Mafhoom-ul-Quran - Az-Zukhruf : 40
اَفَاَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ اَوْ تَهْدِی الْعُمْیَ وَ مَنْ كَانَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
اَفَاَنْتَ : کیا بھلا تو تُسْمِعُ الصُّمَّ : تو سنوائے گا بہروں کو اَوْ تَهْدِي : یا تو راہ دکھائے گا الْعُمْيَ : اندھوں کو وَمَنْ كَانَ : اور کوئی ہو وہ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ : کھلی گمراہی میں
کیا تم بہرے کو سنا سکتے ہو یا اندھے کو رستہ دکھا سکتے ہو، اور جو صریح گمراہی میں ہو اسے راہ پر لاسکتے ہو ؟
برُوں کا انجام اور عبرت کا مقام تشریح : ان آیات میں سب سے پہلے نبی اکرم ﷺ کو تسلی کے طور پر مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ لوگوں کے دلوں سے کفر کو نکال کر ایمان کی روشنی ڈالنا کوئی آسان کام نہیں جیسا کہ شروع دن سے یہی ہوتا آیا ہے کہ نبی آتے رہے لوگوں کو توحید و ایمان کی تعلیم دیتے رہے کچھ نے مانا اور بہت سوں نے نہ مانا اور جنہوں نے نہ مانا وہ اللہ کے غصے کا شکار ہوئے عذاب آیا دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ان کو عذاب ہی ملے گا۔ تو فرمایا اے پیارے نبی ﷺ ! آپ اپنا تبلیغ کا کام کئے جائیں ان تمام لوگوں سے ہم خود نمٹ لیں گے۔ اس کی مثالیں تاریخ میں بھری پڑی ہیں۔ ایک مثال تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی آپ کے سامنے موجود ہے۔ یہ قصہ بڑی تفصیل سے گزر چکا ہے مختصراً عرض ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون قبطیوں اور نبی اسرائیل کی طرف معجزے دیکر توحید کی تعلیم دینے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ مگر وہ باوجود عذاب دیکھنے کے راہ راست پر نہ آئے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دو مشہور معجزے ہیں یعنی لاٹھی کا اژدھا بن جانا اور ہاتھ کا روشن ہونا، اسی طرح فرعونیوں پر اللہ کے عذاب آتے رہے مثلاً طوفان آیا، ٹڈیاں آئیں، جوئیں آئیں، مینڈک کی بارش ہوئی، اور تمام کھیت مال مویشی تباہ و برباد ہوگئے۔ ہر عذاب کے آنے پر توبہ استغفار کرتے مگر پھر اپنی پہلی چال پر چلنے لگتے یعنی شرک و کفر۔ تو یوں انہوں نے رب العزت کو بالکل ناراض کرلیا تو بالاخر ان پر اتنا شدید عذاب آیا کہ سب کے سب غرق ہوگئے اور ایسے غرق ہوئے کہ قیامت تک تمام لوگوں کے لیے عبرت کی مثال بنے رہیں گے۔ وہ یوں کہ فرعون کی لاش عجیب و غریب حال میں مصر کے عجائب گھر میں محفوظ پڑی ہوئی ہے۔ جس کو لوگ دیکھنے جاتے ہیں اور توبہ توبہ کرتے ہیں۔ یہ حال تو اس کا دنیا میں ہو رہا ہے آخرت میں تو نجانے کیا ہوگا۔ یہ سب کچھ اس کو اپنے کئے گئے اعمال کے بدلے میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ جیسا کہ تفصیلات آیات 46 سے 56 میں بیان کی گئی ہیں۔ تو جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن میں بار بار قصوں کو دہرایا گیا ہے انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن پاک ہدایت کی کتاب ہے۔ ہدایت دینے کے لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ مثالیں دے کر ہر بات کو اچھی طرح واضح کردیا جائے یعنی سبق دینے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کے متعلقہ مضامین کو زندہ کہانیوں کے ذریعے واضح کردیا جائے جیسا کہ درس و تدریس کا بہترین ذریعہ اخبارات رسائل ریڈیو اور ٹیلی ویژن ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے ان تمام گزری ہوئی قوموں کے حالات تفصیل سے بار بار بیان کرتا ہے کہ لوگ ہدایت پائیں اور برائی کے انجام سے عبرت حاصل کریں۔ اسی سلسلہ میں اگلی آیات میں حضرت مریم (علیہ السلام) و حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ بیان کیا جا رہا ہے۔ ملاحظہ ہو۔
Top