Tafseer-e-Majidi - Az-Zumar : 46
قُلِ اللّٰهُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ عٰلِمَ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ اَنْتَ تَحْكُمُ بَیْنَ عِبَادِكَ فِیْ مَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
قُلِ : فرمادیں اللّٰهُمَّ : اے اللہ فَاطِرَ : پیدا کرنے والا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین عٰلِمَ : اور جاننے والا الْغَيْبِ : پوشیدہ وَالشَّهَادَةِ : اور ظاہر اَنْتَ : تو تَحْكُمُ : تو فیصلہ کرے گا بَيْنَ : درمیان عِبَادِكَ : اپنے بندوں فِيْ مَا : اس میں جو كَانُوْا : وہ تھے فِيْهِ : اس میں يَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے
آپ دعا کیجئے کہ اے اللہ آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے باطن اور ظاہر کے جاننے والے تو ہی اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کردے گا جن امور میں یہ اختلاف کرتے رہتے تھے،60۔
60۔ الفاظ دعاء کے اندر توحید کی اعلی تعلیم نہایت حکیمانہ انداز سے آگئی ہے، دعاء کا حاصل بس یہی ہے کہ زمین و آسمان کی پیدائش میں کوئی تیرا شریک نہیں، علم غیب میں کوئی تیرا شریک نہیں، قادر وحاکم ہونے میں کوئی تیرا شریک نہیں۔ خالق تو ہے، عالم الغیب تو ہے، مالک روز جزا تو ہے، ہمہ داں، ہمہ بیں تو ہی ہے۔ (آیت) ” فاطر السموت والارض “۔ قدرت کامل میں کوئی تیرا شریک نہیں۔ (آیت) ” علم الغیب والشھادۃ “۔ علم کامل میں کوئی تیرا شریک نہیں۔ (آیت) ” انت ...... یختلفون “۔ فیصلہ روز جزا میں کوئی تیرا شریک نہیں۔ توحید میں غلطی وگمراہی کے عموما یہی تین راستے رہے ہیں۔ آیت نے سب کی تردید کردی۔
Top