Tafseer-e-Majidi - Al-Anbiyaa : 106
وَ لَا تَجْعَلُوا اللّٰهَ عُرْضَةً لِّاَیْمَانِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْا وَ تَتَّقُوْا وَ تُصْلِحُوْا بَیْنَ النَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
وَلَا تَجْعَلُوا : اور نہ بناؤ اللّٰهَ : اللہ عُرْضَةً : نشانہ لِّاَيْمَانِكُمْ : اپنی قسموں کے لیے اَنْ : کہ تَبَرُّوْا : تم حسن سلوک کرو وَ : اور تَتَّقُوْا : پرہیزگاری کرو وَتُصْلِحُوْا : اور صلح کراؤ بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سنے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
آپ دعا کیجئے کہ اے اللہ آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے باطن اور ظاہر کے جاننے والے تو ہی اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کردے گا جن امور میں یہ اختلاف کرتے رہتے تھے،60۔
60۔ الفاظ دعاء کے اندر توحید کی اعلی تعلیم نہایت حکیمانہ انداز سے آگئی ہے، دعاء کا حاصل بس یہی ہے کہ زمین و آسمان کی پیدائش میں کوئی تیرا شریک نہیں، علم غیب میں کوئی تیرا شریک نہیں، قادر وحاکم ہونے میں کوئی تیرا شریک نہیں۔ خالق تو ہے، عالم الغیب تو ہے، مالک روز جزا تو ہے، ہمہ داں، ہمہ بیں تو ہی ہے۔ (آیت) ” فاطر السموت والارض “۔ قدرت کامل میں کوئی تیرا شریک نہیں۔ (آیت) ” علم الغیب والشھادۃ “۔ علم کامل میں کوئی تیرا شریک نہیں۔ (آیت) ” انت ...... یختلفون “۔ فیصلہ روز جزا میں کوئی تیرا شریک نہیں۔ توحید میں غلطی وگمراہی کے عموما یہی تین راستے رہے ہیں۔ آیت نے سب کی تردید کردی۔
Top