Mafhoom-ul-Quran - Az-Zumar : 46
قُلِ اللّٰهُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ عٰلِمَ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ اَنْتَ تَحْكُمُ بَیْنَ عِبَادِكَ فِیْ مَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
قُلِ : فرمادیں اللّٰهُمَّ : اے اللہ فَاطِرَ : پیدا کرنے والا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین عٰلِمَ : اور جاننے والا الْغَيْبِ : پوشیدہ وَالشَّهَادَةِ : اور ظاہر اَنْتَ : تو تَحْكُمُ : تو فیصلہ کرے گا بَيْنَ : درمیان عِبَادِكَ : اپنے بندوں فِيْ مَا : اس میں جو كَانُوْا : وہ تھے فِيْهِ : اس میں يَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے
کہو کہ اے اللہ ! اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے ‘ پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والے، تو ہی اپنے بندوں میں ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں
اللہ کی کچھ اور قدرتیں تشریح : یہ باتیں اللہ تعالیٰ اپنے پیارے رسول کی زبان سے بار بار لوگوں کو سناتا ہے اور قرآن کے ذریعہ سے بار بار ہماری آنکھوں کے سامنے لاتا ہے کہ اللہ سب سے بڑا ہے قدرت والا ہے۔ اس کے برابر کوئی نہیں ہوسکتا یہ کوئی غلط یا انہونی بات نہیں کیونکہ ہم خود اور ہمارے چاروں طرف پھیلی ہوئی یہ پوری کائنات ہمیں یہ بتا رہی ہے کہ اس کو بنانے والا ایک ہی ہے ورنہ یہ نظم و ضبط جو کائنات کے کارخانے میں موجود ہے کبھی ایک سا نہ رہتا۔ وہ کیونکہ عالم الغیب ہے اور رحمن و رحیم ہے اس لیے بار بار بتا رہا ہے کہ نیکی کی راہیں اختیار کرو، شیطان کو دوست مت بناؤ کیونکہ نیکی کا راستہ جنت کو اور شیطان کا راستہ دوزخ کو جاتا ہے۔ یہ پکی بات ہے کہ قیامت آئے گی، حساب کتاب ہوگا تو پھر بھی انسان لاپرواہی اور سستی میں دن رات گزار رہا ہے۔ یعنی احمق ہے انسان کہ اتنے بڑے مالک کی بات اس کی سمجھ میں نہیں آرہی۔ اس کی مثال ہم یوں دے سکتے ہیں کہ بیماری کی حالت میں ڈاکٹر ہمیں صحت کی بحالی کیلئے کچھ چیزوں کے کھانے سے اور کاموں کے کرنے سے کچھ دنوں کے لیے منع کردیتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر صحت کی بحالی چاہتے ہو اور تندرست ہونے کے بعد سب کچھ ہمیشہ کھانا اور ہر کام ہمیشہ کرنا چاہتے ہو تو پھر چند دن، ہفتے یا مہینے احتیاط سے یہ کھاؤ یہ نہ کھاؤ، یہ کرو اور یہ نہ کرو۔ ہم اس کی نصیحت پر عمل کرتے ہیں اور ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ ہم ڈاکٹر کی بات کو اہمیت دیتے ہیں مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس رب اعلیٰ کی بات پر دھیان نہیں دیتے اور ہر اس کام کی طرف لپکتے ہیں جو آخرت میں عذاب کا باعث ہوگا۔ ہم اس رزق کیلئے دن رات جائز و ناجائز راستے اختیار کرتے رہتے ہیں جس کا ذمہ خود اللہ نے لے رکھا ہے۔ پیدا کرنا اور رزق دینا یہ تو اللہ رب العزت کا ہی کام ہے۔ ہاں اس کی بتائی ہوئی راہوں پر چل کر انتہائی احتیاط ‘ خلوص اور محنت سے ہر کام کرنا ہر شخص کا فرض ہے مگر ضروری ہے کہ اپنی سوچ میں سب سے اول یہ سوچ رکھے کہ یہ جہان فانی ہے یہاں سے سوائے اعمال کے کچھ بھی ساتھ نہ جائے گا۔ بیوی ‘ بچے ‘ مال اسباب سب یہاں ہی رہ جائے گا صرف نماز، روزہ، اعمال صالحہ، نیک نیتی، خلوص محبت اور ایمان کامل اللہ پر رسول پر اور آخرت پر ہماری نجات کا باعث بنیں گے۔ یہ بات سمجھنے کیلئے ایک چھوٹی سی مثال دیتی ہوں۔ ہمیں کوئیـ شخص جھوٹ موٹ کہہ دیتا ہے کہ دیکھو دیکھو تمہارے اوپر بچھو یا کیڑا چڑھ رہا ہے “۔ تو آپ بتائیں کہ آپ کس خوف اور پریشانی میں اٹھ کر کپڑے جھاڑنے لگتے ہیں ؟ تو کیا اللہ و رسول کی یہ اطلاع یا وارننگ آپ کے اندر کوئی خوف پیدا نہیں کرتی ؟ بیشک یہ دنیا طرح طرح کی خواہشات سے بھری پڑی ہے مگر ہماری نجات اور ہمارا فائدہ اسی میں ہے کہ ہم اپنے نفس کو قابو میں رکھ کر جائز خواہشات کو اللہ کے مقرر کردہ قانون کے اندر رہ کر پورا کریں تاکہ دنیا بھی کمائیں اور آخرت بھی کمائیں۔ کیوں نہ بہترین چیز کیلئے بد ترین چیز کو چھوڑ دیا جائے۔ انسانی نفس کے تین درجات ہیں۔ نفس امارہ ‘ نفس لوامہ اور نفس مطمٔنہ۔ نفس مطمنہ مومنین کی میراث ہے کیونکہ یہ لوگ بڑی آسانی سے خود کو شیطان سے بچا کر جنت کی راہ پر چل سکتے ہے۔ یہ بات اتنی ہی حقیقت پر مبنی ہے یعنی اتنی ہی سچ ہے جتنی کہ آپ خود کو کچھ دیر کیلئے سورج کی تیز دھوپ میں کھڑا رکھیں یا ابلتا ہوا پانی اپنے اوپر ڈال لیں۔ اگر یہ مشکل ہے تو جہنم کی آگ کس طرح برداشت ہوگی۔ جس کا ذکر قرآن پاک میں بیشمار دفعہ آچکا ہے۔ اور یہ بالکل سچ ہے، قرآن پاک میں اس طرح کی بیشمار آیات موجود ہیں مثلاً ” اور یہ کہ انسان کیلئے کچھ نہیں مگر وہ جس کی اس نے کوشش کی “۔ (سورۃ النجم آیت 39)
Top