس نے کہا : سراقہ ! میں نے ابھی ساحل پر کچھ اشخاص دیکھے ہیں۔ دوسری روایت میں ہے : تین سوار دیکھے ہیں ‘ میرے خیال میں وہ محمد اور ان کے ساتھی تھے۔ یہ سنتے ہی میں پہچان گیا کہ ہوں نہ ہوں وہی ہوں گے۔ میں نے اس شخص کو اشارہ کیا کہ خاموش رہو۔ وہ خاموش ہوگیا۔ میں اٹھ کر گھر میں گیا اور باندی کو حکم دیا کہ میرا گھوڑا لے کر بطن وادی میں پہنچا دے اور خود اپنے خیمہ کے پیچھے سے ہتھیار لے کر نکل چلا اور نیزہ کو گھسیٹتا گیا ‘ بلم کا بالائی حصہ نیچے کو کردیا۔ اس طرح گھوڑے تک پہنچا اور سوار ہو کر تیز دوڑاتا ہوا چل دیا ‘ یہاں تک کہ میری دونوں اشخاص پر نظر پڑگئی۔ قریب پہنچا ہی تھا کہ گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور میں نیچے گرپڑا۔ میں پھر اٹھ کر کھڑا ہوا اور ترکش کی طرف ہاتھ بڑھا کر اس میں سے فال لینے کیلئے تیر نکالے کہ میں ان کو نقصان پہنچا سکوں گا یا نہیں۔ فال لینے پر تیر وہی نکلا جو مجھے پسند نہ تھا ‘ یعنی فال یہ نکلی کہ میں ان کو ضرر نہ پہنچا سکوں گا۔ (1) [ عرب کے مشرک تیروں سے فال نکالتے تھے۔ کسی تیر دان میں تین تیر رکھتے تھے ‘ ایک تیر پر لکھا ہوتا تھا کہ یہ کام کرو ‘ ایک پر لکھا ہوتا کہ نہ کرو جبکہ تیسرا خالی ہوتا تھا۔ پھر تیر دان کو الٹتے تھے ‘ اول تیر نکلتا تو اس کام کو کرتے ‘ دوسرا نکلتا تو نہ کرتے اور تیسرا (جس کو عقل کہتے تھے) نکلتا تو دوبارہ فال نکالتے تھے۔] مگر مجھے امید تھی کہ میں اس فال کو الٹ دوں گا اور سو اونٹنیاں لے لوں گا۔ چناچہ میں پھر گھوڑے پر سوار ہوگیا اور تیروں کی فال نہ مانی اور گھوڑے کو تیز دوڑاتا چلا تاکہ وہ مجھے قریب پہنچا دے۔ میں اتنا قریب پہنچ گیا کہ رسول اللہ ﷺ کے قرآن پڑھنے کی آواز میں نے سن لی۔ آپ کی توجہ میری طرف نہ تھی مگر حضرت ابوبکر میری طرف زیادہ متوجہ تھے۔ اسی حالت میں اچانک میرے گھوڑے کے دونوں پاؤں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے اور میں نیچے گرپڑا۔ میں نے گھوڑے کو جھڑکا اور خود اٹھا مگر گھوڑا پاؤں باہر نہ نکال سکا۔ گھوڑے نے کوشش کی کہ قد م باہر نکال لے ‘ اس کوشش میں دھویں کی طرح غبار اٹھ کر اوپرچڑھ گیا۔ میں نے پھر تیروں سے فال نکالی مگر وہی فال نکلی کہ میں ان کو ضرر نہ پہنچا سکوں گا۔ آخر میں جان گیا کہ رسول اللہ ﷺ مجھ سے محفوظ کر دئیے گئے ہیں اور وہ غالب آئیں گے ‘ مجبوراً میں نے امان کیلئے پکارا اور کہا : دیکھو ! میری کیا حالت ہے ؟ میں ‘ خدا کی قسم ! ہرگز تم کو کوئی اذیت نہیں پہنچاؤں گا اور میری طرف سے تمہارے لئے کوئی ناخوشگوار حرکت نہ ہوگی۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر سے فرمایا : اس سے پوچھو کہ کیا چاہتا ہے ؟ میں نے کہا : آپ کی قوم نے آپ کے سلسلہ میں انعام مقرر کیا ہے۔ غرض لوگوں کا جو مقصد تھا ‘ میں نے اس کی اطلاع آپ کو دے دی۔ کچھ زاد راہ اور سامان کی بھی پیشکش کی مگر آپ نے مجھے کوئی تکلیف نہ دی نہ کچھ مانگا ‘ صرف اتنا فرمایا کہ ہماری خبر ظاہر نہ کرنا۔ میں نے درخواست کی کہ (آئندہ کیلئے) مجھے کوئی پروانۂ امن لکھ دیجئے۔ آپ نے حکم دیا : ابوبکر ! اس کو لکھ دو ۔ دوسری روایت میں ہے کہ عامر بن فہیرہ کو لکھ دینے کا حکم دیا ‘ عامر نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر لکھ دیا۔ پھر حضور ﷺ چل دئیے اور (علاقۂ ) مدینہ میں داخل ہونے کے وقت حضرت ابوبکر سے فرمایا : نبی کیلئے جھوٹ بولنا سزاوار نہیں (اسلئے) اگر لوگ مجھ سے پوچھیں گے کہ کیا پیغمبر (یہ تو مجھے صاف کہنا پڑے گا) تم لوگوں کو (کسی تدبیر سے) ٹال دینا۔ چناچہ حضرت ابوبکر سے جب دریافت کیا گیا : آپ کون ہیں ؟ تو آپ نے جواب دیا : ایک غرض مند۔ اور جب پوچھا گیا : یہ تمہارے ساتھ والے کون ہیں ؟ تو حضرت ابوبکر نے فرمایا : راہنما ‘ جو مجھے راستہ بتاتے ہیں۔ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ کے قریب پہنچے تو ابو بردہ اسلمی نے اپنی قوم بنی اس ہم کے ستر آدمیوں کو لے کر آپ کا استقبال کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم کون ہو ؟ ابو بردہ نے کہا : بریدہ۔ حضور ﷺ نے فرمایا : ابوبکر ! ہمارا کام درست اور ٹھیک ہوگیا (بریدہ کا معنی ہے ٹھنڈا ‘ برودت ٹھنڈک۔ اردو میں اگرچہ ٹھنڈا ہوجانے یا ٹھنڈک پر جانے کا مطلب ہوتا ہے کسی بات کا ختم ہوجانا ‘ مگر عربی میں اس کا مفہوم ہے درست ہوجانا کیونکہ جب اختلاف اور جھگڑے کی آگ بجھ جائے گی اور خصومت کی گرمی جاتی رہے گی تو معاملہ میں خنکی یعنی درستگی پیدا ہوجائے گی۔ رسول اللہ ﷺ نے لفظ بریدہ سن کر اسی مبارک فال کی طرف اشارہ کیا اور استقبال کرنے والے کا نام سنتے ہی اپنے کام کی درستگی پر استدلال کیا) فرمایا : کس قبیلہ سے ہو ؟ ابو بردہ نے کہا : بنی اسلم سے۔ حضور ﷺ نے حضرت ابوبکر سے فرمایا : ہم کو سلامتی حاصل ہوگئی (لفظ اسلم سے سلامتی پر استدلال کیا) پھر فرمایا : بنی اسلم کس کی شاخ ہے ؟ ابو بردہ نے عرض کیا : بنی سہم کی۔ فرمایا : تیرا سہم (حصہ یا تیر) نکل آیا۔ صبح ہوئی تو بریدہ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : مدینہ میں داخل ہوتے وقت آپ کا ایک جھنڈا ہونا ضروری ہے۔ چناچہ انہوں نے اپنا عمامہ خود کھول کر اس کا پھریرا بنایا اور ایک نیزے میں باندھ کر رسول اللہ ﷺ کے سامنے سے گذرے۔ حاکم نے لکھا ہے : یہ خبر متواتر ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ سے دو شنبہ کے دن برآمد ہوئے تھے اور دو شنبہ ہی کو مدینے میں داخل ہوئے۔ صرف محمد بن موسیٰ خوارزمی جمعرات کے دن مکہ سے روانگی کے قائل ہیں۔ حافظ (ابن حجر) نے دونوں قولوں کا تعارض اس طرح دور کیا کہ مکہ سے جمعرات کے دن برآمدگی ہوئی اور تین رات غار میں رہے یعنی شب جمعہ ‘ شب شنبہ ‘ شب یک شنبہ ‘ پھر پیر کی رات کو غار سے برآمد ہوئے۔ میں کہتا ہوں : شاید جمعرات کی رات ہی کو مشورہ کے بعد قریش نے رسول اللہ ﷺ کو قتل کردینے کا ارادہ کیا تھا اور اسی رات کو رسول اللہ ﷺ اپنے مکان سے نکل کر حضرت ابوبکر کے مکان پر گئے تھے اور دونوں ساتھ ہو کر مکان کی پشت کی طرف والے دریچہ سے برآمد ہوئے تھے۔ وا اللہ اعلم وجعل کلمۃ الذین کفروا السفلی اور کافروں کی بات (یعنی کلمۂ شرک یا دعوت کفر) کو اللہ نے نچلا کردیا۔ مدینہ تک کافروں کی ایذاء سے محفوظ رکھا ‘ مختلف مقامات میں فرشتوں کے ذریعہ سے امداد پہنچائی۔ جہاں بھی کافروں نے گھیرا ‘ وہیں اللہ نے مدد کی اور محفوظ رکھا۔ وکلمۃ اللہ ہی العلیا اور اللہ کا بول (یعنی کلمۂ توحید یا دعوت اسلام) تو بالا ہی ہے۔ وکلمۃُ اللہ کو پیش کے ساتھ پڑھنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ کا بول تو واقع میں اونچا ہی ہے۔ اس واقعی حصر کو بتانے کیلئے (مبتداء اور خبر یعنی کلمۃ اللہ اور العلیا کے درمیان) لفظ ھِیَکا اضافہ کیا۔ بعض علماء کے نزدیک کافروں کے کلمہ سے مراد ہے وہ خفیہ فیصلہ جو کافروں نے دارالندوہ میں رسول اللہ ﷺ کو قتل کرنے کیلئے کیا تھا اور کلمۃ اللہ سے مراد ہے اللہ کا وعدہ کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی مدد کرے گا اور آپ کو نصرت یاب بنائے گا۔ وا اللہ عزیز حکیم۔ اور اللہ (اپنے تمام امور میں اور تدبیروں میں) غالب اور حکمت والا ہے۔
Top